اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ وزیر اوقاف پنجاب
عطامانیکا کی زیرصدارت مختلف مکاتب فکر کوآرڈی نیٹرزکے اجلاس میں مختلف
مکاتب فکر کے درمیان متفقہ طورپر ضابطہ اخلاق تیارکرلیاگیا ہے۔ اجلاس میں
حافظ طاہر محموداشرفی نے پندرہ نکات پیش کیے 9نکات منظورکرلیے گئے۔ ضابطہ
اخلاق کے مطابق خطیب یا ذاکر اہلبیت اصحاب ِرسول اورخلفائے راشدین کی توہین
نہیں کرے گا۔ کوئی فرقہ دوسرے فرقے کے افرادکوکافرنہیں کہے گااورنہ واجب
القتل قراردے گا۔ ایک اخبار کے مطابق اہلبیت عظام،خلفاء راشدین اورصحابہ
کرام کی تکفیر کرنے والا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوگا۔ اذان اورعربی خطبے
کے علاوہ لاؤڈسپیکر پر مکمل پابندی ہوگی۔ کسی بھی مکتب فکر کے خلاف نفرت
انگیز کلمات ادا نہیں کیے جائیں گے۔ ضابطہ اخلاق میں مزید کہاگیا ہے کہ
اکابرین اورمقامات مقدسہ عبادت گاہوں کااحترام یقینی بنایاجائے گا۔ دل
آزاری، نفرت انگیزاوراشتعال انگیز نعروں سے اجتناب کیا جائے گا۔ توہین
رسالت قانون میں ترمیم مستردکردی گئی۔ بین المسالک ہم آہنگی ، قانون سازی
کے لیے علماء کرام سرگرم ہوگئے۔ حنیف جالندھری کے حکومتی اوراپوزیشن
جماعتوں سے رابطے شروع ہو گئے ہیں۔ جمیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کا
بھی سانحہ راولپنڈی پرسخت موقف اختیارکرنے کا فیصلہ۔
یہ ایک اچھی پیشرفت ہے کہ علماء اوروزیراوقاف پنجاب عطامانیکا کی زیرصدارت
ہونے والے اجلاس میں 9نکات پر مشتمل ضابطہ اخلاق منظورکر لیا گیا ہے۔ اس
ضابطہ اخلاق میں جتنے بھی نکات شائع ہوئے ہیں۔ ان سے کسی کو نہ تو کوئی
اختلاف نہیں ہوسکتا ہے اورنہ ہی کوئی ان پر اعتراض کرسکتاہے۔ تاہم اتنا
ضرور ہے کہ ان نکات میں کچھ ایسے نکات بھی شامل نہیں ہیں جو فرقہ واریت کو
روکنے کے لیے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس ضابطہ اخلاق میں ایک نکتہ بہت ہی
اچھا ہے کہ اہلبیت، صحابہ کرام، خلفاء راشدین کی توہین نہیں کی جائے گی۔ ان
نفوس قدسیہ کااحترام ہمارا فرض ہے۔اس میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم
کو بھی شامل کرلیاجائے۔ جو ان نفوس قدسیہ کی توہین کرے اس کے لیے کہا گیا
کہ وہ کافرہوگااورجو تاجدارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی توہین کرے اس کے
بارے کیا خیال ہے کیا اس کا ایمان اوراسلام باقی رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ
یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی فرقہ کسی دوسرے فرقہ کوکافرنہیں کہے گا۔ اگر
کوئی ایسافعل کرتاہے ۔ کوئی شخص یا مولوی ان نفوس قدسیہ کے بارے میں ایسے
الفاظ کہتا ہے یا لکھتا ہے جوقابل گرفت ہوں اوران نفوس قدسیہ کی توہین پر
مبنی ہوں تو یہ اختیار کس کے پاس ہوگاکہ وہ توہین کرنے والوں کو کافرقراردے۔
علماء کے پاس، مشائخ کے پاس یا حکومت کے پاس۔ پھر اس بات کا تعین کیسے کیا
جائے گا کہ جو الفاظ کہے گئے ہیں وہ توہین کے زمرے میں آتے ہیں یانہیں۔ اس
