زبانیں ضرورت اور حالات کی ایجاد ہیں

تمام انسان پہلے آدم کی اولاد ہیں۔ اول اول یہ مختصر کنبہ تھا جوں جوں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا یہ مختلف علاقوں کی طرف مہاجرت اختیار کرتے گءے تاہم یہ ٹھوس اور اٹل حقیقت ہے کہ انسان اپنی بنیادی ضروریات اور حاجات کے معاملہ میں ایک سی فطرت رکھتا ہے۔ غیر فطری ضروریات اور حاجات الحاقی اور حالات کی دین ہیں۔

انسان کو مہاجرت اختیار کرنے کے باعث مختلف موسمی مزاج زمینی حالات علاقاقائ ضروریات ماحول وغیرہ سے واسطہ پڑا۔ اس ولایت کے حوالہ سے انسان کے آلات نطق اور معاون آلات نطق تشکیل وترکیب پاءے۔ آلات نطق اور معاون آلات نطق کے زیر اثر آوازوں کا نظام تشکیل پایا اور الفاظ آوازوں کے مرہون منت رہے ہیں۔ یہ آوازیں متعلقہ لوگوں کی کسی حد تک ضرورت پورا کرتی رہی ہیں لیکن دیگر علاقوں کے لوگوں کے لیے نافافی رہی ہیں۔ مثلا زاءے فارسی( ژ) کی آواز نکالنا کسی بھی مغربی کے لیے ممکن نہیں۔ اس آواز کے لیے کسی تبادل کی ضرورت پڑے گی۔ تبادل اصل کی کمی پوری نہیں کر سکتا۔ اس وقت دنیا میں قرآن مجید کی زبان کو چھوڑ کر کوئ بھی زبان یا بولی عطائ نہیں ہے بلکہ انسان کی اپنی تخلیق کردہ ہے۔
انسان معاشرت میں رہنے والی خصلت رکھتا اور اس کے معاملات ایک دوسے سے جڑے ہوے ہیں یا انشراح کتھارسز اس کی پہلی اور آخری ضرورت رہی ہے۔ ضرورت اور انشراح کے معاملہ میں وہ اپنی ولایت تک محدود نہیں رہا۔ انسانی میل جول کے حوالہ سے دیگر علاقوں کے لفظوں اور آوازوں کو اپنے حوالہ سے اختیار کرتا آیا ہے اور یہ معاملہ عمومی اور معمول کا رہا ہے۔

انسان کی علاقائ تقسیم کے نتیجہ میں معاشی معاشرتی نظریاتی اور سماجی تفریق نے بھی راہ پائ۔ اسی تناظر میں گروہ کنبے قبیلے جماعیتں وغیرہ وجود میں آءے۔ اس طرح انسان کی ترجیحات کا عمل وجود میں آیا۔ ہر گروہ کنبے قبیلے جماعت وغیرہ نے اپنے وجود اور حثیت کو مظبوط کرنے کے لیے مختلف اقدام کیے۔ ان حالات کے زیر اثر ایک ہی علاقہ میں رہنے والوں کی زبان اور بولی میں فرق آتا گیا اور یہ عمل کبھی ٹھہراؤ کا شکار نہیں ہوا۔

آج ماہرین لسانیات زبانوں کے کنبے اور قبیلے تلاش رہے ہیں اور یہ بھی کھوج رہے ہیں کہ کون سی زبان کس کنبے یا قبیلے سے متعلق ہے۔ ان کی یہ کوشیش قطعی بے معنی ہیں۔ ہر زبان اپنا الگ سے وجود رکھتی ہے ہاں البتہ دوسری زبان اس پر اثرانداز ہوتی ہوئ ہیں۔ انسان ایک ہی کنبہ سے متعلق ہے لیکن یہ تقسیم بعد کی ہے۔ گویا انسانی تقسیم کے ساتھ ہی اس کی ماں بولی نے ہھی ہزاروں رنگ اور روپ اختیار کیے ہیں۔
آج ہی نہیں دو چار صدیوں پہلے کی کسی بھی زبان کا لسانی مطالعہ کر دیکھیں وہ اس وقت بھی خالص ہیں ہو گی۔ اس میں دیگر علاقائ زبانوں کے ساتھ ساتھ دور امرجہ کی زبانوں کے بےشمار الفاظ مل
گءے ہوں گے۔ اس کی کئ صورتیں ملیں گی۔ مثلا
١۔ الفاظ اپنی بناوٹ میں وہی ہوں گے لیکن ان کا تلفظ بدل گیا ہو گا۔
٢۔ لفاظ اپنی بناوٹ میں وہی ہوں گے لیکن ان کے معنی بدل لءے ہوں گے۔
٣۔ الفاظ کی بناوٹ میں تبدیلی آ گئ ہو گی۔
٤۔ الفاظ کے ساتھ مقامی سابقے یا لاحقے پیوند کر دیے گیے ہوں گے۔
٥۔ ہیءتی اور معنوی تبدیلی آ گئ ہو گی۔
٦۔ اس چیز کے لیے مقامی لفظ گھڑ لیا گیا ہو گا۔ مثلا سی ڈی کے لیے توا مستعمل ہے۔
٧۔ استعمالات بدل گءے ہوں گے۔
٩۔ مونث مذکر واحد جمع وغیرہ مقامی طریقہ سے بناءے گءے ہوں گے۔
١٠۔ جمع کو واحد اور واحد کو جمع استعمال کیا گیا ہو گا۔
١١۔ آوازوں اور الفاظ میں بےشمار تبدییاں آ گئ ہوں گی۔
١٢۔ آوازوں کے تبادلات میں تبدیلیاں آگئ ہوں گی۔
١٣۔ نئے مترادفات یا پرانے مترادفات کچھ کے کچھ ہو گئے ہوں گے۔ اصل لفظ تلاشنا ممکن نہیں رہ پاتا۔
یہ تو چند ایک صورتیں درج کی ہیں ورنہ اس کی سیکڑوں صورتیں موجود ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں بنتے کہ فلاں زبان‘ فلاں زبان سے نکلی ہے یا فلاں لفظ فلاں زبان کا ہے۔ نئ زبان میں آ کر لفظ کا اپنی اصل زبان سے رشتہ باقی نہیں رہتا۔ ہر زبان کا اپنا لسانی نظام ہوتا ہے ہاں کسی زبان کے حوالہ سے جدتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ مثلا نواب کی جمع نوابز‘ لیڈی سے لیڈیاں بنائ جا سکتی اور رواج بھی پا سکتی ہیں۔

آج آمد و رفت کے ذرائع بڑھ گئے ہیں۔ دنیا ایک بستی کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اس لیےزبانیں بھی ایک دوسرے سے متاثر ہو رہی ہیں۔ باور رہے یہ عمل کوئ نیا نہیں‘ ہزاروں سال سے جاری ہے۔ ماضی ہو کہ حال‘ حاکم زبانیں نسبتا زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ انگریزی ہی کو دیکھ لیں دنیا کی زبانوں کو کس طرح متاثر کر رہی ہے۔ اس کے اپنے وجود کا مطالعہ کر لیں عہد رفتہ کیا آج بھی محکوم زبانوں سے متاثر ہو رہی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ انسان اپنی بنیادی فطرت کے حوالہ سے ایک سا ہی رہا ہے اور اگر اسے زندہ رہنے دیا گیا توایک سا ہی رہے گا۔ اس کی فطری حاجات میں کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190911 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.