صعصعہ بن معاویہ مشہور شاعر فرزوق کے چچا تھے وہ
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے۔آپؐ نے ان کو سورۂ زلزال سنائی۔یہاں تک
کہ آپؐ اس آیت پر پہنچے:۔(فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ
شرایرہ،جس نے ایک ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا جس نے ایک ذرہ
برابر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا)حضرت صعصعہؓ نے اس کو سن کر کہا:اس
کے بعد میں کچھ اور نہ سنوں تب بھی یہ میرے لئے کافی ہے۔(رواہ الامام احمد)
پیارے نبی ؐ کا طریقہ تھا کہ نئے اسلام لانیوالوں کو کسی صحابی کے سپرد
کردیتے تا کہ وہ دین کی باتیں سکھادیں۔اسی طرح ایک صحابی کو آپؐ نے حضرت
علیؓ کے سپرد کیا تھا۔وہ چند دن آئے اوراس کے بعد ان کا آنا بند ہوگیا۔رسول
اﷲؐ نے جب کئی دن تک ان کو مسجد میں نماز میں نہ دیکھا تو آپؐ نے حضرت علیؓ
سے ان کے بارے میں دریافت کیا جن کے سپرد ان کی تعلیم ہوئی تھی۔انہوں نے
کہا کہ کئی دن سے وہ میرے پاس بھی نہیں آئے ہیں۔آپؐ نے لوگوں سے کہا کہ ان
کا پتہ کرکے بتائیں۔آخر ایک روز ایک شخص کی ان سے ملاقات ہوگئی،وہ لکڑی کا
گٹھا سر پر رکھ کر اس کو بیچنے کے لئے بازار جارہے تھے،انہوں نے ان سے کہا
کہ رسول اﷲ ؐ تمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے چل کر ملاقات کرلو۔وہ تیزی سے
بازار گئے اور لکڑی کا گٹھا کسی کے ہاتھ بیچ کر آپ کی خدمت میں حاضر
ہوئے۔’’آپؐنے کہا کہ تم کئی روز سے ادھر نہیں آئے‘‘؟انہوں نے’’میں اس لئے
نہیں آیا کہ میں نے سمجھا میری تعلیم مکمل ہوگئی‘‘۔آپؐ نے فرمایا’’ابھی تو
چند ہی دن گزرے تھے پھر تمہاری تعلیم پوری کیسے ہوگئی؟‘‘۔
انہوں نے کہا’’میرے سامنے قرآن کی یہ آیت آئی(فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ
ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ،جس نے ایک ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ
لے گا جس نے ایک ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا)اس آیت کے
جاننے کے بعداب میرا یہ حال ہو گیا ہے کہ جب بھی کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو
یہ خیال آجاتا ہے کہ قیامت میں اس کا انجام کس سورت سے سامنے آئے گااگر دل
کہتا ہے کہ وہ اچھا کام ہے اور اس کا انجام اچھی صورت میں آئے گاتو اس کو
کرتا ہوں اور اگر اس اعتبار سے کھٹک پیدا ہوتی ہے تو رک جاتا ہوں،پھروہ کام
مجھ سے نہیں ہوتا۔پیارے آقاؐ نے یہ سن کر فرمایا’’پھر تو تمہارے لئے کافی
ہے‘‘۔
ایک عیش پرست نوجوان تھا۔باپ سلطنت خراسان کے حاکم تھے۔موج مستی کے سارے
سامان مہیا تھے۔رقص وسرور میں شب و روز گذر رہے تھے۔ایک دن کان سے ایک آواز
ٹکرائی،اے نوجوان!تو شراب و کباب کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا ہے۔کیا تونے
قرآن پاک کی یہ آیت نہیں سنی(افحسبتم انما خلقنا کم عبثا وانکم الینا لا
ترجعون)’’کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے یونہی تمہیں پیدا کیاہے
اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے‘‘اے نوجوان!اپنے رب سے ڈر اور قبر میں
