آج سبزی منڈی کے بھاؤ اعتدال پر تھے۔ بیگم نے اگر دو دن
صبر کر لیا ہوتا تو اس کا کیا جاتا۔ مجھے اس پر غصہ نہ آیا کیونکہ اس وچاری
کے پاس کون سی الہامی شکتی تھی۔ یہ بھی کہ حالات بتا رہے تھے کہ بھاؤ اوپر
ہی اوپر جاﺀیں گے۔ دوسرا ضرورت تو اس وقت تھی۔ بعد ضرورت میسر آتی چیز کو
کیا کرنا ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ ہم کون سے بیوپاری ہیں جو خوردنی اشیاء کو
ذخیرہ کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ ذخیرہ منوں کا ہو یا آدھ پاؤ سیر کا ہو ذخیرہ
ہی کہلائے گا۔ ذخیرہ کی عادت اس میں بہرطور ہے۔ آدھ کلو ٹماٹر اور دو کلو
آلؤ تو ذخیرہ ہو گیے۔ اگر یہی ایک ٹماٹر اور آدھ کلو آلو دوکان سے منگوا
لیتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ آج پنتس روپے کلو آلو چھیاسٹھ روپیے کلو
ٹماٹر بک رہے تھے۔
قیمتیں آویزاں ہوں تو بھاؤ کرنے کا سیاپا نہیں کرنا پڑتا۔ بھاؤ کرنے کا عمل
بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میری اس عمل سے جان جاتی ہے۔ یہ جنجال گریبوں یعنی
بھوکے ننگوں اور کنگلوں تک محدود ہے۔ اس کرپٹ معاشرے میں بھی جان مارتے ہیں
اور ہاتھ کچھ نہیں لگتا۔ بیسیوں بلامحنت کمائ کے ذراءع موجود ہیں۔ یہ بھی
امکان غالب ہے کہ ان دھندوں سے متعلق لوگ ان لوگوں کو اپنے کام کا نہ
سمجھتے ہوں۔ ایمان داری کی مہلک بیماری کے سبب ان پر یقین بھی نہیں کیا
سکتا۔
ٹماٹر آلو اور پودینے کی جریداری کرنے کے بعد میں اپنی نشت پر آ بیٹھا بقیہ
کالم پڑھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ ایک صاحب آدھمکے۔ مروت کا تقاضا تھا
کہ جعلی سی مسکراہٹ کے ساتھ انھیں خوش آمدید کہنا پڑا۔ وہ تو بعد میں پتہ
چلا کہ موصوف گن کی گتھلی ہیں۔ لطاءف و ظرافت کا ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ
حکمت بھی بلا کی رکھتے ہیں۔ ضرورت مندوں کے لیے گولیاں شلوار والی جیب میں
رکھتے ہیں۔ ان سے گولیاں لیتے وقت گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ پہلے اپنی ذات پر
تجربہ کرتے ہیں۔ مدن بان کی ان پر خصوصی کرپا ہے۔ کام دیوا سے شفا کا بردان
حاصل کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدیانی امور بڑی کامیابی سے انجام دیتے
ہیں۔ باتیں بڑی چٹخارے دار کرتے اور بناتے ہیں۔ دوسرا یہ معاملہ ہے ہی
چٹچارے دار۔ میں بھی تو اس کالم کو جنسی کالم سمجھ کر پڑھ رہا تھا۔
مدن سے ٹھیک پانچ لفظ کے فاصلے پر ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا نام تھا۔ ڈاکٹر
صاحب سے میرا تیس چالیس سال سے محبت کا رشتہ ہے۔ بڑی صاف ستھری اور نکھری
نکھری شخصیت کے مالک ہیں۔ تحقیق اور تنقید میدان ہے شاعری کا بھی شوق رکھتے
ہیں۔ جنسیات سے متعلق ان کی کوئ تحریر میری نظر سے نہیں گزری۔ حیرت ہوئ اس
عمر میں انھیں مدن بانی کا شوق کیوں اور کیسے پیدا ہو گیا۔ سوچا بڑھاپے میں
عموما وج کھج جاتی ہے۔ یہ بلا اور بےجواز بات بھی نہیں۔ یہ مدنائزیشن کا
عہد ہے۔ ہم شرقیوں کو مغربی بننے کا شوق کچھ زیادہ ہی ہے۔ بھلا ہو حضرت
ڈینگی شریف کا جو صبح سویرے اور شام قریب اسلام نافذ کر دیتا ہے۔ اس طرح
جبری سہی‘ بے لباسی لباسی ہو جاتی ہے۔
یہ بات اہل علم کیا‘ ہر ایرا غیرا بھی جانتا ہے کہ نمرود کو ڈینگی ہی لڑا
