مدن اور آلو ٹماٹر کا جال

لفظ جب تشکیل و ترکیب پاتا ہے مخصوص معنویت کا حامل ہوتا ہے۔ مخصوص ماحول‘ مزاج‘ نفسیات‘ موڈ‘ لب ولہجہ‘ بناوٹ‘ کلچر وغیرہ رکھتا ہے۔ مستعمل اور معروف ہو جانے کی صورت میں محدود نہیں رہتا۔ بلکل ایسی صورت مہاجر آوازوں اور الفاظ کے ساتھ پیش آتی ہے۔ شخص زبان کا پابند نہیں زبانیں شخص کی پابند ہیں۔ زبانوں کو اپنے استعمال کرنے والوں کے حالات ضرورتوں ماحول موڈ کلچر وغیرہ کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ اگر شخص کو زبان کا پابند کر دیا جائے گا تواظہار میں مشکل یی نہیں خیال اور جذبے کی اصلیت باقی نہیں رہتی یا اس میں قوت برقرار نہیں رہ پاتی۔ وہ کچھ کا کچھ ہو سکتا ہے۔

اظہار کے ساتھ ساتھ زبان بھی محدود رہتی ہے۔ مکتوبی صورت کوئ بھی رہی ہو اسٹریٹ ان پابندیوں کو خاطر میں نہیں لاتی۔ شاعر عروضی پابندی کے سبب کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا پیغمبر عظیم تر۔۔۔۔۔۔۔عروضی مجبوری کے باعث وہ گستاخی کا مرتکب ہوا ہے۔ گویا پابندی خیال یا چذبے کا ستیاناس مار کر رکھ دیتی ہے۔ درست ابلاغ تب ہی ممکن ہے جب زبان شخص کے خیال کی پابند ہو گی۔ اس حوالہ سے دیکھا جائے تو زبان کا تفہیمی واظہاری کلچر مخصوص ومحدود نہیں کیا جا سکتا۔ شخص سی ٹی کہہ کر سی ڈی‘ لیڈیاں کہہ کر لیڈیز مراد لے گا۔ قلفی کہہ کر قفلی مراد لے گا۔ حور اسامی اوقات احوال وغیرہ واحد استعمال ہوتے رہیں گے۔ جلوس کو عربی معنوں میں کبھی بھی استعمال نہیں کیا جائے گا۔ غریب کے معنی گریب ہی لیے جائیں گے۔ شراب کو واءین کے معنی دیے جاتے رہیں گے اور اسے عربی سمجھا جاتا رہے گا حالانکہ یہ شر+ آب ہے۔ عربی فارسی کا آمیزہ ہے۔ عینک عین + نک عربی اور دیسی زبانوں کا آمیزہ ہے۔ گلاس کے معنی پانی پینے والا ظرف مستعمل رہیں گے۔ بات یہاں تک محدود نہیں ان کا استعمال بھی شخصی ضرورت خیال جذبے اور موڈ کا پابند ہے۔ متضاد الگ سے اور نئے معنی سامنے آتے رہنا حیرت کی بات نہیں۔

برتن کل کرنا کا برتن دھونے کے معنوں میں استعمال ہونا میرے سمیت ہر کسی کے لیے عجیب ہو گا۔ مزے کی بات‘ اسٹریلیا میں مستعمل ہے۔ ہم اسے توڑنا پھوڑنا کے معنی دیں گے۔

ناصر زیدی نے اپنے ٢٦ نومبر کے کالم میں مرکب۔۔۔۔۔۔۔۔مرتب و مدن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ استعمال کیا۔ میں آگے بڑھنے کی بجاءے اس مرکب میں پھنس گیا۔ پہلے تو میں اسے مدن لال کے لباس کی ترتیب سمجھا۔ پھر میرے سوچ کا زاویہ مدن بان یعنی کام دیوا کی طرف مڑ گیا۔ کام دیوا کے حوالہ سے شخصی حسن اوراعضائ ترتیب کی جازبیت کی طرف توجہ پھر گئ۔