رہنے کے لئے توشہ تیار کرلے۔اس وقت وہ آواز اس کے لئے زندگی کا رخ بدل دینے
والی ثابت ہوئی،اس نے فوراََ توبہ کی،دنیا کی محبت کو دل سے نکال دیا اوراﷲ
کا نیک اور عبات گذار بندہ بن گیا۔آج دنیا اس نوجوان کو حضرت ابراہیم بن
ادہمؒ کے نام سے جانتی ہے۔ان کی کوششوں اور دینداری سے متاثر ہوکر بے شمار
گنہ گاروں نے توبہ کی اور نیک بننے کا عہد کیا۔
ایک نوجوان اپنی جوانی میں ہی بہت بڑا ڈاکو بن گیا تھا۔لوگوں کے دلوں میں
اس کا خوف تھا۔لوٹ مار اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ایک شب وہ چوری کے ارادے سے
نکلا اور صحن میں کود گیا،یکایک اس کے کانوں میں ایک آواز پڑی،رات کے سناٹے
میں کوئی قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا(الم یان للذ ین آمنوا ان تخشع
قلوبہم لذکر اﷲ)’’کیا ایمان والوں کے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اﷲ
کی یاد سے جھک پڑیں‘‘اس آیت ِ مبارکہ کو سننا تھا کہ نوجوان ڈاکو کے دل کی
دنیاہی بدل گئی۔وہ بے اختیارونے لگا،اس کی زبان لرز لرز کر کہہ رہی تھی
میرے رب وہ وقت آگیا،میرے مولیٰ وہ وقت آگیا۔فوراََ مسجد کا رخ کیا اور
پچھلے سارے گناہوں سے توبہ کی اور لوگوں کی اصلاح کے لئے خودکو وقف
کردیا۔آج دنیا انہیں حضرت فضیل بن عیاضؒ کے نام سے جانتی ہے۔بہت سارے بجھے
ہوئے چراغوں کو انہوں نے روشنی دی۔تقویٰ اور ﷲیت کے لئے وہ نمونۂ وقت تھے۔
ایک چھبیلا نوجوان تھا،اسے شراب کی لت لگی ہوئی تھی۔آوارہ لڑکوں کے ساتھ
گھوما کرتا تھا۔ایک دن گھر کے دروازے پر بیٹھا اپنے آوارہ دوستوں کا انتظار
کر رہا تھا کہ سامنے سے ایک بزرگ کا گزر ہوا۔چال پروقار تھی،پیچھے عقیدت
مندوں کا ایک گروہ تھا۔اس نے ازراہ ِ تمسخر پوچھا یہ کون ہیں؟کسی نے کہا یہ
شعبہ ہیں۔پھر پوچھا شعبہ کون؟جواب ملا شعبہ بن حجاج۔وقت کے بڑے محدث۔وہ
نوجوان اٹھا اور بزرگ کے پاس گیا اور حقارت آمیز انداز سے کہا حدیث
سناؤ!انہوں نے کہا’’تم حدیث سننے والوں میں سے نہیں لگ رہے ہو۔‘‘اس نے خنجر
نکال لیا اور لہراتے ہوئے کہا:سناؤ!ورنہ میں یہ گھونپ دونگا۔انہوں نے
کہا:ہمیں منصور نے ربعی کے حوالہ سے بتایا،ربعی کو عبد اﷲ بن مسعودؓ کے
حوالے سے معلوم ہوا کہ رسول اﷲ ؐ نے فرمایا:’’اگر تمہارے اندر شرم نہ ہو،تو
جو چاہو سو کرو۔‘‘حدیث اس نوجوان کے دل میں اتر تی چلی گئی۔برسوں پرانے
گناہ یاد آنے لگے۔خنجر پھینکا اور الٹے پاؤں گھر لوٹ گیا۔وہاں شراب کی ساری
صراحیاں توڑ ڈالیں۔ماں سے مدینہ منورہ جانے کی اجازت لی،رخت ِ سفر باندھا
اور امام مالک کے حلقۂ درس میں جاکر شامل ہوگئے۔دنیا انہیں امام قعنبی کے
نام سے جانتی ہے۔وقت کے بڑے عظیم محدث تھے۔یہ روشن تاریخ کے چندسبق آموز
واقعات ہیں۔اگر دل میں تبدیلی کے امکانات ہوں تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں
پڑتا کہ ظاہری و باطنی بگاڑ کتنا زیادہ ہے۔ ظاہری و باطنی بگاڑ بہت زیادہ
ہوتو بھی ذرا سی کوشش اور چھوٹا سا جملہ دل کی دنیا بدل کر رکھ دیتا
ہے۔ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم کسی کی ہدایت یابی کا ذریعہ بن
جائیں۔ہدایت تو اﷲ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ |