پاکستان میں ’’شریفوں‘‘ کی حکمرانی

میں جب بھی گھریلو ذمہ داریوں سے فرصت پا کر کالم لکھنے بیٹھتی ہوں ، میرے میاں خاموشی سے باہر کھسک لیتے ہیں۔عمر کے اِس حصّے میں اُن سے ’’ایسا ویسا‘‘ کوئی خطرہ تو بہرحال نہیں لیکن پھر بھی مردوں کا کیا اعتبار ا س لیے اُن کی جاسوسی کرنے پر پتہ چلا کہ وہ ایک ہوٹل پر بیٹھتے ہیں ۔شریف نامی ہوٹل کے مالک کی ہوٹلوں کی چین ہے اور چونکہ وہ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اِس لیے اُن کا ہوٹل سیاستدانوں کا ’’پاک ٹی ہاؤس‘‘ بنا رہتا ہے جہاں میرے میاں گھنٹوں بلکہ پہروں براجمان رہتے ہیں ۔ میاں نواز شریف صاحب چونکہ آجکل ’’شریفوں‘‘ پر بہت مہربان ہیں اِس لیے اگر وہ کمال مہربانی فرماتے ہوئے’’ہمارے شریف صاحب‘‘ کو کوئی حکومتی عہدہ عنایت فرما دیں تو میرے میاں مجھے بحفاظت واپس مل سکتے ہیں۔

میاں نوازشریف صاحب نے جب سے حکومت میں ایک اور’’شریف‘‘ کا اضافہ کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا ہے، ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ اب پاکستان میں ’’شریفوں‘‘ کی حکومت ہے جس کا یہ نعرہ ہے کہ ’’شرافت‘‘ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں۔اِس لیے ڈرون حملوں پر ہلکا پھلکا احتجاج ہی کافی ہے اورجس حکومت کے پاس ’’شرافت‘‘جیسا انمول خزانہ ہو وہاں کھانے پینے جیسی فضولیات کی عدم دستیابی پر احتجاج کرنا صریحاََ غیر آئینی ہے اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ کسی بھی غیر آئینی حرکت پر آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے جس کی سزا پرویز مشرف صاحب سے پوچھ لیں ۔بڑے میاں صاحب بیشک پاکستان کے سارے ’’شریفوں‘‘ کوشاملِ اقتدار کر لیں لیکن شریف الدین پیر زادہ سے ذرا دُور دُور ہی رہیں کیونکہ اُن کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا ۔

وزیرِاعظم صاحب نے ایک ہی دن میں چیف آف آرمی سٹاف ، چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف جسٹس صاحب کی تقرری کا اعلان کر دیا ۔ویسے تو خواجہ آصف صاحب کو وزیرِ دفاع اور جنابِ پرویز رشید کو وزیرِ قانون وپارلیمانی امورکا اضافی چارج بھی اُسی دن دیا گیا لیکن یہ اضافی ذمہ داری محترم چیف جسٹس کی مہربانی سے ملی۔چیف صاحب نے مسنگ پرسنز کے معاملے پر تاؤ کھاتے ہوئے وزیرِ دفاع کو طلب کر لیا جس کا چارج بھی جنابِ وزیرِ اعظم کے پاس تھا اِس لیے انہوں نے انتہائی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف صاحب کو وزیرِ دفاع مقرر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا‘‘۔شنید ہے کہ اِس تقرری پر جب خواجہ آصف صاحب نے لیت و لعل سے کام لیا تو میاں صاحب نے اُنہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ فکر نہ کریں سپریم کورٹ کے اِس بنچ میں ایک اور خواجہ صاحب بھی موجود ہیں جو یقیناََ ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھیں گے ۔اب اُنہوں نے سپریم کورٹ میں حاضر ہوکر یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ 10 دسمبر تک ’’مسنگ پرسنز‘‘ کو پیش کر دیا جائے گا۔شایدوہ یہ سمجھتے ہونگے کہ10 دسمبرکے بعد’’ جلالی‘‘ افتخار محمد چوہدری صاحب تو ہونگے نہیں اور’’ جمالی‘‘ چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی کو کوئی نہ کوئی چکر چلا کر ’’رام‘‘ کر ہی لیا جائے گا لیکن ایسا ہوتانظرنہیں آتا کیونکہ اب سپریم کورٹ کا ہر معزز جج افتخار محمد چوہدری ہی بننا پسند کرتا ہے اورجنابِ جسٹس جوادایس خواجہ نے تو چیف صاحب کو ’’ولی اﷲ‘‘ بھی مان لیا ہے کیونکہ چیف صاحب نے جسٹس جواد خواجہ کو ایک دن پہلے ہی بتلا دیا تھا کہ اب وزیرِ اعظم لازماََ وزیرِ دفاع مقرر کر دیں گے ۔میاں صاحب نے جنابِ پرویز رشید کو محض حفظِ ما تقدم کے طور پر قانون و پارلیمانی امور کااضافی چارج دیا ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ ہمارے چیف صاحب کا جلال اپنی ملازمت کے آخری ہفتے میں بڑے بڑوں کو ’’بھسم‘‘ کرنے کے درپے ہے اِس لیے وہ کسی وقت بھی وزیرِ قانون کو بھی طلب کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف جنابِ پرویز رشید نے یہ بوجھ محض اِس لیے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیا کہ ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘۔اُمیدِ واثق ہے کہ جونہی جنابِ جسٹس تصدق جیلانی چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالیں گے ، میاں صاحب ایک دفعہ پھر وزیرِ اعظم ، وزیرِ خارجہ ، وزیرِ دفاع اور وزیرِ قانون و پارلیمانی اموربن جائیں گے ۔اِس کے باوجود بھی اگر اُن کا نام گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج نہیں ہوتا تو یقیناََ اِس کے پیچھے بھی امریکہ کی ہی شرارت ہو گی جس پر ہم اور تو کچھ کر نہیں سکتے البتہ ’’شدید احتجاج‘‘ ضرور کریں گے اور بڑے میاں صاحب سے دست بستہ استدعا کریں گے کہ وہ غم غلط کرنے کے لیے ایک دفعہ پھر غیر ملکی دوروں پر نکل جائیں۔

