ٹاک شوز میں اکثریت ایسے لوگوں کی مدعو کی جاتی ہے کہ جن
کا دین سے بعید کا تعلّق بھی نہیں ہوتا اور کچھ ایسے افراد کو بھی دعوت دی
جاتی ہے جو وضع قطع میں باشرع ہوں۔ پھر سیاست و حالاتِ حاضرہ سے لے کر
عقائد و عبادات اور دعوت و جہاد ایسے دینی موضوعات تک پر چہ مگوئیاں اور
موشگافیاں کی جاتی ہیں۔ ایسے میں پرویز ہود بھائی جیسے ملحد لوگ ہمارے
مسلمانوں کو سمجھاتے ہیں کہ اس دور میں زندگی کیسے گزارنی چاہئے اور جسٹس
جاوید اقبال کی طرح کے افراد ہمیں اس عہد میں دین کی جدید تعبیر اور اجتہاد
کرنا سکھلاتے ہیں۔ زید حامد کو بلایا جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو سکھائے کہ
جہاد کیا ہوتا ہے اور کیسے اور کس کے خلاف کیا جاتا ہے۔ اور پھر دینِ خالص
سے مسلمانوں کو روشناس کرانے کے لئے غامدی جیسے جدت پسند 'اسکالرز' آتے ہیں
اور اپنی لن ترانیوں کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ ان
نشریاتی اداروں ہی کی چال ہوتی ہے کہ اپنے پروگرامات میں کسی سیدھے سادھے
باشرع فرد کو دیگر بدباطن و فاسق لوگوں کے درمیان بٹھا دیا جاتا ہے تاکہ اس
کی اچھی بات کو بھی یوں پیش کیا جائے کہ جیسے نقار خانے میں طوطی کی آواز
ہو اور مسلمان اس کی بجائے دوسروں کی بوقلمونیوں میں ہی سر دھنیں۔ یہ تو
نشریاتی اداروں کے کمالات ہیں جبکہ اخبارات و جرائد کا کردار تو اس پر
مستزاد ہے۔ |