تیج پال پر ہنگامہ ، مودی کے معاملے میں خاموشی ،یہ کیسا نظام ہے ہندوستان کا

فرقہ پرست طاقتوں کی منصوبہ بندی کتنی زبردست ہوتی ہے اس کا اندازہ حالیہ دو تین واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ پہلا واقعہ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے کچھ رہنماؤں کے غلط طریقے سے چندہ لینے ہے جبکہ دوسرا واقعہ مشہور صحافی اور ہندوستان میں صحافت کو نئی جہت دینے ،کھوجی صحافت کو نیا رخ دینے اور ہندوستانی صحافت کو وقار بخشنے والے ترون تیج پال کے واقعے سے ہے۔ دونوں واقعے کا مستقبل طور پر رات دن ٹیلی ویژن پر کوریج یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ کسی بھی بڑے مجرم کو آسانی سے بچاسکتے ہیں ،معصوم کو بڑا مجرم بنا سکتے ہیں اور خبروں کو دبا سکتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی بی جے پی یافرقہ پرست لیڈروں کے بارے میں کوئی اسٹوری زور پکڑتی ہے کوئی نہ کوئی واقعہ یا حادثہ پیش آجاتا ہے اور وہ اسٹوری مکمل طور پر دب جاتی ہے یا دبا دی جاتی ہے۔ مودی کے خلاف جب بھی کوئی بڑا وا یا کوئی بڑا انکشاف ہوتا ہے اس کے بعد کوئی دوسرا واقعہ سامنے آجاتا ہے تاکہ لوگوں کی توجہ ہٹ جاتی ہے ۔ عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر کا معاملہ ہو یا کورٹ کا کوئی فیصلہ ہو، جب بھی میڈیامیں تھوڑی توجہ دی جاتی ہے کوئی بڑا واقعہ ہوجاتا ہے ۔ میڈیا میں ایک لڑکی کی جاسوسی کا معاملہ سرخیوں میں تھا اور اس کے بارے میں کئی اسٹوری آرہی تھی ۔’ صاحب ‘کے تعلقات اس لڑکی کے ساتھ کی خبریں منظر عام پر آرہی تھیں اسی وقت عام آدمی پارٹی کے رہنماؤں کا غیر قانونی طور پر چندہ لینے کا معاملہ سامنے لایا گیا ۔ پارٹی میں 75فیصد چندہ غیر قانونی طریقے سے ہوتا ہے۔ اگر پارٹی میں قانون کے دائرے میں چندہ لیا جائے گا تو پارٹی دو مہنیے میں سڑکوں پر بھیک مانگتی نظر آئے گی۔ نیشنل الیکشن واچ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کانگریس، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بہوجن سماج پارٹی، (بی ایس پی) نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی ( سی پی آئی) اور مارکسی کمیونسٹ پارٹی (سی پی آئی ایم) کو 05۔2004 سے 12۔2011 کے دوران مجموعی طور پر 96ء4895 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی جس میں سے 50ء3674 کروڑ روپے کی آمدنی نامعلوم ذرائع سے آئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعت 20 ہزار روپے یا اس سے زیادہ رقم کا چندہ دینے والوں کے نام کی اطلاع دیتے ہیں۔ اس سے کم رقم دینے والے نامعلوم ذرائع ہوتے ہیں۔سال 05۔2004 سے 12۔2011 کے دوران کانگریس پارٹی کو انتخابی ٹرسٹوں سے 37ء63 کروڑ روپے معلوم ذرائع سے ، 40ء226 کروڑ اور نامعلوم ذرائع سے 07ء1951 کروڑ وپے یعنی مجموعی طور پر 02ء2365 روپے موصول ہوئے۔اس دوران بی جے پی کے انتخابی ٹرسٹوں سے 49ء41 کروڑ روپے معلوم ذرائع سے، 45ء226 کروڑ دیگر معلوم ذرائع سے، 19ء125 کروڑ روپے نامعلوم ذرائع سے، 58ء952 کروڑ روپے اور مجموعی طور پر 22ء1304 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔یعنی ان پارٹیوں کی نامعلوم آمدنی 75فیصد ہے۔ یہ تو کہنے کی بات ہے کہ بیس ہزار سے اوپر کی آمدنی معلوم ذرائع کے زمرے میں آتی ہے جبکہ حقیقی صورت حال ہے یہ کہ کارپوریٹ گھرانے اربوں روپے پارٹیوں کو چندہ کے طور دیتے ہیں جس کا حساب کتاب کہیں نہیں ہوتاتو پھر عام آدمی پارٹی کے پیچھے صنعتی خاندان اور بی جے پی کا وظفیہ خوار ہندوستانی میڈیا کیوں پیچھے پڑا ہوا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے لگایا گیا ہے تاکہ مودی کا معاملہ دب جائے۔ اسی طرح آج کل رات دن ترن تیج پال کا معاملہ چھایا ہوا ہے ۔ ترون تیج پال اور فرقہ پرست پارٹی بی جے پی کی پرانی دشمنی ہے۔ تہلکہ نے ہی دفاعی سودے گھپلے کا پردہ فاش کیا تھا۔ اس کے علاوہ گودھرا ٹرین حادثہ کی حقیقت سمیت کئی دیگر امور کو بھی سامنے لایا تھا ۔مرکز میں بی جے پی کی حکمرانی کے دوران تہلکہ کے سارے صحافیوں کو ا ن حقائق کا انکشاف کرنے کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں عام آدمی پارٹی یا ترون تیج پال کا حامی ہوں لیکن جس طرح میڈیا نریندر مودی کے معاملے کو دبانے لئے ترون تیج معاملے کو اچھال رہی ہے ۔ یہ مستقبل کے منظرنامہ کو بیان کرر ہا ہے کہ وہی ہوگا جو فسطائی طاقتیں اور ان کے زرخرید میڈیا چاہے گا۔

تروج تیج کا معاملہ 20نومبر سے شروع ہوا تھا۔ جب ترون تیج پال نے ضمیر آواز پرچھیڑخانی کی بات کا خود اعتراف کرتے ہوئے اپنے گناہ کا اعتراف کیا تھا تلافی کے طور پر اپنے عہدے سے چھ مہینے کے لئے ہٹنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد میڈیا نے اسے جس قدر اچھالا اور مردو خواتین نیوز ریڈر اور اینکرزنے جس طرح خبروں کے ساتھ ’بلاتکار‘ (آبروریزی) کیا اس سے ہندوستانی میڈیا کا گھناؤنا اور گھٹیا چہرہ ایک بار پھر سامنے آگیا۔ ڈونا پاؤلا میں کرائم برانچ کے ہیڈکوارٹر میں 50 سالہ کے \' تہلکہ \' بانی تیج پال کوباضابطہ طور پر گرفتار کر لیا گیا ۔عدالت میں دو دن سے عبوری ضمانت کی عرضی پر سماعت جاری تھی۔عدالت نے کہا تھا کہ وہ شام 4:30 بجے تیج پال کی پیشگی ضمانت کی عرضی پر فیصلہ سنائے گی ۔ حالانکہ اس میں قریب ساڑھے تین گھنٹے کی تاخیر ہوئی ۔جج نے شام 4-30 بجے کے لئے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا - بہر حال ، فیصلہ آخر کار رات 8 بجے سنایا گیا ۔جج پربھو دیسائی نے استغاثہ اور دفاع کی دلیلیں سننے کے بعد مسٹر تیج پال کی پیشگی ضمانت کی عرضی مسترد کر دی ۔ استغاثہ نے یہ کہتے ہوئے تیج پال کی ضمانت کی مخالفت کی کہ انہیں حراست میں لے کر پوچھ گچھ کرنا ضروری ہے کیونکہ بادی النظر ان کے خلاف آبروریزی کا معاملہ بنتا ہے ۔متاثرہ صحافی کا الزام ہے کہ اس ماہ کی شروعات میں گوا میں منعقد \' تہلکہ \' کے ایک پروگرام کے دوران تیج پال نے ایک فائیو سٹار ہوٹل کی لفٹ میں دو دفعہ اس کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی کوشش کی۔ تیج پال نے بعد میں یہ دعوی بھی کیا کہ خاتون صحافی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ باہمی رضامندی سے ہوا تھا ۔انہوں نے خاتون صحافی کی وفاداری پر بھی سوال اٹھائے۔ یہ دونوں فریق کی باتیں ہیں لیکن گوا پولیس کے الزامات دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس طرح کی سیاست کا کھیل کھیل رہی ہے۔ اس نے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر بغیر کسی شکایت کے تہلکہ دہلی پہنچ کر تہلکہ اور اس ارکان کو جس طرح ہراساں کرنے کی کوشش کی اور میڈیا کے سہارے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ترون تیج پال کو سزا دئے بغیر خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات کا انسداد ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح کامعاملہ شروع ہوگیا جو کسی بھی بم دھماکے بعد مسلم نوجوانوں اور مسلمانوں کی شبیہ کو تہ و بالا کرنے کی کوشش کے تحت ہوتا ہے۔ ترون تیج پال کی زندگی کی کمائی منٹوں میں برباد ہوگئی۔ گواپولیس نے ان پر جو الزام لگایا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کسی ذاتی پرخاش ، دشمنی اور سیاسی آقاؤں کے اشارے پر ترون تیج پال سے بدلہ لینے کے درپے ہے۔بی جے پی حکومت کے پاس تہلکہ سے دفاعی سودے اور گجرات فسادات کے حقائق کا پردہ فاش کرنے کے جرم کا بدلہ لینے کا سنہری موقع ہاتھ آگیا ہے۔گوا پولیس اسی راستے پرر واں دواں ہے۔ گوا پولیس نے تیج پال کے خلاف آبروریزی دری ، یرغمال بنا کر عصمت دری کرنے اور ایک خاتون صحافی کے پردہ بکارت زائل کرنے کا معاملہ درج کیا ہے۔ اگر انہیں اس معاملے میں مجرم قرار دیا جاتا ہے تو انہیں کم سے کم 10 سال کی جیل اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے ۔ خاتون صحافی نے پہلے ایف آئی آرتک درج نہیں کرائی ہے لیکن اس کے باوجود گوا پولیس نے جس طرح مستعدی دکھائی ہے وہ یہ اشارہ کرتا ہے کہ یہاں بھی اس کے پیچھے کوئی ’صاحب‘ ہے۔گوا دھماکے میں ہندو تنظیموں کے ملوث ہونے کے ثبوت کے باوجود جس طرح انہیں گوا پولیس نے انہیں بچانے کی کوشش کی ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ آبروریزی کے مقدمے میں بی جے پی لیڈروں کو تحفظ فراہم کرنے والی ہندوستانی پولیس ہمیشہ ’صاحب‘ کے اشارے پر ہی کام کرتی رہی ہے۔

ایک طرف سے ایک معمولی چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں گوا پولیس اتنی مستعدی دکھارہی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے اس سے بڑا اس ریاست میں اب تک کوئی جرم نہیں ہوا ہے۔ ’صاحب‘ کا (مودی) کا معاملہ ہے جس سے اب گناہ بھی خوف کھاتا اور شرماتا ہوگا کہ کتنی با ر مجھے اس شخص کے ہاتھوں کرایا جائے گا۔ انہیں ایک ہزار سال کی سزا ہو تو بھی کم ہے لیکن قربان جاےئے ہندوستانی نظام عدل پر استغاثہ کو کوئی ثبوت ہی نہیں ملتا ہے اور مکمل ثبوت کا بہانہ بناکر مسلسل کلین چٹ دےئے جاتے رہے۔نریندر مودی کے اس معمار (آرکٹیکٹ) لڑکی کی قربت کا اندازہ مود ی کے طرز سلوک سے لگایا جاسکتا ہے ۔ آرٹی آئی درخواست سے یہ پتہ لگا ہے کہ اس عورت کو ایک وقت ریاست میں وی آئی پی کا درجہ حاصل تھا۔ 2005 میں جب اس عورت اور صاحب کے درمیان تعلقات اچھے تھے تب نوجوان خاتون کو بھج میں گجرات حکومت کے سالانہ ونٹر فیسٹیول میں بلایا گیا تھا۔ اس کا افتتاح مودی نے کیا تھا۔اس خاتون کا اس پروگرام سے کوئی تعلق نہیں تھا ، پھر بھی 5153 روپے خاتون کو موبائل رچارج اور پیٹرول خرچ کے لئے چیک کے ذریعہ دئے گئے ۔اس فیسٹیول کا کل بل 2.43 کروڑ روپے تھا اور کسی دوسرے شخص کو اس طرح موبائل رچارج کے لئے پیسہ نہیں دیا گیا ۔ اخبار \' ممبئی مرر \' کی تفتیش کے مطابق صاحب کا اس لڑکی سے قریبی تعلق تھا ۔’ صاحب‘ نے لڑکی کو اپنا پرسنل موبائل نمبر دے دیا تھا اور دونوں کے درمیان اس نمبر پر دن میں 18 بار تک باتیں ہوئی ہیں ۔مگر بعد میں کچھ ایسا ہوا کہ ’صاحب‘ سے ان کی ان بن ہو گئی اورآٹھ پولیس اہلکارکے ذریعہ ہمیشہ ان کی نگرانی کی جانے لگی اور اس کی سرگرمیوں کی معلومات امت شاہ تک پہنچاتے رہتے تھے۔لڑکی کا پیچھا کیوں کروایا گیا ، یہ کہانی ایک مسڈ کال سے شروع ہوئی۔ یہ مسڈ کال صاحب کے پرسنل نمبر پر آئی تھی ۔ کال ڈیٹیلس میں شرما کا نام سامنے آ گیا ۔اس کے بعد سے ہی لڑکی اور ’صاحب ‘کے تعلقات کی نوعیت بدل گئی۔ شرما کے فون پر نظر رکھی گئی اور یہ بات سامنے آ گئی کہ شرما اور یہ لڑکی برابر رابطے میں رہتے تھے۔ نیوز پورٹل کوبراپوسٹ اور غلیل کے انکشاف کے مطابق یہ سرولانس 2009 میں گجرات کے اس وقت کے وزیر داخلہ اور نریندر مودی کے قریبی امت شاہ کے کہنے پر شروع کیا گیا تھا ۔ دعوی یہ بھی ہے کہ یہ حکم کسی \' صاحب \' کے اشارے پر دیا گیا۔ اس لڑکی نے متاثرہ بھج میں سرکاری تعمیر نو کی کوششوں کے تحت ایک ہل گارڈن کاڈیزائن کیا تھا ۔دونوں کی ملاقات اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ پردیپ شرما نے کرائی تھی ۔ اس لڑکی نے ’صاحب ‘کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں اپنے دوست کو بھج کے کلیکٹر پردیپ شرما کو بتایا تھا۔ مبینہ طور پر لڑکی نے شرما کو صاحب کے پرائیویٹ نمبر سے بھیجے گئے میسیج کے کچھ متن بھی دکھائے۔کہا جا رہا ہے کہ شرما نے یہ نمبر محفوظ کرلیا۔ کوبراپوسٹ اور گلیل کے مطابق سنگھل اس سرولانس کی ذمہ داری سنبھال رہے تھے ۔آج وہی گریش سنگھل گجرات کے سابق وزیر داخلہ امت شاہ اور ان کے ’صاحب‘ کی نیند اڑا چکے ہیں۔فرضی تصادم کی حکمت عملی بنانے میں ماہر اور مودی حکومت کے قابل اعتماد اور چہیتے افسروں میں سے ایک، سنگھل حکمراں لوگوں کی نیند اڑانے کا ذریعہ کیسے بن گئے؟ سنگھل کو فروری 2013 میں عشرت جہاں فرضی تصادم معاملے میں گرفتار کیا گیا۔فی الحال وہ ضمانت پر جیل سے باہر ہیں۔ ان کے خلاف اوربھی کئی الزامات ہیں۔گجرات میں 2002 کے مسلم مخالف فسادات کی جانچ کے لئے تشکیل دی گئی خصوصی ٹیم نے الزام لگایا کہ احمد آباد کرائم برانچ میں کام کرتے وقت سنگھل نے اہم ثبوت مٹادئے تھے۔ ان پر یہ بھی الزام لگا کہ مٹا گئے ثبوتوں میں آئی پی ایس افسر راہل شرما کی فسادات کے دوران کے کال ریکارڈ پر تیار کی گئی سی ڈی شامل تھی۔اسی دوران امت شاہ سے ہوئی بات چیت انہوں نے ریکارڈ کر کے رکھی تھی ۔ ٹیپس کو سی بی آئی کو سونپ دیا گیا ہے اور انہیں عشرت جہاں کیس کے پنچ نامے میں شامل کیا گیا ہے ۔ کچھ ہی دنوں بعد پردیپ شرما کو ان کی حرکت کی سزا مل گئی۔ ان کے خلاف گجرات حکومت نے مجرمانہ معاملات میں چار شکایتیں درج کرائی ہیں ۔شرما کو معطل کر دیا گیا اور پھر وہ گرفتار بھی ہوئے۔اس وقت وہ ضمانت پر ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرکے مودی کے گناہوں کا بھنڈا پھوڑا ہے۔ چیف جسٹس پی سداشیوم کی سربراہی میں بینچ نے گجرات حکومت کے وکیل کی درخواست کے تناظر میں پردیپ شرما سے اس معاملے میں حلف نامہ داخل کرنے کو کہا ہے۔ شرما نے اپنی درخواست میں الزام لگایا تھا کہ مودی حکومت نے انہیں نشانہ بنا رہی ہے کیونکہ ان کے چھوٹے بھائی آئی پی ایس افسر کلدیپ شرما نے گودھرا فسادات کے بعد سے مودی اور امت شاہ کی کارگزاریوں کا پردہ فاش کیا تھا۔شرما کی طرف درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ شرما کے پاس ایسی کوئی سی ڈی نہیں تھی ، لیکن مودی کو لگتا تھا کہ ان کے پاس اس سی ڈی کے حصے ہیں ۔مودی کو ڈر تھا کہ اگر یہ سی ڈی عوامی ہو گئی ، تو ان کی شبیہ خراب ہو جائے گی ۔ اسی شک کی وجہ سے سزا دینے کے ارادے سے شرما کو بہت سارے جھوٹے کیسوں میں پھنسا دیا ۔شرما نے اپنی درخواست میں مزیدکہا ہے کہ امت شاہ نے صاحب کے کہنے پر جس طرح سے معمارلڑکی اور مجھے سرولانس پر رکھا تھا ، وہ نہ صرف انڈین ٹیلگراف ایکٹ ، بلکہ سپریم کورٹ کی طرف سے 18 دسمبر 1996 کو جاری گائڈلائنز کی بھی خلاف ورزی ہے اورمعاملے کی جانچ سی بی آئی ہونی چاہئے۔

مودی کے معاملے میں اتنی نرمی اور تیج پال کے معاملے میں اتنی گرمی ۔ یہ ہندوستان کے نظام عدل میں امتیاز، انتقامانہ جذبہ اور نشانہ بناکر کارروائی کرناآزادی کے بعد سے جاری روش کو ظاہر کرتا ہے۔ عدالت کی عبوری ضمانت پرطویل سماعت اور پھر فیصلہ کو محفوظ کرلینا اور رات آٹھ بجے فیصلہ سنانا یہ بہت کچھ کہتا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ ترون تیج پال کو سزا نہیں ہونی چاہئے لیکن جس نے ضمیر کی آواز پر چھڑخانی کے جرم کو قبول کیا ہو اور خود کو سزا بھی دی ہواس کے ساتھ اس طرح کارویہ برتنا مناسب نہیں ہے۔ اگریہ صحیح ہے تو مظفرنگر اور گجرات کی سیکڑوں مسلم خواتین جس کی اجتماعی آبروریزی ہوئی اور پھر انہیں وحشیانہ طریقے قتل کرنے میں ملوث پارٹی کے اور ان کے لیڈروں کے لئے کون سی سزا ہونی چاہئے۔ پورے ملک میں فسادات کے دوران فرقہ پرست اور ان کے حامیوں کے ذریعہ کی جانے والی مسلم خواتین کی اجتماعی آبروریزی کے لئے کیا پوری پارٹی پر پابندی لگاکر ان کے تمام رہنماؤں کو جیل رسید نہیں کردینی چاہئے۔ اگر نہیں تو پھر تیج پال کو کیوں؟۔جہاں تک مودی کے گجرات میں جانچ کمیٹی کی بات ہے تو گجرات جرائم کی کان ہے وہاں ہر انصاف پسند اسی کان کا حصہ بن جاتا ہے۔ گجرات میں گزشتہ 11 برسوں میں بننے والی تمام کمیٹیوں نے یا تو نریندر مودی حکومت کو کلین چٹ دی ہے یا طویل وقت کے بعد بھی ان کی رپورٹ نہیں سونپی گئی ۔ سال 2002 کے گجرات فسادات ، آسارام کے آشرم میں دو بچوں کی مبینہ طور پر قتل یا زہریلی شراب پینے سے لوگوں کی موت کا معاملہ تمام اسی زمرے میں ہیں۔ 2002 فسادات پرجسٹس ناناوتی کمیشن کی فائنل رپورٹ اب تک نہیں آئی ہے ۔وہیں مبینہ زمین گھپلوں پر تیار جسٹس ایم بی شاہ کمیشن نے حکومت کو کلین چٹ دے دی ہے لیکن مکمل رپورٹ نہیں ۔ 2008 کے آسارام گروکل کے طالب علم دیپیش اور ابھیشیک کے قتل کی تحقیقات کے لئے قائم جسٹس ڈی کے ترویدی کمیشن کی رپورٹ ابھی تک جاری نہیں کی گئی ہے۔اس کے بعدبھی کسی کے دل یہ شبہ رہ جاتا ہے کہ مودی نے جانچ کمیٹی خود کو کلین چٹ دینے کیلئے نہیں بنائی ہے۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87513 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.