تحریر: علی عمران شاہین
حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ کے پوتے ثبت بن عامر نے رب کے حضور دعا کی:
’’اے اﷲ! میں تجھ سے اچھی موت کا سوال کرتا ہوں‘‘۔آپ کے صاحبزادوں نے پوچھا،
اچھی موت سے کیا مراد ہے؟
آپ نے فرمایا: ’’سجدہ کی حالت میں موت کا واقعہ ہونا اچھی موت ہے‘‘۔ پھر آپؒ
کا اس جہاں سے رخصت ہونے کا وقت آیا تو ساتھ ہی آپؒ کو اذان مغرب کی آواز
سنائی دی۔ اس پر آپؒ نے فرمایا کہ مجھے مسجد اٹھا کر لے چلو۔ بچوں نے عرض
کیا کہ آپ معذور ہیں، مسجد جانا ضروری تو نہیں…… آپ نے فرمایا کہ میں حی
علی الصلاۃ، حی علی الفلاح کی آواز سن رہا ہوں، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میں
مسجد نہ پہنچوں۔یہ نہیں ہو سکتا۔اس پر آپ کے صاحبزادے آپ کو اسی حالت میں
اٹھا کر مسجد لے گئے۔ آپ نے وہاں بیٹھ کر نماز ادا کی، آخری سجدے میں تھے
کہ موت کے فرشتے نے روح کھینچ لی۔
اسلام کو سچے دل سے ماننے والے مسلمان کا تعلق مسجد سے واقعی اس قدر گہرا
ہوتا ہے کہ اسے کہیں اور ایسا چین نہیں آتا، جیسا مسجد میں آتا ہے کیونکہ
اسے پتہ ہوتا ہے کہ جس شخص کا دل مسجد میں لگا رہے، اسے قیامت والے دن اﷲ
کے عرش کا سایہ بھی نصیب ہو گا۔
یہ اسلام کا ہی اعجاز ہے کہ ان کی عبادت گاہ، یعنی مسجد ہمیشہ آباد ہوتی ہے
اور اس قدر آباد ہوتی ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والے اس پر حیران اور
پریشان ہو جاتے ہیں کہ مسلمانوں کو دن میں پانچ بار مسجد جانے کا حکم ہے
پھر بھی ان میں سے ایک بڑی تعداد سب کچھ چھوڑ کر مسجد چلی جاتی ہے۔ یہی
مسجد بنانے والے کیلئے جنت میں اﷲ کی طرف سے اس کے لئے گھر بنائے جانے کی
خوشخبری ہے تو ذرا سوچیے کہ مساجد گرانے والوں کو اﷲ کس حال سے دوچار کرے
گا؟
چند روز پہلے جب یہ خبر سنی کہ براعظم افریقہ کے ملک انگولا میں اسلام کو
خلاف قانون مذہب قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر کے حکومت نے مساجد کو
گرانا شروع کر دیا ہے اور جو بھی مسلمان اسلامی شعائر پر عمل کرتا یا اپنے
آپ کو مسلمان ظاہر کرتا نظر آئے گا اسے وہاں گرفتار کر لیا جائے تو دل جیسے
بیٹھ گیا کہ اس قدر کھلی سفاکیت اور دہشت گردی پر ساری دنیا میں خاموشی……
ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ لاہور میں جوزف کالونی مبینہ طور پر ایک غیر
قانونی عیسائی بستی تھی، پرپراسرار حملہ ہوا تھا۔ حملے کی حیران کن بات یہ
تھی کہ اس میں کسی ایک عیسائی کو معمولی خراش تک نہ آئی تھی اور صرف اور
صرف ان کی املاک کو معمولی نقصان پہنچا تھا۔ پھر کیا تھا؟ ساری دنیا ڈنڈے
لے کر پاکستان پر چڑھ دوڑی تھی۔ کتنے مسلمان گرفتار ہوئے جو آج بھی جیلوں
میں پڑے ہوئے ہیں، ان پر سنگین مقدمات درج ہیں۔ عیسائیوں نے پورے ملک میں
اودھم مچا کر بڑے پیمانے پر املاک کو تباہ کیا تھا لیکن ان میں سے کوئی ایک
گرفتار نہ ہوا۔ اس کے بعد اس غیر قانونی جوزف کالونی کو نہ صرف مکمل قانونی
حقوق دے دیئے گئے بلکہ ان کے گھر حکومت نے خود تعمیر کئے۔ صوبے کے علاوہ
وفاق سے صدر نے بھی فی گھر پانچ لاکھ امداد دی۔میڈیا اطلاعات کے مطابق یہ
رقم گھر کے کئی کئی لوگوں نے وصول کر کے کئی کئی ملین کما لئے۔ ہمارے ملک
کی سیاسی ہی نہیں دینی قیادت بھی اس قدر بے بس نظر آئی کہ سبھی مذمت کرتے،
