ڈالر کی اونچی اڑان حکومت پریشان

مشرف دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار کراچی پریس کلب آئی تو انھوں نے اپنی تقریر میں بہت سے سیاسی باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا کہ ڈالر کی قیمت سو روپے سے زیادہ ہوجائے گی۔ اس وقت ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں 62 روپے تھی۔ میاں نواز شریف کے دور کے بعد اس میں دس ہی روپے کا اضافہ ہوا تھا، محترمہ کی اس بات کو کسی نے سنجیدگی سے نہ لیا۔ لیکن میاں نواز شریف کی حکومت کے آنے کے بعد تو ڈالر کو پر لگ گئے ہیں۔ اس کی اڑان بلند سے بلند تر ہورہی ہے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد ڈالر کی قدر میں جاری تیزی کا سفر 110روپے کی حد بھی عبور کرگیا ہے۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد ڈالر نے پہلی مرتبہ سنچری مکمل کی تھی ۔فاریکس ڈیلرز سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق یکم جون2013 کو ڈالر کی قیمت فروخت 99.70 روپے جبکہ قیمت فروخت 100.25روپے تھی جوکہ یکم جولائی کو 100.5اور 100.95روپے ہوگئی تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا وفاقی وزیر اسحٰق ڈار کئی مرتبہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ ڈالر واپس آئے گا ایک مرتبہ تو وہ ڈالر کی قدر واپس 100روپے پر آنے کا بھی دعویٰ کرچکے ہیں لیکن ان تمام دعوؤں کے باوجود روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا اس اثنا میں فاریکس ڈیلرز کا یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ بینکوں نے انہیں ڈالر کی ادائیگی روک دی ہے وزیر خزانہ اور دیگر حکام مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کے ذمے دار سٹے باز اور اسمگلرز ہیں مگر عملی طورپر ان سٹے بازوں اور اسمگلرز کے خلاف کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی مارکیٹ ذرائع کے مطابق سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کی خریداری اور ایکسپورٹ کی اوور انوائسنگ کے ذریعے بھی بھاری زرمبادلہ باہر جارہا ہے۔اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں سالانہ اوسطاً سات اعشاریہ پانچ فیصد کی شرح سے کمی ہو رہی ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں میں 3 روپے 30 پیسے میں ڈالر ملتا رہا۔ 1955ء میں ڈالر نے پہلی مرتبہ سر اٹھایا اور اس کی قدر 4 روپے 76 پیسے تک جا پہنچی۔ 1971 تک روپیہ اسی پر ڈالر کے سامنے ڈٹا رہا۔ پاکستان دولخت ہوا تو روپیہ بھی قدر کھونے لگا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ڈالر کی قیمت دوگنی ہو کر 9 روپے 91 پیسے ہو گئی۔ سابق صدر ضیاء الحق کے دور اقتدار میں روپیہ مزید کمزور پڑنے لگا اور 1988ء تک انٹر بینک میں ڈالر 17 روپے اٹھارہ پیسے میں ملنے گا۔ 90ء کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں بھی ڈالر کی پرواز نہ روک سکیں اور 1999ء تک اس کی قدر 51 روپے تک جا پہنچی۔ 2008ء میں مشرف حکومت گئی تو 62 روپے 55 پیسے میں ایک ڈالر دستیاب تھا۔ لیکن پھر ڈالر کے سامنے روپیہ بے قدر ہوتا گیا اور میاں نواز شریف کی موجودہ حکومت کے دور میں ڈالر اوپن مارکیٹ میں 109 روپے جبکہ انٹر بینک مارکیٹ میں110 کی سطح عبور کر چکا ہے۔ کسی زمانے میں ڈالر کی قیمت اور روپے کی قیمت میں کوئی خاص فرق نہ تھا مگر نوئے کی دہائی کے بعد تو ڈالر کو جیسے پر ہی لگ گے ہوں موجودہ دور میں ڈالر کی قدر میں اضافہ اس تیزی سے ہوا ہے کہ حکومت اور حکومتی ادارے خود حیران اور پریشان ہیں کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ ایسے ہی سابق دور حکومت میں ہوا تھاجب ڈالر نے ایک اونچی اڑان بھری تھی اور اس پر حکومت کو ایکشن لینا پڑا تھا اور ملک کے کئی کرنسی کا کوروبار کرنے والے افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اور قوم کو ایک امید دلائی گئی تھی کہ اب کی بار ڈالر میں اضافہ کر کے منافع کمانے والے قانون کی گرفت میں آچکے ہیں مگر پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا وہ بااثر لوگ اپنی دولت کے بل بوتے پر آرام سے بری ہو کر پہلے سے زیادہ معزز بن گے لیکن اب موجودہ حکومت کو ایک بار پھر انھی حالات کا سامنا ہے کیونکہ ڈالر اپنی اڑان کو اونچا سے اونچا کرتا جا رہا ہے لیکن حکومت بے بس ہے دوسرے لفظوں میں حکومت کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے کیونکہ ڈالر کی قدر میں غیر متوقع اضافہ کی وجہ سے پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضے میں خود بخود اضافہ ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے حکومتی مالیاتی اداروں کی طرف سے طے شدہ ملکی بجٹ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے ایک ایکشن کمیٹی بنائی گئی جو اس بات کا جائزہ لینے کے لئے ہے کہ وہ پتا چلایا جائے کہ آخر ایسا کیونکر ہو رہا ہے جس کام کو بہت دن پہلے ہو جانا تھا حکومت نے بہت دیر کر دی ہے کمیٹی کے جائزے کے بعد یہ عجیب انکشاف ہواہے کہ پاکستان سے تقریباً 25 ملین ڈالر یومیہ ملک کے مختلف ہوائی اڈوں کے راستے بیرون ملک سمگل ہو رہے ہیں یہ غیر ملکی زرمبادلہ بیشتر بریف کیسوں میں منتقل کیا جاتا ہے جو کہ حکومتی ناک کے عین نیچے ہو رہا ہے اور حکومت بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے گورنر سٹیٹ بینک بھی روپے کی قدر میں حالیہ تحفیف کی سب سے بڑی وجہ یہی بتاتے ہیں ا سٹیٹ بینک ایف آئی اے کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کر رہا ہے تا کہ ان سوٹ کیسوں اور بریف کیسوں کی تلاشی لے سکے جو ڈالر کی سمگلنگ کا باعث بنتے ہیں شاید اسطرح زرمبادلہ کی سمگلنگ کے راستے بند کیے جا سکیں سٹیٹ بینک نے یہ چونکا دینے والا انکشاف اس وقت کیا جب امور خزانہ کی قائمہ کمیٹی نے ان سے دریافت کیا کہ حکومت روپے میں لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے کیا کر رہی ہے؟ سرمایہ کا غیر قانونی فرار غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا باعث بنتاہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس کے حجم میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو ا ایک تخمینے کے مطابق اس سے قبل ڈالر کی سمگلنگ 5 سے 10 ملین ڈالر یومیہ تھی جو اب ماہانہ 750 ملین ڈالر یا 9 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہے گویا سمگل ہونے والے زرمبادلہ کی مالیت آئی ایم ایف سے لیے جانے والے قرضے کی رقم سے بھی کہیں زیادہ ہے یاد رہے کہ ایک تین سالہ بیل آؤٹ پیکیج کے تحت پاکستان آئی ایم ایف سے 6.7 بلین ڈالر بطور قرض حاصل کرے گاجس کی وجہ سے پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط کی پاسداری بھی کرنی پڑے گی کالے ۔ پاکستان میں کالا دھن بہت ہے، اس دھن کو سفید کرنے کے لئے حکومت کچھ نہ کھچھ کوشش کر رہی ہے، ابھی حکومت نے اس دھن کو سفید کر نے کی ایک اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ ابھی مزید اعلانات ہونے ہیں۔ کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اس میں منشیات کی تجارت سب سے اہم ہے اس کے لئے سرمایے کی کمی منشیات کے دھندے سے حاصل شدہ روپے سے پوری کی جاتی ہیں منشیات فروش یور پ کو منشیات کی سمگلنگ کے لیے دالبدین، ایران ، ترکی روٹ استعمال کر تے ہیں اور ملک میں نقدی، اشیائے تعیش اور اسلحہ سمگل کر تے ہیں ان سے حاصل ہونے والی رقم کو بلیک مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے اور وہ لوگ جو کالے دھن کو سفید کرنا چاہتے ہیں روپے سے ڈالر خرید کر دبئی کے راستے محفوظ مقامات پر بھجوا دیتے ہیں اس سارے کاروبار میں ہوائی اڈوں پر تعینات اہلکار بھی ملوث ہوتے ہیں جو اس کام کی منہ مانگی رقم وصول کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق یہ رقم اتنی بڑی ہوتی ہے جو اپنی سروس پوری کرنے پر حکومت کی طرف سے ان کو دی جاتی ہے ایسی رقم وہ کسی ایک کام سے ہی کما لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان اہلکاروں کی کروڑوں کی جائیداد بن چکی ہوتی ہے جب وہ ان محکموں کو خیر اباد کہہ رہے ہوتے ہیں اس کی کئی مثالیں آئے دن میڈیا کی ذینت بنتی رہتی ہیں مگر ان پر کوئی چیک ایند بیلنس نہیں ہے کہ جو ان اہلکاروں کو چیک کر سکے کہ ان کے یہ اثاثے کہاں سے بنے ہیں۔وہ تمام لوگ جو اپنے کاروبار کا حساب نہیں رکھتے اور ٹیکس ادا نہیں کرتے اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ بیرون ملک رکھنا محفوظ تصور کرتے ہیں زرمبادلہ کی کمی اور روپے کی قیمت میں تشویشناک تحفیف پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف رقم بھیجنے والے سے اس کے حصول کا ذریعہ آمدن دریافت کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس نے اس پر ٹیکس بھی ادا کیا ہے یا نہیں اگر حکومت ڈالر کی اس غیر متوقع اڑان کو روکنا چاہتی ہے تو تو اس کے لئے ملکی ہوائی اڈوں کی کڑی نگرانی کا نظام بنائے اور ڈالروں سے بھرے بریف کیسوں کو ہوائی جہازوں کے ذریعے باہر لے جانے کا مؤثر سدباب کیا جائے کیونکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی تشویشناک صورت اختیار کر چکی ہے اس وقت برآمدات سے 25 بلین ڈالر اور زرمبادلہ کی ترسیلات کی صورت میں 14 ملین ڈالر سالانہ موصول ہو رہے ہیں جبکہ درآمدات کا بل 44 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو کہ ملکی معیشت کے لئے خطرناک ہے اس فرق کو سٹیٹ بینک کے محفوظ ذخائر سے پورا کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر بہت تیزی سے کم ہوتے ہیں زرمبادلہ کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے لیے اوپن مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری سے روپے کی قیمت میں مسلسل کمی اور افراط زر کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کی ایسی لہر آتی ہے جس کو وکنا خود حکومت کے بس میں نہیں رہا۔ ڈالر کی تیزی سے ملکی معیشت اور پاکستانی روپیہ دباؤ میں کیوں ہے؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، لیکن سب سے بڑی وجہ ملک کے زِرمبادلہ کے ذخائرمیں تیزی سے واقع ہونے والی کمی ہے۔فروری دو ہزار بارہ میں زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً ساڑھے سولہ ارب ڈالرتھے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرض کی ادائیگی شروع کرنا تھی۔