تھا اور وہ چار صدیاں چھتر کھاتا رہا۔ ہٹ کا پکا تھا چھتر کھاتا رہا لیکن
ہم کے داءرے سے باہر نہ آیا۔ بادشاہ لوگ اگر ہٹ کے پکے نہ ہوں تو انھیں
بادشاہ کون کہے گا۔ میں عصری دلیل بھی رکھتا ہوں۔ پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ
فاؤنڈیشن لاہور اور سیکریٹری ہاءر ایجوکیشن والی رقم دلوانا دور کی بات
میری کسی داخواست کا جواب ہی دلوا ے تو مان جاؤں۔ جواب کو نہی کے معنوں میں
نہ لیں۔ کیوں‘ وہ کلرک بادشادہ ہیں۔ ہٹ انھیں گٹی میں ملی ہے۔ بہرکیف یہ
بادشاہوں کے معاملے ہیں اس لیے طے شدہ ہیں ان پر کلام سے پاپ لگتا ہے۔
ہمارے ہاں نامعلوم بلامعلوم اور غیر کلام پر گفتگو کا رواج بڑا عام ہے۔ ہاں
میں ہاں ملانا تو بڑی عام سی بات ہے۔ ہم مدلل گفتگو کی پوزیشن میں بھی ہوتے
ہیں۔ وہ لوگ جو کبھی خوردنی سامان کی خریداری کے لیے بازار گیے نہیں ہوتے۔
مال و منال بھی وافر سے زاءد ہوتا ہے شاندار اور دھواں دھار لیکچر پلا سکتے
ہیں۔ ان کے لباس پر نہ جائیے صرف کہے سنے تک رہیے ایسا محسوس ہو گا جیسے
کچھ کھاءے انھیں ہفتے گزر گیے ہوں۔
دل نہیں مان رہا تھا کہ ڈاکٹر تبسم کاشمیری مدناءزیشن کا شکار ہو گیے ہیں۔
بندے کا کیا پتہ ہوتا ہے۔ میں نے کالم آگے کیا پڑھنا تھا میری سوئ یہاں پر
اٹک گئ۔ دل مان نہیں رہا تھا آنکھوں دیکھا رد بھی نہیں کر سکتا۔ آخر انھوں
نے اس کتاب کا دیباچہ کیوں لکھا۔ میں نے سوچا تصدیق کر لینی چاہیے کہ انھوں
نے دیباچہ لکھا بھی کہ نہیں۔ ہمارے ہارے ہاں بلا دیکھے دیباچہ لکھنے کا
رواج موجود ہے۔ ہو سکتا ہے انھوں نے کسی مروت کے تحت کچھ لکھ دیا ہو۔ پھر
میں نے کتاب منگوائ‘ دیباچہ موجود تھا۔ کتاب کے اگلے صفحوں میں کتاب پر
ڈاکٹر نجیب جمال‘ ڈاکٹر صابر آفاقی‘ ڈاکٹر محمد امین‘ ڈاکٹر غلام شبیر رانا
اور ڈاکٹر محمد عبدالله قاضی کی تحریریں بھی موجودد تھیں۔
ناصر زیدی صاحب کو صرف ڈاکٹر تبسم کاشمیری ہی کیوں نظر آءے۔ بقیہ کالم کیا
پڑھنا تھا میں اس سوال کا جواب تلاشنے کی کوشش میں لگ گیا۔ کیا ایسا تو
نہیں ناصر زیدی صاحب نے کتاب کا مطالعہ کیے بغیر ہی خانہ پری کے لیے کالم
لکھ دیا ہو۔ آخر آلو ٹماٹر کی انھیں بھی ضرورت ہے۔ ہر طرف خانہ پری کا
سلسلہ جاری ہے۔ یہ بھی تو ہر طرف میں آتے ہیں۔ نزدیک کی کمائ خوش آنا رواج
سا بن گیا ہے۔ سا میں نے رواجا لکھا ہے ورنہ معاملہ سا کی دسترس سے نکل کر
مشبہ بہ کاملا مشبہ کا روپ دھار چکا ہے۔ فعل بد شیطان سا تھا اب شیطان بن
گیا ہے۔ اب سا کا کوئ رولا ہی نہیں رہا۔ رشوت ملاوٹ دغا عین کاروبار کا
درجہ اختیار کر گیے ہیں لہذا ان پر گلا بےفضول سا ہو گیا ہے۔ میں مطالعہ کے
حوالہ سست رو رہا ہوں اسی لیے بقییہ کالم مجھے اگلی نشت تک اٹھا رکھنا پڑا۔
بینائ بےشک کمال کی چیز ہے لیکن اندھا بیک وقت دو فائدے اٹھاتا ہے۔ جی بھر
کر سو سکتا ہے چھاؤں چھاؤں چل سکتا ہے۔ بلادیکھے کام کرکے پیسے کھیسے کرنے
والے اندھے کی طرح موج میں ہوتے ہیں لیکن مجھ سا قدم قدم پر رک کر اپنا اور
قارین کا وقت برباد کرتا ہے۔ کیا کریں اپنا اپنا طریقہ ہے۔ اندھے سے بلکہ
اندھے کماتے اور ڈکارتے ہیں اور مجھ سے مفت میں مغز ماری کرکے رسوا ہوتے
ہیں۔
فکرمند نہ ہوں-
دیر اور قسطوں پر سہی‘ وہ دن ضرور آئے گا جب ناصر زیدی صاحب کے کالم کی
آخری سطر میری نظر سے گزر رہی گی۔
|