اظہار ہمدردی کرنے پر مجبور نظر آئے لیکن انگولا کی اس کھلی دہشت گردی پر
سبھی سیاسی تو کیا مذہبی رہنماوؤ ں کی زبانیں بھی گنگ، آنکھیں بند ہیں۔
جمہوریہ انگولا وسطی افریقہ کے جنوبی حصہ میں واقع نو آزاد ملک ہے جو
سولہویں صدی سے 11 نومبر 975ء تک پرتگال کی نو آبادی رہا ہے۔ آزادی کے بعد
سے خونریز خانہ جنگی ہوتی رہی اور پھر 2006ء میں مختلف چھاپہ مار گروپوں کے
درمیان امن کا معاہدہ طے پایا۔ جس سے کچھ امن قائم ہوا۔
انگولا رقبے کے لحاظ سے (1256700) مربع کلو میٹرپر محیط ہے جس کا
دارالحکومت لوانڈا (Luanda) ہے۔ ملک کی سرکاری زبان پرتگیز (Portuguess) ہے
۔اس کے ساتھ دیگر قبائلی اور مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یہاں کے 95 فیصد
لوگ عیسائی ہیں۔ عیسائیت مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی ہے لیکن باقی دنیا سے
ہٹ کر یہاں سینکڑوں عیسائی گروہ پائے جاتے ہیں۔البتہ آدھے سے زائد رومن
کیتھولک ہیں۔ یہاں کی آبادی کم و بیش 18ملین ہے اور ان میں لگ بھگ تین فیصد
مسلمان ہیں۔
ساری دنیا کی طرح حالیہ عرصہ میں انگولا میں بھی اسلامی سرگرمیوں میں اضافہ
ہوا۔ مختلف بڑے شہروں میں مساجد قائم ہوئیں۔ اسلامی مدارس کی بنیادیں ڈالی
گئیں۔ عربی، قرآن اور اسلام کی تعلیمات عام ہونے لگیں لیکن اکثریتی عیسائی
ملک ہونے کے باعث یہاں اسلام کی طرف عموماً منفی رجحان ہی محسوس کیا گیا۔
چونکہ انگولا میں زیادہ تر مسلمان دیگر علاقوں سے یہاں آ بسے ہیں اس لئے
تہذیب و کلچر کے اختلاف نے اسلام سے متعلق بدگمانی کو فروغ دینے میں بنیادی
رول ادا کیا ہے۔ اکتوبر2013ء کے اوائل میں Vain Zango شہر میں واقع جامع
مسجد کو سب سے پہلے منہدم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی دارالحکومت لونڈا کے
گورنر نے ریڈیو پر اعلان جاری کیا کہ انگولا میں مسلم ’’انتہا پسندوں‘‘ کی
جگہ نہیں اور یہ کہ انہیں مساجد کی قانونی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے
الفاظ تھے:
Radical Muslims are not welcome in Angola and the angola government is
not ready for the lagalization of mosques in Angola
19 نومبر 2013ء کو وزیر مذہبی امور و انسانی حقوق رس، گروزی سلوا نے مساجد
کو بند کر دینے کا اعلان کیا، اس کا کہنا تھا:
The process of legaliztion of Islam has not been approved by the
minsitry of justice and human rights Thier mosques would the closed
until further notice
اس کے ساتھ ملک کے صدر جوس ایڈرڈو ڈوس سانٹوس نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ
یہ ان کے ملک میں اسلام کے حوالے سے آخری فیصلہ ہے جس میں تبدیلی نہیں ہو
گی۔ اس سے قبل گزشتہ سال اکتوبر میں دارالحکومت لوانڈا میں ایک مسجد کو
گرایا گیا تھا تو اس وقت وہاں کے میئر نے کہا تھا کہ انگولا میں بنیاد پرست
اسلام کو داخل نہیں ہونے دیں گے اور حکومت مساجد کی منظوری نہیں دے گی۔
مسلمانوں کوئی قانونی حیثیت نہیں دی جا سکتی اور مساجد کو قبول نہیں کیا
جائے گا۔
اس سے آگے بڑھ کر اب حکومت نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ان کے ہاں صرف اس
مذہب اور فرقے پر عمل کی اجازت ہے کہ جسے انہوں نے قانونی طور پر اجازت دے
