یہودی اسکول کی واحد مسلمان لڑکی کی کہانی

بوسٹن، میسا چوسٹس: ایک مسلمان امریکی کے طور پر مجھے یہ احساس ہے کہ تولیڈو کی عبرانی اکیڈمی سے حاصل کردہ میرا ڈپلومہ ایک غیر معمولی سند ہے۔ لیکن اگر میرے خاندانی پس منظر اور ہمارے تشخص کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے۔

میری والدہ 1963 میں انڈیا سے ہجرت کرکے امریکہ آئی تھیں جہاں انہوں نے شمال مغربی اوہائیو میں سکونت اختیار کی۔ اس کے دوسال بعد جب کوٹہ سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی گئی تو جنوبی ایشیا اور دیگر غیر یورپی ممالک سے بڑی تعداد میں لوگوں نے اِدھر کا رُخ کیا۔ میرے والد تولیڈو، اوہائیو میں 1967 میں وارِد ہوئے تھے جس کے ایک سال بعد دونوں کی شادی ہوگئی۔

نسلی اعتبار سے تنہا ہونے اور مذہب سے گہری وابستگی کی بنا پر انہیں لبنانی اور شامی مسلمانوں پر مشتمل مقامی عرب کمیونٹی کے ساتھ بہت سی باتیں مشترک نظر آئیں۔ عربوں نے بھی کھُلی بانہوں سے ان کا استقبال کیا اور فوراً ہی انہیں اپنی کمیونٹی میں ضم کر لیا۔ میرے والدین نے شہر میں ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرنے میں بھی مدد کی اور مسلم کمیونٹی کے فعال ارکان میں شامل ہوگئے۔ اوہائیو کے خوبصورت طرزِ تعمیر کے ساتھ بنائی گئی یہ مسجد دور تک پھیلے ہوئے مکئی کے کھیتوں کے عین وسط میں واقع ہے۔

جب جنوب ایشیا سے مزید لوگ وہاں آئے تو کسی بنا پر میرے والدین ان میں پوری طرح گُھل مِل نہیں پائے۔ میرے والدین کا تجربہ ان کا اپنا منفرد تجربہ تھا۔ ان کا ثقافتی تشخّص جنوب ایشیائی ترکے، جس نے انہیں جنم دیا اور عرب کمیونٹی، جس نے انہیں پروان چڑھایا ، کا مجموعہ تھا۔ ان دونوں حصّوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جُڑ کر میرے گھر کی ثقافت تخلیق کی جس میں میں نے جنم لیا اور بڑی ہوئی۔

یہ گھر کا ماحول ہی تھا جس میں وہ ثقافتی کثرتیت موجود تھی جس میں میرے والدین نے امریکی مسلمان کے طور پر میرے تشخّص کی آبیاری کی۔ انہوں نے اپنے قول و فعل سے ایک پکّا مسلمان اور مُحبِ وطن امریکی ہونے کے درمیان تعلق کا مظاہرہ کیا۔

جب میں چار سال کی تھی تو میرے والد بے گھر لوگوں کے لئے گھر گھر جاکر چندہ مانگنے کے لئے مجھے بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ کالج سے چھُٹی والے دن میری والدہ نے "ہیبی ٹیٹ فار ہیومینِٹی" کے لئے مجھے گھسیٹ کر بستر سے نکال لیا کرتیں۔ معاشرے نے جو کچھ ہمیں دیا تھا اس کا صِلہ چکانا ہمارا فرض بھی تھا اور اعزاز بھی، کیونکہ ہم مسلمان بھی تھے اور امریکی بھی۔

