لڑتے لڑتے ہو گئی گم

مسئلہ جائیداد کا نہیں کہ جائیداد تو بڑے ملک صاحب نے اپنی زندگی ہی میں اپنے دونوں بیٹوں کے درمیان بڑے احسن طریقے سے تقسیم کر دی تھی لیکن ملک صاحبان کی بنت میں کچھ ایسی بات ضرور ہے کہ اتفاق یہ بادشاہ ذرا کم ہی کرتے ہیں۔چھوٹے ملک صاحب نے باہر سے پڑھا تھا اور وہ اپنے آپ کو روشن خیال تصور کیا کرتے۔بیٹی کا رشتہ آیا۔لڑکا پڑھا لکھا تھا اور کما بھی ٹھیک ہی رہا تھا،آؤ دیکھا نہ تاؤ،ہاں کر دی۔بڑے ملک صاحب نے سنا تو آگ بگولہ ہو گئے۔کمال ہے نہ ذات نہ برادری نہ حسب نہ نسب ،چلے ہیں رشتہ دینے۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ چھوٹے بھائی سے بات کی۔ان کو زعم تھا کہ بیٹی میری ہے فیصلہ بھی میں نے ہی کرنا ہے مجھے مشورے کی قطعاََ ضرورت نہیں۔بات بحث و مباحثے سے آگے نکلی۔لڑائی جھگڑااتنا بڑھا کہ چھوٹا ملک جان سے گیا اور بڑے کو عمر قید ہو گئی۔حویلیاں بک گئیں اور اب ان حویلیوں پہ دشمنوں کا قبضہ ہے۔ ملک صاحبان کی اولادیں در در کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہیں۔

مجھے تو میرا پاکستان بھی ملکوں کی حویلی لگتا ہے۔اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔ہر ایک امریکہ مخالف،ہر ایک اسلام پسند،ہر ایک غربت کی دھائی دیتا،ہر ایک کرپشن کے خلاف،ہر ایک انصاف در در پہنچانے کا ذمہ دار۔سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ اپنے تازہ ترین آمر جنرل مشرف نے لگایا تھا لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس نعرے میں پاکستان سے مراد ان کی اپنی ذاتِ شریف تھی جو آجکل آرٹیکل سکس کے شکنجے میں آئی ہوئی ہے۔پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی کو دیکھ لیں ۔اس کا منشور دیکھ لیں اس کے نعروں پہ غور کریں ،آپ کو لگے گا کہ ان سے زیادہ پاکستان اور پاکستانی عوام کا کوئی ہمدرد نہیں۔ان کے کارنامے دیکھیں تو لگتا ہے کہ یہ صومالیہ کے ڈاکو ہیں جو اس ملک کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور اس سے حسب موقع تاوان کی اقساط وصول کر رہے ہیں۔قاف لیگی تو خیر تھے ہی دودھ سے دھلے لیکن جو عوامی حکومت ان کے بعد ہم نے اپنے سروں پہ خود مسلط کی تھی اس کے سینئر وزیر کے اکاؤنٹ میں اکٹھا ہی کوئی ساڑھے چار کروڑ ڈال گیا تھا اور اس غریب کو پتہ اس وقت چلا جب عدالت نے توجہ دلائی۔

سب سے پہلے امریکہ مخالف نعرے کی بات کرتے ہیں۔نون لیگ پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم حتیٰ کہ اپنی اے این پی اور مولٰنا فضل الرحمن بھی عوام کے سامنے آتے ہیں تو امریکہ کے سب سے بڑے مخالف کے طور پہ اپنا تعارف کرواتے ہیں ۔مولٰنا تو اس کتے کو بھی شہید کہتے ہیں جو امریکی ڈرون سے ہلاک ہو۔جب امریکہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوئی شعوری کوشش کی جاتی ہے تو یہ خم ٹھونک کے میدان میں کھڑے ہو جاتے اور اس جماعت اور لیڈر کی مخالفت کرتے ہیں۔سبھی پارٹیاں وہ بھی جن کے نزدیک طالبان شہید اور فوجی پتہ نہیں کیاہیں بھی طالبان کے طرزعمل کی مخالف ہیں لیکن کوئی ان سے مناظرہ نہیں کرتا۔اس کے لئے سنی اتحاد کونسل والوں کو آگے کر دیا جاتا ہے۔

ہر شخص نفاذ اسلام چاہتا ہے لیکن اپنے لئے وہ استثناء چاہتا ہے۔ہر شخص کرپشن کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن حالت یہ ہے کہ پانی پینے کے لئے جو گلاس مسجد کے کولر کے ساتھ کوئی سخی رکھتا ہے اسے بھی زنجیروں کے ساتھ باندھ کے رکھنا پڑتا ہے ورنہ اگلے دن نئے گلاس کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ چین ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا تھا۔چین آج دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہے اور ہم بھی دنیا کی سب سے بڑی قوت ہیں۔دنیا میں کہیں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رپورٹ ہو ممکن ہی نہیں کہ اس میں پاکستان کا نام نہ آئے۔یا تو دہشت گرد کے پاس سے پاکستان کا پاسپورٹ نکلے گا بھلے وہ رہنے والا کسی بھی ملک کا ہو۔یا اس نے تربیت پاکستان سے لی ہو گی یا اس کے پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے ساتھ رابطے ہوں گے۔