پاکستان سال دو ہزار بارہ میں اب تک دو ارب باون کروڑ بیس لاکھ ڈالر آئی ایم ایف کو ادا کر چکا ہے جبکہ رواں سال کی آخری قسط اکیس نومبر کو ادا کی گئی جس کے نتیجے میں زِرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گرے اور اب یہ ذخائر تیرہ ارب اکیاسی کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔ سال رواں میں پاکستان آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کو مزید چار ارب ڈالر ادا ہورہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں زِرمبادلہ کے ذخائرمیں مزید کمی آ رہی ہے۔ درآمدات کے لیے زِرمبادلہ کی فراہمی اس کے علاوہ ہے۔ اس عرصے میں حکومت یہ توقع کرتی رہی کے امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ساٹھ کروڑ ڈالر، پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے اسّی کروڑ ڈالر اور تھری جی لائسنس کی نیلامی سے تقریباً اتنی ہی رقم حاصل ہوجائیگی جس سے زِرمبادلہ کے ذخاِئر پردباؤ کم کرنے میں مدد ملیگی مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ سٹیٹ بینک کے پاس حکومت کے ذخائر صرف آٹھ ارب چھیاسی کروڑ ڈالر ہیں، جب کہ باقی چار ارب اکہتّر کروڑ ڈالر پاکستانی شہریوں کے ہیں۔ اس وقت ملک کے معاشی حالات ایسے ہیں کہ زِرمبادلہ کے حصول کے ذرائع اور امکانات محدود ہیں جبکہ حکومت کا بڑا انحصار برآمدات اور ترسیلات پر ہے۔حکومت نے ڈالر کی کمی پورا کرنے کے لئے ایک لمبی فہرست ایسے اداروں کی بنائی ہے۔ جن کو فروخت کرکے ڈالر حاصل کئے جاسکیں، ان میں پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، انشورنس کی تینوں سرکاری کارپوریشن، اور دیگر ادارے ہیں۔ لیکن ان اداروں کی نجکاری آسان نہیں ہے، اس لئے زِرمبادلہ کے دیگر سوتے بھی خشک نظر آتے ہیں یعنی سرکاری صنعتوں کی نجکاری، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری، اسٹاک مارکیٹ میں بیرونی سرمایہ کاری اور عالمی مالیاتی منڈیوں میں بانڈز کا اِجرا وغیرہ بھی موجودہ حالات ممکن نظر نہیں آتا۔"زِرمبادلہ کے ذخائرمیں تیزی سے ہوتی کمی کے نتیجے میں روپے کی قدر میں کمی ناگزیرہے۔ آنے والے مہینوں میں ڈالرایک سو بیس روپے سے تجاوز کر جا نے کے دعوی کییئے جارہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔
یہ صورتحال ملک کے معاشی منتظمین کے لیے تو پریشان کن ہے ہی مگر عوام کے لیے بھی شدید مشکلات کا پیش خیمہ ہے۔
ملک پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری کی زد میں ہے اور عوام کے لیے روپے کی قدر میں مزید کمی کا مطلب صرف اورصرف مہنگائی، مہنگائی اور مہنگائی ہے ،اکتوبر دو ہزار تیرہ میں اقوام متحدہ کے ایشیاء سے متعلق معاشی اور معاشرتی سروے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں افراط زر کی شرح کئی برسوں سے کافی زیادہ ہے اورگزشتہ برس سیلاب کی تباہ کاریوں اور خوراک کی درآمد کی وجہ سے افراط زر چودہ فیصد رہی تاہم اس سال اس کے کم ہو کر بارہ فیصد ہونے کا امکان ہے۔مالی سال سنہ دو ہزار دس میں پاکستان میں شرح نمو تین اعشاریہ آٹھ فیصد تھی جو کم ہو کرگزشتہ برس دو اعشاریہ آٹھ فیصد تک رہ گئی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں امن وامان کی خراب صورت حال، عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، ملک کے بڑے حصے میں آنے والے سیلاب، بجلی اور قدرتی گیس کی شدید قلت شرح نمو میں کمی کی بڑی وجوہات ہیں۔