لیکن یہ کہانی صرف آدھی ہے۔ میرے والدین کی طرح میرے گھرکے ماحول نے میرے تشخّص کے بھی صرف ایک حصّے کی تشکیل کی تھی۔ دوسرا حصّہ میرے دوستوں کے ساتھ گزرنے والی روزمرّہ زندگی اور کمیونٹی کے وسیع تر تصوّر سے آیا تھا۔ اپنے عقیدے اور وطن کے ساتھ میرے والدین کی پختہ وابستگی نے مجھے نہ صرف صلہ چکانے کی راہ پر لگایا بلکہ مجھے مجبور کیا کہ میں اپنے تشخّص کے تصورات کو خود پرکھوں اور اپنے آپ پر ملکیت حاصل کروں۔

انہوں نے مجھے شمال مغربی اوہائیو کے مضافات میں واقع چھوٹے سے یہودی اسکول میں داخل کرا دیا۔ اسکول کی واحد غیر یہودی طالبہ کی حیثیت سے میں نے عبرانی زبان سیکھی اور ہم جماعتوں کے ہمراہ کنیسہ میں دعا بھی مانگی۔ اتوار کو میں اپنی مسجد میں عربی اور مذہب کی کلاس میں شریک ہوتی اور مسلم کمیونٹی کے ساتھ عصر کی نماز ادا کرتی تھی۔

ان اعمال کے حوالے سے میرے ذہن یا ہمارے خاندان میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ نو سال تک یہی معمول میری حالات کے نارمل ہونے کی تعریف بنا رہا۔ روزانہ بلا ناغہ اپنے یہودی ماحول سے مسلمان ماحول میں آنے جانے سے مجھے موقع ملا کہ میں اپنے عقیدے کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں کے عقیدے کی بھی توصیف کر سکوں۔

میرے والدین اس معاملے میں بہت محتاط تھے کہ میں اسلام اور یہودیت کے درمیان موجود فرق سے آگاہ رہوں۔ وہ مجھے اسکول میں پڑھائے جانے والے ہر موضوع کی اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق تشریح بتاتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس بارے میں بھی بہت محتاط تھے کہ مسلمان کی حیثیت سے ہمیں ابراہیمی عقائد کے اپنے بہن بھائیوں کا احترام کرنا چاہیے۔ ہمارے نقطہ ہائے نظر مختلف ہونے کا مطلب دوسرے عقیدے میں موجود سچائی کو جھٹلانا نہیں ہے۔

میں نے عبرانی اکیڈمی سے 1993 میں گریجویشن کی اور پھر جونیر ہائی اور ہائی اسکول کے لئے ایک غیر مذہبی اسکول میں چلی گئی۔ جہاں تک میرا علم ساتھ دیتا ہے آج تک میرے دو بہن بھائیوں کے علاوہ کسی مسلمان نے یہودی اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ بالکل اسی طرح جب مسلم کمیونٹی میں اضافہ ہوا اور انہوں نے وہاں اپنے اسکول کھولنے شروع کئے کبھی کسی یہودی بچے نے وہاں داخلہ نہیں لیا۔

میرے والدین کو امریکہ آمد پر عربوں نے جو محبت دی تھی اس کا رنگ میرے اندر یہودی کمیونٹی کے لئے ظاہر ہوا جس نے مجھے گھر کے ایک فرد کی طرح خوش آمدید کہا تھا۔ میں جانتی ہوں کہ بالغ ہونے کے بعد اسلام سے میری وابستگی کی جڑیں میرے بچپن کے دوستوں تک پہنچتی ہیں جنہوں نے مجھے اس لطف اور روحانی آسودگی میں شریک کیا جو انہیں اپنے عقیدے پر عمل کرکے ملتی تھی۔

اپنے عقیدے سے ان کی وابستگی نے میرے اندر یہ لگن پیدا کی اور مجھے حوصلہ دیا کہ میں اپنے عقیدے کا جامعیت اور تفصیل سے جائزہ لوں اور اس کی توصیف کروں۔
محمد جاوید خان غوری
About the Author: محمد جاوید خان غوری Read More Articles by محمد جاوید خان غوری: 8 Articles with 6729 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.