جنابِ آصف زرداری کی طرح اِس بار میاں صاحب نے بھی ’’کھبی‘‘ دکھا کر ’’سجّی‘‘ ماری ۔وہ کہتے تویہی رہے کہ اِس دفعہ سینئر موسٹ جرنیل ہی چیف آف آرمی سٹاف بنے گا لیکن سینئر موسٹ جنرل ہارون اسلم کو اعتبار نہ آیا۔یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے ’’پیر‘‘صاحب سے ’’چلّہ‘‘ بھی کروایا لیکن شاید اُن کا پیر ’’ماٹھا‘‘ تھا اِس لیے ’’چِلّہ‘‘ اُلٹا پڑ گیا اور جنابِ ہارون اسلم کو مستعفی ہو کر گھر سدھارے ۔شنید ہے کہ ہمارے تجزیہ نگاربھی آجکل غصّے سے کھول رہے ہیں اور ’’چڑیا‘‘ والے صاحب نے تو اپنی چڑیا کی گردن ہی مروڑ دی ہے جس نے غلط اطلاع دے کر اُنہیں شرمندہ کر دیا ۔تجزیہ نگاروں کو میاں صاحب پر تاؤ آنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے لیکن میاں صاحب نے ایک دفعہ پھر جنرل عبد الوحید کاکڑ اور جنرل پرویز مشرف کی طرح سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر آنے والے جرنیل کو چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا ۔شاید میاں صاحب کو تین کا ہندسہ بہت پسند ہے ۔اُمیدِ واثق ہے کہ جنرل راحیل شریف ملک و قوم کے لیے بہتر انتخاب ثابت ہونگے کیونکہ اُن کا تعلق اُس فوجی گھرانے سے ہے جس کی قربانیاں لا زوال ہیں ۔وہ میجر شبیر شریف شہید نشانِ حیدر کے چھوٹے بھائی اور میجر عزیز بھٹی شہید نشانِ حیدر کے رشتے میں بھانجے ہیں ۔شُہداء کے خاندان کا یہ سپوت انشاء اﷲ وہی کرے گا جو ملک و قوم کے لیے بہتر ہو گا ۔کچھ لوگ محض شَر کو ہوا دینے کے لیے کہہ رہے ہیں کہ جناب راحیل شریف آمر مشرف کے بہت قریب تھے اِس لیے وہ پرویز مشرف پر دائر کردہ مقدمے کو پسندنہیں کریں گے ۔یہ محض شَر پسندی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ جنرل راحیل شریف صاحب اپنے آپ کو اِس کیس سے الگ ہی رکھیں گے ۔

اِدھر میاں صاحب دھڑا دھڑ تقرریوں میں مصروف ہیں،تو اُدھر جناب عمران خاں نیٹو سپلائی روک کر اپنا سیاسی قَد اونچا کرنے کی تگ و دَو میں ہیں۔تحریکِ انصاف نے نامعلوم افراد کے خلاف ڈرون حملے کی FIR درج کروا دی ۔آفرین ہے خیبر پختونخواہ کی پولیس پر جس نے دو تین دنوں میں ہی تفتیش کرکے مجرمان کا سراغ لگا کر قوم کو بتلا دیا کہ ڈر ون حملے امریکہ اور CIA کرواتے ہیں۔اب FIR میں اُن کا نام درج کر دیا گیا ہے اور دروغ بَر گردنِ راوی ملزمان کی گرفتاری کے لیے انٹر پول کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے ۔ایک دفعہ پھر دروغ بَر گردنِ راوی امریکی صدر بارک اوباما مفرور ہیں اور وائٹ ہاؤس پر انٹرپول کے کئی چھاپوں کے باوجود ہاتھ نہیں آئے ۔CIA چیف بھی تاحال مفقود الخبر ہے لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی آخرچھُری تَلے تو آنا ہی ہے۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643082 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More