ضابطہ اخلاق میں ایک اوراچھی بات لکھی ہوئی ہے کہ اشتعال انگیزاورنفرت
انگیز نعرے نہیں لگائے جائیں گے۔ جو یہ نعرے لگائے گا اس کی سزاکیا ہوگی۔
اشتعال انگیزاورنفرت انگیز نعرے تو نہیں لگائے جائیں گے۔ ایسے لٹریچرکے
بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ کیا اشتعال انگیز وال چاکنگ اس زمرے میں آئے گی
یا نہیں۔ ایسی کتابوں کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا گیا۔ قرآن پاک کا ترجمہ
کرتے ہوئے بھی ایسے الفاظ لکھے گئے ہیں جوہماری قومی زبان میں اﷲ پاک
اورنفوس قدسیہ کے ادب کے خلاف ہیں۔ جو الفاظ عربی میں آئے ہیں۔ ان پرتوبحث
نہیں ہوسکتی۔ عربی کے ہرلفظ کا ایک سے زیادہ الفاظ میں ترجمعہ کیا جاسکتا
ہے۔ اورہر جگہ ایک ہی معنیٰ نہیں لکھا جاسکتا۔ اب نمازاوردرود کے لیے عربی
میں ایک ہی لفظ استعمال ہواہے۔ اب قرآن پاک کا ترجمعہ کرتے وقت نماز کی جگہ
درودلکھ دیں اوردرودکی جگہ نمازلکھ دیں تو آیت کا مفہوم ہی بدل جائے
گا۔اورایمان اوراسلام بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ قرآن پاک کا ترجمعہ کرتے وقت
ایسے ایسے الفاظ لکھ دیے گئے ہیں وہ بھی اﷲ تعالیٰ کے لیے۔ اگر کوئی شخص یہ
کہے کہ میں گناہگارہوں میں خطاکارہوں میں یہ ہوں وہ ہوں وہ اپنی کسرنفسی سے
کام لے رہا ہو۔ تو کسی اورکواختیارنہیں ہے کہ فلاں شخص گناہ گارہے خطاکارہے۔
یہ ہے وہ ہے۔ جب کوئی انسان کسی اورانسان کے کہے ہوئے کچھ الفاظ اسی کے
بارے میں نہیں کہہ سکتا تو اﷲ پاک کے بارے میں ایسا کیسے کہا جاسکتاہے۔ میں
کوئی عالم دین یا مفتی نہیں ہوں تاہم مجھے مکمل یقین ہے کہ علماء کرام میری
باتوں کی تائید کریں گے۔ قرآن پاک کا ترجمعہ کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کے لیے
ایسے ایسے الفاظ لکھ دیے گئے ہیں جوانسان اپنے باپ، استاد، مرشداورلیڈرکے
بارے میں بھی نہیں کہے گا۔ کیا قرآن پاک کے ترجمعہ میں ایسے الفاظ توہین کے
زمرے میں آتے ہیں یانہیں۔ جنہوں نے ایسا ترجمعہ کیا ممکن ہے وہ اس دنیاسے
چلے گئے ہوں۔ تاہم ان کے ایسے تراجم کودرست تو کیا جاسکتاہے۔ جب ہم کوئی
عام فہم شخص ایساترجمعہ پڑھے گا تو وہ کیا محسوس کرے گا یا اس کا اﷲ کے
بارے میں کیا عقیدہ قائم ہوجائے گا۔ ایسے ترجمعہ کے عام فہم مسلمان پر کیا
اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس بات کا بھی جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ یہ اچھی بات
ہے کہ اشتعال انگیز تقریر نہیں کرنی چاہیے۔ کوئی فرقہ کسی دوسرے فرقہ کی دل
آزاری نہ کرے۔ تو کیاکسی دوسرے فرقہ کی مساجد میں جانا وہاں ڈیرے لگالینا ،
مساجداورمزارات پر قبضے کرنا، مزارات پر مخصوص جھنڈے لگادینا یہ بھی اشتعال
انگیزی ہے یا نہیں۔ فرقہ واریت کو روکنے کے لئے بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے۔
صرف لاؤڈسپیکر بند کردینے سے اس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جوضابطہ
اخلاق پر اتفاق ہوا ہے۔ یہ کسی مخصوص مکتب فکر کا ضابطہ اخلاق ہے یا تمام