اس وقت عالم یہ ہے کہ تحریک انصاف جماعت اسلامی کے ہمراہ نیٹو سپلائی روک رہی ہے۔دفاع ِپاکستان کونسل والے ڈرون حملے روک رہے ہیں۔طاہر القادری دسمبر میں مہنگائی روکنے کے لئے کمر کس رہے ہیں۔مولٰنا فضل الرحمن طالبان کو روکنے کے لئے جرگہ تیار کر رہے ہیں۔اے این پی بیگم نسیم ولی کو روک رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی نون لیگ کو روک رہی ہے اور نون لیگ سب کو روک رہی ہے لیکن مجال ہے جو کوئی رک کے دے رہا ہو۔ اور تو اور ڈالر بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا اور اب تک ملکی تاریخ کی بلند تریں سطح پہ ہے۔ان سب معاملات کو دیکھ کے لگتا ہے کہ ایک گاڑی ہے جس میں سواریاں تو بھری ہوئی ہیں ۔یہ گاڑی کھائی کی طرف بھگٹٹ بھاگی جا رہی ہے اور اس کا ڈرائیور کوئی نہیں۔ایسے میں انجام کے لئے کیا کسی نجومی سے فال نکلوانا ضروری ہے۔تو کیا آنکھیں بند کر لی جائیں اور انتظار کیا جائے کہ کب ہم اپنے انجام کو پہنچتے ہیں یا کھائی میں گرنے سے پہلے کچھ ہاتھ پاؤں مارنے کی سعی کی جائے تا کہ ہم پہ خود کشی کا الزام تو نہ آئے۔

عمران خان کا احوال میں اپنے کل کے کالم میں لکھ چکا۔نوجوانوں کی نبض پہ ان کا ہاتھ ہے۔نوجوان ان کے ایک اشارے پہ جان قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔کیا اس طاقت کو سیاست کی نذر کر دیا جائے یا پھر اسے پاکستان کی عظمت وشان بڑھانے کو استعمال کیا جائے۔نواز شریف ایک بار پھر کافی ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ سریر آرائے سلطنت ہیں۔ ان کے ووٹر بھی ظاہر ہیں ان کی پشت پہ ہوں گے۔ فوج ان کے شانہ بشانہ اور عدلیہ بھی تقریباََ ان پہ مہربان۔طالبان پھر سے مذاکرات پہ آمادہ۔ایم کیو ایم اے این پی گو اندرونی خلفشار کا شکار ہیں لیکن ملکی سیاست میں ان کا ایک کردار ہے۔پیپلز پارٹی کو غیر متعلق کہنے والوں کو اپنے رائے پہ نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔قوم پرست بھی پاکستان کے اندر رہ کے اپنی بات کہنا چاہتے ہیں۔

نواز شریف دعوت دیں اور حقیقی معنوں میں ملک کی قیادت سنبھالیں۔اب کی بار اے پی سی اس بات پہ بلائی جائے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔پاکستان کی سمت کیا ہونی چاہئیے۔اے پی سی کے فیصلوں کو وقت گذاری کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔اب کی بار منافقت سے کام نہ لیا جائے۔عوام بھی نگران رہیں۔ہاں اگر ایسا نہ ہو اور شاید ایسا نہ ہو پائے تو حزب اختلاف اپنے فیصلے خود کرے۔ تحریک انصاف ،جماعت اسلامی ،دفاع پاکستان کونسل، طاہر القادری کی عوامی تحریک،مولٰنا فضل الرحمن اور اے این پی کو بھی دعوت دی جائے اور ایم کیو ایم سے بھی مشاورت کی جائے۔صرف یہ نہیں ملک کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں ایک کمرے میں بند ہو کے ون پوائنٹ ایجنڈا پہ کام کریں اور وہ ون پوائنٹ ہو پاکستان کو بچانے کا۔

سازشیں ہیں اور ایسی کہ اب تو روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ انہی کالموں میں پچھلے تین سالوں سے بار بار یہی عرض کیا ہے کہ تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔اب تو یہ ارضِ پاک پہ نازل بھی ہو چکے لیکن خدا جانے وہ جنہیں یہ الہام ہونا چاہئیے ان کی بند آنکھوں اور بند دماغوں پہ دستک کیوں نہیں ہوتی۔ یادرکھئیے کہ اگر ہم نے اس خطرے کا بر وقت سد باب نہ کیا تو اگلے چھ ماہ ۔۔۔۔سوچ کے کپکی آتی ہے۔ اﷲ کریم ہماری اور ہمارے وطنِ عزیز کی حفاظت کرے۔آمین
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269076 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More