حکومت پاکستان نے گزشتہ برس بھی شرح نمو چار فیصد ہونے کا دعوی کیا تھا تاہم اصل میں یہ بہت کم رہی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک کو بجٹ کے خسارے کا سامنا ہے اور اس ضمن میں پاکستانی حکومت کو اسے کم کرنے کے لیے شدید مشکلات درپیش ہیں۔رپورٹ کے مطابق بجٹ کے خسارے کی بڑی وجوہات میں سکیورٹی اخراجات میں اضافہ، مختلف اشیاء پر سبسڈی اور سیلاب کے معیشت پر برے اثرات شامل ہیں۔"امن وامان کی خراب صورت حال، عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، ملک کے بڑے حصے میں آنے والے سیلاب، بجلی اور قدرتی گیس کی شدید قلت پاکستان میں شرح نمو میں کمی کی بڑی وجوہات ہیں۔"اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں ان ممالک کا بھی ذکر ہے جنہیں بجلی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ان میں پاکستان کے علاوہ نیپال اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔پاکستان کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہاں پر بجلی اور قدرتی گیس کی شدید قلت نے صنعتی پیداوار بالخصوص ٹیکسٹائل اور کھاد کی صنعت کو بری طرح متاثر کیا۔رپورٹ میں بجلی اور قدرتی گیس کی قلت پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کے لیے تجاویز بھی دی گئی ہیں جس میں بجلی کی چوری کو روکنے کے علاوہ بجلی ضائع ہونے سے بچانے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔اقوام متحدہ نے غربت کے خاتمے کے لیے پاکستان پر معاشی اصلاحات پر عملدرآمد، سرکاری محکموں کو مضبوط کرنے، گورننس میں بہتری اور ایسا نظام تشکیل دینے کی صرورت پر زور دیا جس کے تحت غریب طبقوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔رپورٹ میں بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے گیارہ ارب بیس کروڑ ڈالر بھجوانے سے زیر مبادلہ کے ذخائر میں بھی قابل ذکر حد تک اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ کو رجحان ایشیا بھر میں ہے۔ ایشیائی کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں تیزی کے رجحان سے سرمایہ کاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ ٹوکیو مارکیٹ میں ڈالر کی شرح تبادلہ ین کے مقابلے میں معمولی اضافے کے بعد97.29 ین فی ڈالر ہوگئی۔ یورو کی شرح تبادلہ بھی ڈالر کے مقابلے میں نسبتاً گر گئی جو پچھلی شرح 1.3572 ڈالر فی یورو سے کم ہوکر1.3563 ڈالر فی یورو پر آگئی تاہم یورو کی قدر ین کے مقابلے میں نسبتاً بہتر ہوگئی ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق ڈالر کی شرح تبادلہ میں حالیہ بہتری امریکی صدر کی جانب سے فیڈرل ریزرو کیلئے جینٹ مییلسن کی بطور چیئرمین نامزدگی ہے جس کے بارے میں سرمایہ کاروں کا موقف ہے کہ وہ ادارے کی صورتحال بہتر کرنے میں کامیاب رہیں گے ۔ دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکی کرنسی کو پچھاڑنے کی چینی جنگ بھی شروع ہو چکی ہے۔ اب چین کی اگلی منزل دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بننا اور اپنی کرنسی’’ یوان‘‘ (یا رینبی) کو عالمی کرنسی بناناہے۔ چند ماہ سے اس امر کے اشارے ملے ہیں کہ ڈالر کو پچھاڑنے کی چینی جنگ شروع ہو چکی۔ پچھلے چند ماہ میں چین نے آسٹریلیا، پاکستان، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک سے تبادلہ ِکرنسی کے معاہدے کیے ہیں۔ گویا اب پاکستانی روپے سے براہ راست یوان خریدا جا سکے گا۔ ورنہ پہلے امریکی ڈالر خرید کر یوان خریدنے پڑتے تھے۔ سرکاری بینکوں کی عالمی تنظیم، دی بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمینٹس نے اعلان کیا کہ یوان تجارتی لین دین کے لیے استعمال ہونے والی دنیا کی دس بڑی کرنسیوں میں شامل ہو چکا۔ یہ خبر بھی آشکارا کرتی ہے کہ چینی حکومت اب اپنی کرنسی کو عالمی معاشی و تجارتی سطح میں زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنا چاہتی ہے۔ سرکاری بینکوں کی عالمی تنظیم کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں روزانہ 5.3 ٹرلین ڈالر کا تجارتی لین دین ہوتا ہے۔ اس میں سے 4.7 ٹرلین کا لین دین امریکی ڈالر میں ہوتا ہے۔جبکہ فی الوقت یوان میں ہونے والا لین دین صرف 120 ارب ڈالر روزانہ تک محدود ہے۔ گویا چینی کرنسی کو ابھی ڈالر سے آگے نکلنے میں خاصا طویل سفر طے کرنا ہے۔لیکن اس کی بڑھوتری خاصی تیزی سے ہو رہی ہے۔ 2010ء میں یوان میں 34 ارب ڈالر کا لین دین ہوتا تھا۔ یوں صرف تین برس میں یوان کا لین دین تقریباً ’’تین سو گنا‘‘ بڑھ گیا۔ دنیا کی دس طاقتورکرنسیوں کی فہرست اب کچھ یوں تشکیل پاتی ہے:1… امریکی ڈالر۔ 2 …یورو۔3 …جاپانی ین۔4… برطانوی پونڈ۔5 …آسٹریلوی ڈالر۔6 …سوئس فرانک۔7 …کینیڈین ڈالر۔8 …میکسیکن پیسو۔9 …چینی یوان اور10…نیوزی لینڈ ڈالر۔ چینی حکومت اس وقت 3.44 ٹرلین امریکی ڈالر کا زرمبادلہ رکھتی ہے۔ یہ دنیا میں زرمبادلہ کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ مگر چین کو خطرہ ہے کہ امریکی حکومت کے قرضے (15 ٹرلین ڈالر) اور تجارتی عدم توازن (555ارب ڈالر) کی وجہ سے امریکی ڈالر کمزور ہوسکتا ہے۔ اسی باعث چینی حکومت پچھلے دو تین برس سے اپنے ڈالروں کے ذریعے سونا خرید رہی ہے۔ ظاہر ہے ،ڈالر کی نسبت سونا زیادہ محفوظ سرمایہ کاری ہے۔ گوچین اور (روس نے بھی) وسیع پیمانے پر سوناخریدا تو پوری دنیا میں سونے کی قیمتیں مانگ بڑھنے سے کئی گنا بڑھ گئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چینی حکومت یوآن کو عالمی کرنسی بنانے کی خاطرکسی قسم کے معاشی و سیاسی اقدامات کرتی ہے۔کیونکہ امریکی حکومت اور اس کے چیلے (برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا وغیرہ) کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی کرنسیوں کی قدروقیمت گھٹ جائے۔ لہٰذا وہ پوری شدت اور جائز اور ناجائز طریقوں سے چین کا مقابلہ کریں گے۔ بعید نہیں کہ اس معاملے پر کرہ ارض میں تیسری جنگ عظیم چھڑ جائے۔ دراصل امریکہ کواکلوتی سپرپاور بنانے میں ڈالر کا بڑا ہاتھ ہے۔ پھر مشینوں، انجنوں و گاڑیوں، تیل اور اسلحے کی فروخت ہی سے زیادہ آمدن ہوتی ہے۔ یہ تینوں ایسی چیزیں ہیں کہ جب کہیں جنگ یا خانہ جنگی ہو تو نہ صرف ان کی کھپت بڑھتی بلکہ قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بہرحال پوری دنیاخصوصاً عالم اسلام میں کروڑوں لوگ یہ انتظار کر رہے ہیں کہ عالمی سطح پر ڈالر کی اجارہ داری انجام کو پہنچے اور امریکی حکومت اپنے حواس میں آئے جسے حد سے زیادہ طاقت نے مغرور ، خودسر اور ضدی بنادیا ہے اور شائد اسی سے پاکستان بھی ڈالر کی غلامی سے آزاد ہو۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387554 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More