مسلمانوں سے ہمدردی کا کھیل

بی جے پی کے سابق صدر نتن ’بھائی‘ گڈکری جی کو آج کل مسلمانوں کی کچھ زیادہ ہی فکر ستانے لگی ہے ۔وہ مسلمانوں کو اپنی پارٹی سے قریب کرنے کے لئے خوب سے خوب تر جتن بھی کررہے ہیں اور مسلمانوں کی پسماندگی کے حوالے سے براہِ راست کانگریس پرنشانہ بھی سادھ رہے ہیں۔ بی جے پی نے انہیں دہلی اکائی کاانچارج بنارکھا ہے اور غالباً دہلی انتخابات کے پیش نظر ہی ان کا مسلمانوں کی ہمدردی کا کٹورہ چھلک رہا ہے۔مسلمانوں سے اپنی اور پارٹی کی ہمدردی کے اظہار کے ضمن میں کبھی وہ اردو اخبارات کے مدیران سے اپنے دولت کدے پر ملاقات فرمارہے ہیں تو کبھی مسلمانوں کی پسماندگی کا اصل سبب کانگریس کا گردانتے ہوئے مسلم نوجوانوں کو آئی اے ایس و آئی پی ایس بنانے کی وکالت کررہے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی پارٹی سے جوڑنے اور خود کوواپنی پارٹی کو مسلمانوں کا سچا ہمدردر ثابت کرنے کی حالیہ کوشش کی ضمن میں گزشتہ 28نومبر2013کو اردو کے ایک روزنامہ میں ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یہ ناقابلِ تردید حقیقت کہ دہشت گردی صرف دہشت گردی ہوتی اور اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ، دہشت گردی کو مسلمانوں سے جوڑنے کی اپنی دیرینہ روایت کا اظہار کیا۔اپنے انٹرویو میں اگر ایک جانب وہ کانگریس پر دہشت گردوں کے ’تسٹی کرن ‘(منہ بھرائی ) پر الزام عائد کرتے ہوئے تو دوسری جانب دہشت گردی کے بارے میں اپنا اصل موقف بھی واضح کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ہم آتنک وادیوں کے دشمن ہیں، مسلمانوں کے نہیں‘‘ ۔گویا وہ بظاہر اپنے آپ کو اور بی جے پی کو مسلمانوں کا ہمدردبتاتے ہیں ، مگر اسی کے ساتھ درپردہ دہشت گردی کو مسلمانوں سے جوڑکر انہیں معتوب بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس انٹرویو سے سے 10روز قبل یعنی کہ 18؍نومبر2013کو اردواخبارات کے مدیران کے ساتھ ایک ملاقات میں انہوں نے تقریباً وہی باتیں کہی تھیں ، جو انہوں نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ مذکورہ انٹرویو اسی موقع پر لیا گیا ہو۔قطع نظر اس کے کہ اس انٹرویو سے مذکورہ اخبار کے مدیرمحترم نے کن صحافتی قدروں کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے، اگر ہم مہاشے نتن جی کے مذکورہ انٹرویو کا سطحی جائزہ بھی لیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے کانگریس کے تسٹی کرن(جو سنگھی لیڈران کا تکیہ کلام ہے) کے حوالے سے جس طرح دہشت گردی کو مسلمانوں سے جوڑا ہے ، یہ ان کی اور ان کی پارٹی کا برسوں پرانا شیوہ ہے ۔ اس میں گڈکری اور ان جیسے دیگر سنگھی لیڈران اس قدر مشاق ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا ہمدرد بھی بتاجاتے ہیں اورمسلمانوں کو دہشت گرد بھی قرار دے جاتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ان کے اس ڈرامے بازی کو مسلمان بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان کے جھانسے میں نہیں آتے ہیں۔ لیکن ان سنگھی لیڈران نے اس کا بھی توڑ تلاش کرلیا ہے۔ وہ چند عدد داڑھیوں اور ٹوپیوں اور اردو اخبارات کے چند عدد مدیروں کو جمع کرکے اس طرح اس کی تشہیر کرتے ہیں کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ان سے بڑامسلمانوں کا ہمدرد اور کوئی نہیں ہے۔ نتن گڈکری کے مذکورہ انٹرویو اور اردو اخبارات کے مدیران سے ملاقات کو اسی ضمن میں لیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ دہشت گردی کو مسلمانوں کا ورثہ سمجھنے اور ہر قسم کی دہشت گردی کو مسلمانوں نے جوڑنے کی معاملے میں بی جے پی کی منصوبہ بند کوشش کی ایک عیارانہ تاریخ ہے۔

