لیڈر، قائد یا رہنماء کسی قوم کی رہبری یا رہنمائی کرنے والا وہ عظیم انسان
ہوتا ہے جو ایک عزم اور مقصد کے ساتھ کچھ کر دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
اُس کے ارادے چٹان کی طرح مضبوط ہوتے ہیں اور سوچ قوم سے شروع ہو کر قوم پر
ہی ختم ہوتی ہے۔ ایک کامیاب لیڈر میں دلیری، ضبط، انصاف پسندی، استقلال،
منصوبہ، محنت پسندی، خوشگوار شخصیت، ہمدردی جیسی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں
اور سچا، اَمین، دیانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا وفادار بھی ہوتا
ہے۔ وہ ہر آدمی کا درد اپنے سینے میں لیے ہوتا ہے اور حقیقی معنوں میں عام
انسانوں کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے۔ ایک عظیم لیڈر کے بولنے میں بڑی طاقت،
الفاظ میں تاثیر اور جادو ہوتا ہے، جبکہ اس کا مزاج اسے ایسے کام کی طرف لے
جاتا ہے جو ایک عام انسان کے لیے بے حد مفید ہوتا ہے۔ آغا شورش کاشمیری
مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے ہاں لیڈر بنتے ہیں دولت کی فراوانی سے، سرکار
کی خوشنودی سے، وزارت کے راستہ سے، کْرسی کے فضل سے، غنڈوں کی رفاقت سے،
اخباروں کی پبلسٹی سے، ورکنگ جرنلسٹوں کے قلم سے، حکام کی جاسوسی سے، اکابر
کی ذریت سے، بادہ خوانوں کی چھوکٹ سے، اسلام کی مجاوری سے، جبکہ دوسرے
ملکوں میں لینڈر بنتے ہیں نفس کی قربانی سے، دولت کے ایثار سے، جان کے زیاں
سے، خدمت کی راہ سے، علم کے کمال سے، نگاہ کی بصیرت سے، عوام کی رفاقت سے،
عقائد کی پختگی سے، اُصول کی پیروی سے، نصب العین کی محبت سے اور قیدخانوں
کی ضرب سے۔ ‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی قوم کی تقدیر لیڈر ہی بناتے ہیں
اور وہی بگاڑتے بھی ہیں۔ جس قوم کو اچھی لیڈرشپ مِل جائے وہ قوم نہ صرف
اپنا مستقبل محفوظ بنا لیتی ہے بلکہ دوسری اقوام کے لیے ایک مثال بھی بن
جاتی ہے۔ قائداعظم ایک ایسے عظیم لیڈر تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو
آزادی دلوائی۔ علامہ مشرقی بھی لیڈر تھے، علماء کی صفوں میں مولانا
عبدالکلام آزاد اور مولانا مودودی بھی لیڈر تھے۔ انہوں نے جسے درست سمجھا
اِسے بیان کیا۔ لوگوں کی مخالفت مول لی لیکن اپنے نقطہ نظر سے محض اس بناء
پر رجوع نہیں کیا کہ وہ عوامی سطح پر غیر مقبول ہے۔ یہ لوگ دنیا سے رخصت ہو
گئے لیکن سطح زمین پر اپنے نقش چھوڑ گئے۔ ہماری سیاست میں قائداعظم کے بعد
ذوالفقار علی بھٹو میں ایک انقلابی لیڈر والی جھلک نظر آئی لیکن چونکہ اُن
میں بہت سی خوبیوں کے ساتھ ایسی خامیاں بھی موجود تھیں کہ جن کی سزا آج بھی
قوم بھگت رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بھٹو ایک بہترین دماغ تھاجس نے شاہ
فیصل اور قذافی کے ساتھ مل کر مسلم دُشمن قوتوں کی نیندیں اُڑا دی تھیں
لیکن پھر شاہ فیصل اور بھٹو کے بعد قذافی کو بھی ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹا
کر اسلامی دنیا سے اس طرح کے لیڈروں کا صفایا کر دیا گیا۔ تصویر کا دوسرا
رُخ دیکھیں تو بھٹو نے اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ لگا کر بنگلہ دیش کی صورت
میں ایک نئے ملک کا وجود بھی ممکن بنایا۔ بھٹو کے بعد عوام کو پرویز مشرف
کی صورت میں اُمید کی ایک کرن نظر آئی تھی لیکن سیاست سے نابلد ہونے کی
بناء پراُن کے چند اقدامات ایسے بھی تھے کہ جن کی وجہ سے ملک کو بہت بڑا
نقصان اُٹھانا پڑا۔ ہمارے سیاسی قائدین ہمیشہ خود کو ایک عظیم لیڈر کے طور
پر منوانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں، جبکہ قوم ایک ایسے لیڈر کی راہ