مکاتب فکر کا متفقہ ہے۔ لکھا تو گیا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے درمیان متفقہ
طورپر ضابطہ اخلاق تیارکیا گیا ہے۔ جب کہ اخبارات میں مخصوص مکتب فکر کے
علماء کے نام شائع ہوئے ہیں۔ اگر یہ ضابطہ اخلاق متفقہ ہے تو دیگر مکاتب
فکر کے علماء کے نام شائع کیوں نہیں ہوئے۔ پھرایک ہی عالم کے نکات پر ہی
اتفاق ہوگیا۔ کیا کسی اورعالم دین نے اس بارے میں کوئی مشورہ یا تجویز نہیں
دی تھی۔ نہ تو اس اجلاس میں شامل تمام علماء کے نام لکھے گئے ہیں اورنہ ہی
یہ بتایا گیا ہے کہ اورکس کس نے اس بارے کیا کہا۔ اگر یہ ضابطہ اخلاق متفقہ
ہے تو پھر ایک ہی عالم دین کا نام کیوں؟ کیا یہ بھی فرقہ واریت نہیں تو کیا
ہے۔ فرقہ واریت ہم آہنگی تو تب ہوتی جب اس جلاس میں شامل تمام علماء کے نام
لکھے جاتے۔ اورجن علماء کرام نے اس سلسلہ تجاویز دیں ان کے نام خاص طورپر
لکھے جاتے۔ لاؤڈسپیکرز پر فرقہ وارانہ تقاریر کی وجہ سے اس پر پابندیاں
لگائی گئیں۔ لیکن اب دورگزرچکا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ ہمارے علماء کرام
اورمسالک میں نہ کوئی اختلاف تھا نہ ہے۔ اس کا کوئی ثبوت مانگے تو یہ ہے کہ
راولپنڈی سانحہ کے خلاف تما م علماء کرام اورتمام مسالک ایک نہ ہوجاتے۔سب
اس سانحہ کی مذمت نہ کرتے۔ یوم مذمت اپنے اپنے اندازاوراپنے اپنے عنوان سے
نہ مناتے۔ لاؤڈسپیکر پر پابندی کی مختصر تفصیل پڑھ کر حیرانی بھی ہوئی
اورنکات پیش کرنے والوں کے شعورکی داد دینے کو بھی جی چاہا۔ لکھا گیا ہے کہ
صرف عربی خطبہ اوراذان کے علاوہ لاؤڈسپیکر کے استعمال پرمکمل پابندی ہوگی۔
یہ بھی ان کی مجبوری ہے ورنہ یہ جمعہ کے عربی خطبہ اوراذان پر بھی پابندی
لگا دیتے۔ کیاایسا کرنے سے فرقہ واریت میں کمی آجائے گی۔اب تو لاؤڈسپیکر کا
استعمال وسیع ہوگیا ہے۔ اگر کوئی خطرہ ہے تو مولویوں کی تقریروں سے ہے ۔
پھر اس کے دیگر استعمال پر پابندی کیوں لگائی گئی۔ اشعال انگیز نعروں پر
بھی پابندی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سے اشتعال پھیلنے کا خدشہ پید اہوجاتا
ہے۔اس سے تو لاؤڈسپیکر کے اس استعمال پر بھی پابندی لگادی گئی ہے جس سے نہ
تو کوئی اشتعال پھیلتا ہے نہ ہی کسی فرقہ کی دل آزاری ہوتی ہے۔ اورایسے
استعمال پر بھی پابندی لگ گئی ہے جو سب کی ضرورت بھی ہے۔ اذان اورجمعہ کے
عربی خطبہ کے علاوہ لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی ہوگی۔ تو جہاں بھی
کوئی مسلمان فوت ہوجاتا ہے ۔ تو جہاں فوتگی ہوتی ہے ۔نزدیکی مسجدمیں اعلان
کیا جاتاہے کہ فلاں شخص فوت ہوگیا ہے نمازجنازہ کا اعلان بعدمیں کیا جائے
گا۔ اس کے بعد جنازہ کا وقت طے کرکے قریبی مساجد میں اعلان کرایا جاتاہے۔
لاؤڈسپیکرپر اذان اورعربی خطبہ کی ہی اجازت ہے تو فوتگی کا اعلان کرنے پر
بھی پابندی لگ گئی۔ اب خودسوچیں کہ اس فوتگی کے اعلان سے کس فرقہ کی دل
آزاری ہوتی ہے۔ کون سے مسلک کے خلاف نفرت پھیلتی ہے۔کس فرقہ یامسلک میں
