افسوس صد افسوس ملکی دفاع اور اعوام کی حفاظت کرنے والی
مسلح افواج جسکی وجہ سے آج جماعت اسلامی سمیت کروڑوں پاکستانی اس ملک کی
آزاد سرحدوں کے اندر ادھم مچائے رہتے ہیں اس فوج کے جوان ملک بچاتے مریں
جان قربان کریں اگر وہ شہید نہیں تو پھر کوئی اور مائی کا لعل جو امریکی
امداد پر پلا بڑھا ہو اسکے زیر سایہ مجاہد بنا ہو وہ کس طرح شہید کہلا سکتا
ہے-
کہتا ہوں سچ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ مولانا
مودودی قیام پاکستان کے مخالف قبیل کے علماء اورسیاسی رہنمائوں کے ہمرکاب
تھے ان کے علمی تجزیے سے انکارممکن نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سوائے رئیس
الاحرار سید عطا اللہ شاہ بخاری جیسے درویش کے سوا کسی اور عالم نے اپنی
غلطی کو تسلیم نہیں کیا-
مولانا مودودی 1948ءکے جہاد کشمیرکو تو انہوں نے جہاد ماننے سے ہی انکار
کردیا تھا تو پھر مسئلہ یہی ہے کہ وہاں مرنے والے کیا شہید تھے ، اگر نہیں
تو اب جو کشمیرمیں لوگ مررہے ہیں وہ بھی شہید ہیں یا نہیں-
افسوس صد افسوس کہ منور حسن نے بیت اللہ محسود درندے کو شہید کے لقب سے
نواز دیا اس درندے کے نام کے ساتھ لفظ اللہ لگاتے ہوئے بھی شرم آتی ہیں ستم
اس سے بڑھ کر غیاث پراچہ نے بھی ایک پروگرام میں اسامہ بن لادن کو ہیرو
قرار دے دیا-
بقول شیخ رشید صاحب کے کہ پاکستان زندگی اورموت کے مسئلے سے گزر رہا ہے
جبکہ قوم کو شہید اور غازی کے چکر میں ڈال دیا گیا ہے کیا جنت کے تمام شہید
شہادت کے بارے میں پاکستانی قوم کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں- |