رکھی ہے، باقی کسی کو نہیں۔ اب صاف کہا ہے کہ اسلام ان مذاہب میں شامل نہیں
ہے کہ جس پر ان کے ملک میں عمل کرنے کی اجازت ہو۔ مسلمانوں کی 8تنظیموں پر
پابندی عائد کرتے ہوئے ساتھ ہی کہا گیا کہ عام مساجد چونکہ غیر قانونی ہیں،
اس لئے ان سب کو بند کیا جا رہا ہے۔ یہ وضاحت بھی انگولا کی حکومت نے اس
وقت جاری کی جب انگولا کی مسلم تنظیموں نے کھلی سرکاری دہشت گردی پر شور
مچایا اور پھردنیا میں چند لوگوں خاص طور پر فلسطینی مسلمانوں نے اس پر
احتجاج کیا تو انگولا کی حکومت نے صرف اتنا بیان دے کر ساری دنیا کو خاموش
کر دیا۔
آج کتنے دن گزر چکے ہیں، ہر طرف موت کی سی خاموشی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
انگولا کو اس قدر جرات آخر کیوں ہوئی؟ اس کی وجہ صرف اور صرف ایک ہی ہے اور
وہ یہ کہ انگولا اور اس جیسی دنیا بھرکی وہ تمام حکومتیں جو مسلمانوں پر
ظلم ڈھاتی، ان کا قتل عام کر رہی ہیں۔ مسلمانوں کی عزتیں لوٹتی ہیں اور
مساجد گراتی ہیں، انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو بھی
بیت جائے، دنیا میں کہیں سے بھی معمولی جنبش تک نہیں ہوتی۔ کوئی مسلم
حکمران، کوئی ملک یا ان کی نام نہاد تنظیمیں اور ادارے کبھی کوئی بات نہیں
کریں گے، اس لئے انہیں کبھی کسی بات کی پرواہ نہیں ہوتی۔
آخر یہ ساری قوتیں اسلام، مسلمانوں اور خصوصاً مساجد کی کیوں دشمن ہیں؟ اس
کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ان کے اپنے مذاہب کے مراکز ویران ہو کر بڑے
پیمانے پر نیلامی تک پہنچ گئے ہیں۔ عیسائی ملکوں میں آج نئے چرچ اور گرجے
نہ ہونے کے برابر تعمیر ہوتے ہیں۔ معمولی معمولی بات پر چرچوں کی نیلامی
عام ہے اور پادریوں کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے بھی عیسائی دنیا تیزی سے
اپنے دین سے ہٹ رہی ہے۔ برطانیہ جو عیسائیت کا ایک بڑا مرکز ہے، وہاں آج
بھی درجنوں چرچوں کے باہر نیلام عام کے بورڈ لگے ہوئے ہیں مسلمانوں نے بے
شمار چرچ برطانیہ اور امریکہ سمیت ان ملکوں میں خرید کر مساجد میں تبدیل کر
رکھے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
عیسائیت کے ماننے والے اس بات کے دعویدار ہیں کہ ان کی تعداد مذاہب کے
ماننے والوں کی آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ
عیسائی کہلانے والے آج محض دو فیصد کے لگ بھگ چرچ میں جاتے یا خود کو مذہبی
مانتے ہیں، باقی سبھی عیسائی لوگ اپنے دین سے مکمل باغی ہو کر یا تو بے دین
ہو چکے ہیں یا پھر اسلام کی آغوش میں پناہ لے چکے ہیں۔ یہی وہ اصل بغض ہے
جو ان متعصب عیسائیوں کو چین کا سانس نہیں لینے دیتا۔ انہیں ان کے اپنے لوگ
کہہ رہے ہیں کہ 2050ء تک یورپ میں اسلام غالب آ کر اسے یوریبیا میں تبدیل
کر دے گا۔
انگولا نے اسلام کو خلاف قانون مذہب قرار دے کر اور مساجد کو گرا کر ایک
نئی جنگ کا آغاز اس لئے کیا ہے کہ انہیں اپنی عیسائیت مٹتی نظر آ رہی ہے
لیکن کیا وہ اس طرح اپنے مٹتے ہوئے مذہب کو بچا کر اسلام کو مغلوب کر سکیں
گے؟ انہیں تاریخ کا مطالعہ کر کے ضرور درست فیصلہ کرنا ہے اور مسلمانوں کو
بھی فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ کب تک اسی طرح تماشا بن کر دنیا میں ذلت کا
نشان بنتے رہیں گے۔ |