دیکھتی رہتی ہے جو انقلاب کے راستے پر چل پڑے اور ملک کی کایا پلٹ کر رکھ
دے۔ اگر کئی لوگ پرویز مشرف کو تاریخ ساز لیڈر سمجھتے ہیں تو بہت سے ایسے
بھی ہیں کہ جن کے دلوں میں عمران خان، میاں نواز شریف، آصف علی زرداری،
مولانا فضل الرحمٰن، الطاف حسین اور شیخ رشید احمد ایک لیڈر کے طور پر نقوش
کر چکے ہیں۔ پرویز مشرف ایک کرشماتی شخصیت کے مالک اور سچے، کھرے انسان کے
طور پر مشہور ہیں۔ وہ دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا فن
بھی خوب جانتے ہیں۔ اگر ہمارے سیاست دانوں کو بین الاقوامی مسائل پر گفتگو
کرنا پڑ جائے تو سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف بازی لے جائیں گے۔ وہ دور
اندیش ہیں اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو بہتر طور پر سمجھا سکتے ہیں
لیکن اُن میں بہت ساری خامیاں بھی موجود ہیں جن میں اُن کی مغرب نوازی،
سیاست سے نابلدی اور مذہب سے دوری اُن کے عظیم انقلابی لیڈر بننے کے راستے
میں رکاوٹ ہیں۔ بہت سے لوگ میاں نواز شریف کو بھی ایک تاریخی لیڈر سمجھتے
ہیں بلکہ کچھ کمزوریوں کے باوجود بھی ملک میں کسی لیڈر سے زیادہ چاہتے ہیں۔
میاں صاحب میں کئی خوبیاں ایسی پائی جاتی ہیں جو ملک کو اضطرابی کیفیت سے
نکال سکتی ہیں۔ انہوں نے قوم کو اندھیرے میں رکھنے کے بجائے بہت سے ایشوز
پر عوام کے ساتھ کھل کر بات کی۔ وہ عوام کی نظر میں محب وطن تصور کیے جاتے
ہیں اور اُن کی زندگی میں مذہبی رنگ کا عنصر بھی نمایاں ہے لیکن المیہ یہ
ہے کہ اُن کی طبیعت میں ٹھہراؤ کے بجائے تلاطم اور خلفشار موجود ہے۔ میاں
صاحب کی گفتگو سادگی پر مبنی ہوتی ہے تاہم انہیں الفاظ کی تلاش میں کبھی
کبھار مشکل پڑتی دکھائی دیتی ہے۔وہ حساس معاملات پر بعض دفعہ ایسے بیانات
داغ دیتے ہیں کہ پھر مجبوراً مجید نظامی صاحب جیسے لوگ اُن کے لیے عقلِ
سلیم کی دُعا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کی سب سے بڑی خوبی اُن کے
غیرت مند بیانات تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ ابھی سیاست میں نئے ہیں لیکن اُن کا
جذبہ نیک ہے اور اگر عمران کو عوامی سیاست کرنی آ جائے تو یقیناً اُن کے
سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکے گا۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ اس وقت عمران
خان نوجوان نسل میں کافی مقبول ہو چکے ہیں لیکن جس طرح کے لوگ اُن کے گرد
اکٹھے ہو چکے ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ فی الحال وہ دیمک زدہ لکڑیوں سے
تلوار بنانے میں مصروف ہیں۔ عمران خان نے عوام سے جو چھ وعدے کیے اگر وہ ان
پر پوری آب و تاب سے قائم رہتے ہیں تو بعید نہیں کہ وہ جلد ہی دنیا کے عظیم
لیڈروں کی فہرست میں شامل ہو ں گے۔ آصف علی زرداری کا المیہ یہ ہے کہ وہ
ایک لیڈر کے شوہر تو رہے ہیں مگر خود لیڈر نہیں بن سکے البتہ وہ سیاسی جوڑ
توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے دنوں میں جب بھی کوئی
سیاسی چال چلی یا پتا پھینکا سب محو حیرت ہوئے۔ اُن کی طبیعت میں خاموشی
اور صبر جیسی چیز موجود ہے جو پاکستان کے بہت سے سیاست دانوں میں نہیں ہے
لیکن تصویر کا دوسرا رْخ یہ ہے کہ وہ کرپشن اور وعدہ خلافیوں کے الزامات کی
زد میں رہتے ہیں۔ آصف علی زرداری ایک منجھے ہوئے سیاست دان ضرور ہیں لیکن
فی الحال لیڈر نہیں بن سکے۔ ایک خاص اسلام پسند طبقہ مولانا فضل الرحمان کو
قومی لیڈر اور اُمت مسلمہ کا رہبر سمجھتا ہے۔ مولانا کی سب سے بڑی خوبی اُن