آنجہانی ہیمنت کرکرے کے ذریعے بھگوادہشت گردی کے بے نقاب ہونے سے قبل تک بی جے پی کے یہی لیڈران ہیں ،جو ملک بھر میں بار بار یہ جملہ دہراتے رہے ہیں کہ ’’ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا ، مگر ہر دہشت گرد مسلمان ضرور ہوتا ہے‘‘۔ یہاں تک کہ ان کی جانب سے دہشت گردی اور مسلمانوں کو ایک سکے کا دورخ قرار دینے کو منصوبہ بند کوشش کی جاتی رہی ہے۔ایسی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جس میں بی جے پی کے لیڈروں نے دہشت گردی کے تعلق سے مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2006 میں ممبئی کے ماٹونگا علاقے میں واقع شان مکھا نند ہال میں اڈوانی اورمودی کا ایک پروگرام ہوا تھا جس میں بی جے پی کے اس وقت کے ریاستی صدر گوپی ناتھ منڈے نے ہر دہشت گرد کو مسلمان قرار دیا تھا۔بی جے پی یا یوں کہیں سنگھ کی جانب سے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کے پروپیگنڈے کی آواز اس قدر شدید تھی کہ اس کے علاوہ اور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس پروپیگنڈے سے پولیس وتفتیشی ایجنسیاں بھی بری طرح متاثررہیں جس کاواضح ثبوت 26/11اور مالیگاؤں ودیگر دہشت گردانہ وارداتوں میں مسلمانوں کی اندھادھند گرفتاریاں رہیں ہیں۔یہ اسی پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کا عام شہری ہی نہیں بلکہ پولیس، تفتیشی وسیکوریٹی ایجنسیاں تک ہر قسم کے دہشت گردانہ وارداتوں میں بادی ٔ النظر مسلمانوں کو ہی اس کا اصل ذمہ دار قرار دیتی رہی ہیں اوریہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

نتن گڈکری اپنے آپ کو سویم سیوک قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی (بی جے پی) کے علاوہ سنگھ بھی اس بات کی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ مسلمانوں کو پارٹی سے قریب کیا جائے۔گڈکری کے مطابق پارٹی مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے۔مسلمانوں کو پارٹی سے جوڑنے کے لئے بی جے پی واس کے لیڈران اپنی حد تک بھرپور کوشش کرر ہے ہیں ، مگر اس کا کیا جائے کہ اس کوشش میں بی جے پی کا ذرہ برابر بھی خلوص ظاہر نہیں ہورہا ہے ۔ اس کا مطمح نظر ہمیشہ کانگریس کو نقصان پہونچانا ہوتا ہے اور اپنے اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے بی جے پی ودیگر سنگھی لیڈران کبھی مسلم ہمدردی کا چادر اوڑھ لیتے ہیں تو کبھی راشٹریہ مسلم ایکتا منچ جیسے چند افرادی تنظیم کو بازار میں لاتے ہیں تو کبھی اردو میں اخبارات وٹیلی ویژن چینل شروع کرنے اعلان کرتے ہیں۔ ان تمام کوششوں کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ دیں یا نہ دیں البتہ کانگریس کو بالکل ہی ووٹ نہ دیں۔ یعنی کہ ان کوششوں کی تہہ میں مسلمانوں کے ووٹ بینک ہونے کا تصور کارفرما ہوتا ہے جوکچھ حد تک صحیح بھی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بی جے پی کو مسلمانوں کی نہیں بلکہ اس ووٹ بینک کی ضرورت ہے جو کسی پارٹی کو کامیاب وناکام بنانے کے لئے پاسنگ کی طرح کام کرتا ہے۔ اب چونکہ مستقبل قریب میں ہونے والے اسمبلی وپارلیمانی انتخابات کے لئے بی جے پی نے اپنی پوری طاقت جھونک رکھی ہے اور وہ کسی بھی طرح دہلی کے اقتدار پر قبضہ چاہتی ہے ، اس لئے یہ فطری ہے کہ بی جے پی اس مضبوط ووٹ بینک کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی حکمتِ عملی بنائے جس کا مثبت یا منفی دونوں استعمال اسے کامیاب بنا سکتا ہے۔

