یادِ کربلا - امام حسین رضی اللہ عنہ اور حر

.(4)
محمد صلی اللہ علیہ واَلہ وسلم کی حرمت کا پاس نہیں رکھا۔"
منطق و عقل سے عاری یزیدی فوج حُر کی باتوں کو مذید برداش نہ کر سکی اور انہوں نے حر پر تیروں کی بارش کر دی ۔ حر نے بھی بھپرے ہوئے شیر کی طرح حملہ کیا پے درپے کئی یذیدیوں کا سر قلم کیا اور اپنی تلوار کا حق ادا کیا، جب یذیدی فوج نے دیکھا کے پانی سروں اُونچا ہے تب انہوں نے مل کر حملہ کیا اور یوں یہ فدا حسین شہادت پا کر سرخُرو ہو گیا۔ یہی " خی...ر" تھی جس کے متعلق سوچتے ہوئے وہ دارالامارہ سے رخصت ہوئے تھے۔ آخر وہ بشارت سچ ہوئی اور لشکر یذید کا سردار شیہدوں کی صف اول میں شامل ہو گیا۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت

میدان کربلا کی تپتی اور برسوں سے پیا سی ریت کی تشنگی فدایان حسین کے لہو سے بُجھ رہی تھی۔ آکاش سے پاتال دھرتی تک فرشتوں کی قطاریں بندھی ہوئی تھی جو شہدا کو مرحبا مرحبا کی لوری سُنا رہے تھے۔ فدائی ایک ایک کر کے لبیک کہہ رہے تھے ۔ جعفر، عبداللہ، عباس اور عثمان جو آپ کو بانہوں کے گیرے میں لیے ہوئے تھے انہوں نے شہادت کی چھلکتی صراحی سے جام نوش کیا ۔ اب امام حسین تن تنہا میدان کارزار میں تلوار کی حسرت پوری کر رہے تھے کہ یزیدوں نے ہر طرف سے آپ ؀ کو گیرے میں لے لیا مگر کسی میں بھی وار کرنے کی جرأت نہ تھی اور نہ ہی کوئی یہ گناہ اپنے سر لینا چاہا رہا تھا ۔ بالأخر شمر کے أکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بد بختی اپنے سر لی اور ہاتھ اور گردن پر تلوار کے وار کیے۔ سنسان بن انس نے تیر چلایا اور آپ رضی اللہ عنہ گِر پڑے۔ آپ کے گرنے پر ہی شمر ذی الجوش آپ کی طرف بڑھا۔ أس کی برص زدا شکل دیکھتے ہی آپ ؀ نے فرمایا میرے نانا جی (ص) سچ فرمایا تھا کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہل بیت کے کون سے ہاتھ رنگتا ہے ۔ اے بد بخت تُو وہی کتا ہے جس کی نسبت میرے نانا (ص) خبر دی تھی۔ اس کے بعد أس بد بخت نے پیچھے کی طرف سے وار کر کے سر مبارک گردن سے جدا کردیا۔
یوں ۳ ذوالحج ۶۰ھ کا چلا ہوا قافلہ ۱۰ محرم ۶۱ ھ کو منزل مقصود پر پہنچا۔

Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 62154 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.