شخصی حسن اور آلات تخلیق کی صفائ ستھرائ کی طرف خیال کا پھر جانا فطری سی بات تھی۔ فنی چابک دستی یہ تھی کھ جنس کی تخصیص موجود نہ تھی۔ مردانہ ہوتے تو زنان کے لیے دلچسپی کا سبب ہو سکتے تھے۔ زنانہ ہوتے تو مرد روز اول سے لکیر کا فقیر رہا ہے۔ مجھے ناصر زیدی کے سوچ اور لفظ کے استعاراتی استعمال کو بےاختیار داد دینا پڑی۔ انھوں نے دونوں اصناف کو دائرے میں لے کر اپنی قلمی ہنر مندی کا ثبوت دیا۔ ان کا یہ کالم جیسا کہ مرتب و مدن سے پہلے کی سطور سے واضح ہوتا تھا کہ وہ کسی کتاب سے متعلق تھا۔

مجھے لگا یہ کتاب ڈاکٹر وی پی سوری کے پی ایچ ڈی کے مقالے شہوت سے شہوانی معلومات کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ سوچا یہ کتاب واجدہ تبسم کا افسانہ اترن جسے کاما سوترا کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے‘ کی جدید ترین شرح بھی ہو سکتی ہے۔ میں نے سوچا عین مکن ہے ہیولاک ایلس کی کاوش تانترہ کو نیا کالب دے دیا گیا ہو گا۔ یہ کوئ حیرت کی بات نہیں کوک شاستر کے حوالہ سے مواد وافر دستیاب ہے۔ وہی وہانوی نے جنس پر بہت کچھ لکھا تھا۔ اسی طرح ڈاکٹر سلیم اختر نے مرد جنس کے آءنے میں‘ عورت جنس کے آءنے میں اور شادی جنس اور جذبات ایسی کتب کے تراجم کیے ہیں۔ اس حوالہ سے کام بند نہیں ہوا۔ گویا سلسلہ جاری ہے۔

جنس کوئ عام اور معمولی موضوع نہیں۔ بڑے بڑے لوگ آلات زنانہ کے معاملہ میں حساس واقع ہوئے ہیں۔ دو بیبیاں تنہائ میں بیٹھی آلات مردانہ پر بڑی خاموشی سے تبصرہ کر رہی تھیں۔ دو مرد قہقہے لگاتے ہوتے وہاں سے گزرے۔ ایک نے پوچھا یہ کس قسم کی باتیں کر رہے ہوں گے۔ دوسری نے جوابا کہا ان کی باڈی لنگوءج بتا رہی تھی کہ وہ ہمارے آلات پر گفتگو کرکے زبانی کلامی اور خیالی مزے لے رہے تھے۔ سوال کرنے والی کے منہ سے نکلا بڑے بےشرم ہیں۔ یہ واقعہ یاد آتے ہی میری توجہ پودوں کی طرف چلی گئ۔ مدن پودوں سے متعلق بھی ہے۔ عشق‘ محبت‘ بہار اور بغل گیری مفاہیم درج بالا امور کی طرف چلے جاتے ہیں۔ شہد کی مکھی کو بھی گول کرنا پڑا کیونکہ ان کی آوازیں حالات مخصوصہ کی آوازوں سے مماثل ہوتی ہیں۔ لفظ بےشرم نے جنسیات سے متعلق سوچنے سے منع کر دیا ورنہ نیاز فتح پوری کی تصنیف جنسیات کی طرف سوچ کا دھارا بڑی تیزی سے مڑ رہا تھا۔

درخت امن اور جنگ میں انسان کے کام آتا رہا ہے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کتاب درختوں سے متعلق ہو گی چونکہ ناصر زیدی اس کتاب پر گفتگو کر رہے ہیں لہذا پڑھنے لاءق ہو گی۔ میں مدن سے آگے بڑھنے والا ہی تھا کہ اندر سے آواز آئ منڈی سے آلو اور ٹماٹر لا دیں۔ حکم بےغم کا تھا اس لیے بقیہ کالم پڑھے بغیر آلو ٹماٹر اور ان کے تیز ببھاؤ کی سوچوں میں مقید منڈی کی طرف بڑھ گیا۔ اس حقیقت کا ویروا کہ لفظ معنویت اور استعمالی حوالہ سےمحدود نہیں‘ اگلی نششت تک ملتوی کرنا پڑا۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190935 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.