ہمیں مسلمانوں کے ایک ووٹ بینک کے طور پر استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں نے خود اپنی یہی پوزیش بنالی ہے۔ ہمیں اعتراض اس بات پر بھی نہیں ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دینے کی اس سنگھ کی جانب سے ایک مہم جاری ہے جو بی جے پی کی سروے سروا ہے۔ ہمیں بی جے پی کے اس دردِ زہ سے بھی کوئی پریشانی نہیں ہے جو انتخابات کے پیشِ نظر مسلمانوں کی ہمدردی کی شکل میں بی جے پی کے پیٹ میں اٹھ رہا ہے۔ہمیں شکایت اس بات سے ہے کہ بی جے پی کے اس جہاندیدہ سابق صدر کو کیا یہ نہیں پتہ ہے کہ مالیگاؤں ، سمجھوتہ ایکسپریس، اجمیر شریف درگاہ، مکہ مسجد حیدرآباد، مہاراشٹر کے ناندیڑ، پربھنی، جالنہ ، پورنا، واشی، تھانے اور گوا وغیرہ میں ہوئے بم دھماکوں میں راست طور پر بھگوادہشت گردی ملوث رہی ہے؟پھر بھلا وہ کس طرح دہشت گردی سے مسلمانوں سے جوڑ رہے ہیں؟ کیا مہاشے جی اس حقیقت سے بھی بے خبر ہیں کہ ان کی ہی پارٹی کے پروپیگنڈے کے نتیجے میں آج سیکڑوں مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزام میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں، جبکہ ان کی ہی پارٹی کے بھگوادہشت گرد آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں اور جنہیں وہ یا ان کی پارٹی دہشت گرد ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کے اعتماد کا خون کیا ہے اور اس کے نتیجے میں فسادات، بھوک ، مفلسی، ناخواندگی اور بے روزگاری دی ہے۔ مگر اس کا کیا جائے سنگھ پریوار کے پروپیگنڈے کے نتیجے میں یہ مسلمانوں کا مقدر بن گیا ہے۔ مسلمان اس کیفیت سے نکلنا چاہتے ہیں اور اﷲ چاہے گا تو وہ اس سے نکل بھی جائیں گے۔ لیکن کیا اس سے نکلنے کی یہی صورت ہوسکتی ہے کہ وہ بی جے پی کے آلۂ کار بن جائیں؟۔

ہم مہاشے نتن بھائی گڈکری جی سے پوچھنا چاہتے کہ مسلمان بھلا کس طرح آپ کی پارٹی کے ساتھ آئیں جب مظفر نگر فسادات میں راست طور پر ملوث سنگیت سوم اور سریش رانا کو آپ کی پارٹی آگرہ میں اس لئے عزت افزائی کرتی ہے کہ انہوں نے وہاں فرقہ ورانہ فسادات کی آگ بھڑکائی۔ بھلا کس طرح مسلمان آپ کو اپناہمدرد سمجھیں جب آپ اس حقیقت کے اعتراف کے باوجود کہ پاکستان کی آئی ایس آئی ملک میں دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے ، آپ اور آپ کی پارٹی مسلمانوں کو ہی دہشت گردی کا اصل محرک قرار دیتی ہے۔ جبکہ پٹنہ ہوئے بم دھماکوں کے معاملے میں وی ایچ پی سے منسلک 6بھگوا دہشت گردوں کی گرفتاری پر آپ کی زبان گنگ ہے۔ کیا یہ دوغلی پالیسی نہیں ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں محض شک کی بنیاد پر آپ کی پارٹی مسلمانوں کو مجرم قرار دینے لگتی ہے اور دہشت گردی میں واضح طور پرملوث ہونے کے باوجود بھگوادہشت گردوں کی آپ اور آپ کی پارٹی کے لیڈران حمایت کرتے ہیں ۔ کیا یہ آپ کی دوغلی پالیسی نہیں ہے کہ آپ اردو اخبارات کے مدیران سے ملاقات کرکے جن باتوں کی تشہیر ان سے کروارہے ہیں ، آپ کا عمل اس کے صریح خلاف ہے۔وہ نتن جی !آپ کا بھی جواب نہیں کہ ایک طرف آپ مسلمانوں سے ہمدردی کا دم بھی بھرتے ہیں اور دوسری جانب انہیں دہشت گردی سے جوڑ کر انہیں معتوب بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ تو شرم کیجئے۔ اس ملک کے مسلمان اب اتنے معصوم بھی نہیں ہیں کہ وہ آپ کے اس کھوکھلے دعووں کی حقیقت سے ناآشنا ہوں کہ آپ اور آپ کی پارٹی کی آتنک وادیوں سے نہیں، بلکہ مسلمانوں سے دشمنی ہے۔
Azam Shahab
About the Author: Azam Shahab Read More Articles by Azam Shahab: 7 Articles with 3553 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.