اشتعال پھیلتا ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت کرنے، نعت شریف پڑھنے،
دعامانگنے،درودوسلام پڑھنے میں کون سی فرقہ واریت چھپی ہوئی ہے۔ قرآن پاک
میں کس فرقہ کے خلاف آیات ہیں جس سے اس کی دل آزاری ہوتی ہے۔ اورقرآن پاک
کی تلاوت پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ نمازجمعہ یا محافل میلادکے بعد صلوٰۃ
وسلام پڑھا جاتا ہے۔ اس میں کس فرقہ کے خلاف اشعارہیں جس سے اس میں اشتعال
پھیلتا ہے جو اس پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہ
وسلم کی نعت شریف پڑھنے میں کون سی فرقہ واریت ہے۔ جو اس پر بھی پابندی
لگائی گئی ہے۔ پہلے تو اب فرقہ وارانہ تقریر یا خطاب کوئی نہیں کرتا۔ اگر
کوئی جوش میں آکر ایسا کرتابھی ہے تو اس بات کی کیاگارنٹی ہے کہ سپیکر کے
بغیر ایسا نہیں کرے گا۔ سپیکر پر اشتعال پھیلتا ہے تو اس کی کیا ضمانت ہے
کہ سپیکر کے بغیر اشتعال نہیں پھیلے گا۔ مذہبی جلسوں میں صرف اسی مسلک یا
فرقہ کے لوگ ہی نہیں ہوتے جس کا یہ جلسہ ہوتا ہے اورمسالک اورفرقوں کی عوام
بھی آئی ہوئی ہوتی ہے۔ کسی فرقہ کے خلاف سپیکر کے بغیر تقریر کرنے سے جلسہ
میں بیٹھے ہوئے اسی فرقہ یا مسلک سے وابستہ افرادمیں اشتعال پھیل جائے تو
پھر کیاکیا جائے گا۔ ایک دوسرے کے خلاف تقریریں صرف مولوی ہی نہیں کرتے ۔
اوربھی بہت سی شخصیات کرتی ہیں۔ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جو ان مولویوں
کو ناپسند ہے اس پر پابندی کی سفارش کردی اورجو پسندیدہ تھا اس کو رہنے
دیاگیا۔ لاؤڈسپیکر پر صرف تقریر کرنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ قرآن پاک کی
تلاوت کرنے، نعت شریف اورصلوٰۃ وسلام پڑھنے، دعا مانگنے ، اعلان کرنے کی
اجازت ہونی چاہیے۔ ان باتوں پر پابندی لگانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ سپیکر
پرپابندی کے قانون میں بھی اس حوالے سے نظرثانی کی جائے ۔ جن امورکا ہم نے
لکھا ہے ان کی اجازت دی جائے۔ رمضان المبارک میں سحری کے لیے بیدارکرنا بھی
پابندی کی زدمیں آگیا۔ سحری کے لیے جگانے کی بھی اجازت دی جائے۔ جب سے
سپیکر پر پابندی لگی ہے۔ عوام کا رجحان مساجد کی طرف کم ہو گیا ہے۔ مساجد
میں وہ رونق نہیں رہی جو اس وقت ہوتی تھی جب سپیکروں پر پابندی نہیں تھی۔
آپ کہیں گے مولویوں کی وجہ سے عوام مساجد میں نہیں آتے۔ آج ہی سپیکر سے
پابندی اٹھا لیں پھر دیکھیں مساجد میں نمازیوں کا کتنا اضافہ ہوتا ہے۔
لاؤڈسپیکر پر سحری کے وقت جگانے کے لیے نعتیں پڑھنے سے جو خوبصورت
اورنورانی ماحول بنتا تھا وہ سپیکر پرپابندی سے ختم ہوگیا ہے۔ فضا میں جہاں
جہاں تک نعت شریف کی آوازجاتی تھی وہاں وہاں تک فضا اﷲ پاک کی رحمت سے مزین
ہوجاتی تھی۔یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم نے کسی فرقہ یا مسلک کے خلاف نہیں لکھا
اورنہ ہی کسی کی دل آزاری کی ہے ۔ اگر مثبت سوچ کے ساتھ ہماری تحریر ارباب
اقتداراورعلماء نے پڑھ لی تو سب میری باتوں سے اتفاق کریں گے ۔ |