کا عظیم مذہبی اسکالر ہونا ہے اور یہ خوبی اُنہیں دیگر بہت سے سیاست دانوں
سے ممتاز کرتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مولانا کی جماعت کا شمار پاکستان کی
جمہوریت پسند مذہبی قوتوں میں سرفہرست تھا لیکن یہ بات بھی کسی سے ڈھکی
چھپی نہیں کہ اُن کی سیاسی قلابازیوں کی بدولت یہ جماعت محدود ہو کر رہ گئی
ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اْن کا مؤقف ’’اُصولی‘‘ ہوتا ہے، جسے یہ بروقت ’’وصولی‘‘
کی شکل میں پاتے ہیں۔ مولانا جس حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں اپنے انوکھے انداز
میں اُس کا دفاع بھی کرتے رہتے ہیں۔ حکمران چاہے کوئی بھی ہو اُن کی سرتوڑ
کوشش ہوتی ہے کہ مولانا کو کسی طرح گزند نہ پہنچے۔ مولانا فضل الرحمان
سیاست کی زمینی حقیقتوں کے بہترین نباض ہیں، یہی وجہ ہے کہ اُن کی سیاسی
بصیرت، حکمت کاری، موسم شناسی زبان زدِ عام ہے۔ وہ اپنے کارناموں کی بدولت
اکثر خبروں میں موجود رہنے کے ساتھ ساتھ تنقید کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔
الطاف حسین کی سیاسی بصیرت کی داد دینی چاہئے کہ وہ لوگوں کے جذبات کو جس
طور سمجھ رہے ہیں اور انہیں زبان دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہ کمال ہے۔
جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف متحدہ قومی موومنٹ کا اعلانِ جنگ یہ ثابت
کرتا ہے کہ وہ مڈل کلاس طبقے کی نمائندہ جماعت ہے۔ الطاف حسین بھی خود کو
اسی طبقے کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو مڈل
کلاس طبقے کا لیڈر ہونے کے دعویدار الطاف حسین خود لندن کے مہنگے ترین
علاقے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُن کی جماعت خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے
کیلئے بھرپور کوشش کر رہی ہے لیکن ابھی تک خود پر لسانی جماعت کا لیبل ختم
نہیں کرا سکی۔ الطاف حسین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جو بات کرتے ہیں
ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ لیڈر ہونے کے لیے عوام کے ساتھ سڑکوں پر آنا پڑتا
ہے لیکن الطاف حسین ابھی تک صرف ٹیلیفونک خطاب تک ہی محدود ہیں۔ شیخ ر شید
احمد کسی بڑی پارٹی کے لیڈر نہیں لیکن ان کا ہاتھ ہمیشہ عوام کی نبض پر
ہوتا ہے۔ کوئی انہیں سخت ناپسند کرتا ہے اور کوئی بہت پسند کرتا ہے۔ وہ
عوام کی زبان میں ان کی سوچ اور ان کے مسائل کا ذکر بھرپور انداز میں کرتے
ہیں۔ شاید اسی وجہ سے وہ خود کو عوامی لیڈر کہلانے میں بھی فخر محسوس کرتے
ہیں۔ خود کو لیڈر کہلوانے کے دعویدار اِن سیاست دانوں کی تمام خوبیاں اگر
کسی ایک شخص میں موجود ہوں تو یقیناً وہ ایک عظیم انقلابی لیڈر بن سکتا ہے
لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی تاریخ میں کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں آ سکا کہ
جس میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک آج روز افزوں تنزلی
کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان کے بارے میں چین کے انقلابی لیڈر ماؤزے تنگ کا
کہنا تھا کہ یہ ایک عظیم قوم ہے اور ایک دن پوری دنیا پر حکومت کرے گی لیکن
شرط یہ ہے کہ اسے اچھی لیڈرشپ مل جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے سیاست
دانوں میں جہاں بہت سی خامیاں موجود ہیں وہیں کئی بے مثال خوبیوں کے مالک
بھی ہیں۔ اگر تمام سیاست دانوں کی مشترکہ خوبیاں کسی ایک فرد میں مجتمع ہو
جائیں تو یقیناً وہ ایک عظیم انقلابی لیڈر بن سکتاہے۔ |