موجودہ دور میں دنیا گلوبل ویلیج اختیار کر گئی ہے ۔ جدید
ذرائع ابلاغ سب کو میسر ہیں۔ انسان بہت آسانی سے انٹرنیٹ کے ذریعہ گھر
بیٹھے تمام موضوعات پر معلومات حاصل کرسکتا ہے ۔ اسی وجہ سے اب کتابیں
اوررسائل و جرائد کی اشاعت آسان ہو گئی ہے ۔جن کے ذریعہ مصنفین و محققین
مسلمانوں کی مذہبی، معاشی، سماجی، تعلیمی،اقتصادی اور سیاسی حالت میں بہتری
کے لیے اپنے خیالات کا اظہار کر تے ہیں۔
لیکن کیا وجہ ہے کہ ان سب کے باوجود امتِ مسلمہ دوسری قوموں سے بچھڑتی چلی
جا رہی ہے؟؟بات یہ ہے کہ کمی ہم سب کے اندر ہے۔ سب لوگ اپنی ذات میں مگن
ہیں۔ اسی کو بت بنا کر اس کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں اور باہر نکلنے کی
کوشش ہی نہیں کرتے ۔خود کو ہر چیز سے بری الذمہ سمجھتے ہیں اور دوسروں کو
اس کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں۔ ہر شخص دوسروں کی آنکھ کاتنکا تو دیکھ لیتا ہے
مگر اسے اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔
ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ آرام کرے اور باقی مسلمان کام کریں۔ خود شریعت کے
احکام کی پامالی کرے، بخل سے کام لے، تفریح کرے اور تمام طرح کے عیش و عشرت
کے سازوسامان سے لطف اندوز ہو لیکن باقی سب مسلمان جہاد کریں، انفاق
کریں،دین کی تبلیغ و اشاعت کریں ، قربانیاں دیںاور خاص کر علمائے کرام یا
مولوی حضرات فقیرانہ زندگی گزاریں۔ اسی طرح سے موذن ، امام ، مکتب اور
مدارس میں پڑھانے والوں کو نہ تو دنیا سے کوئی غرض ہونی چاہیے اور نہ ہی
زندگی کے تعیشِ سامان سے۔دنیا پر تو بس انہیں کا حق ہے۔
ہمارے نزدیک سب سے سستی چیز وقت، سب سے مشکل اور بھاری چیز کام ہے۔تجاویز
پاس تو کرتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا، باتیں اچھی بنانے اور لکھنے میں
ماہر ہیں لیکن اچھا کام کرنے میں جان جاتی ہے۔ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم
خود باتیں بناتے ہیں اور دوسروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ کام انجام دیں گے۔
بات ضروری ہے لیکن اگر عمل سے زیادہ ہو تو مذمت کے قابل بن جاتی ہے اور اگر
سرے سے عمل ہی نہ ہو تو انتہائی قابلِ مذمت ہے اور اگر قول و عمل میں تضاد
ہو جائے تب تو اللہ تعالی کے غضب کا مستحق ہو جاتی ہے۔ارشادِ ربانی ہے:
یا ایھا الذین آمنوا لما تقولون ما لا تفعلون۔ کبر مقتاً عند اللہ ان
تقولوا ما لا تفعلون (الصف :۲،۳)
” ائے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟
اللہ تعالی کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے
نہیں“
یہی قول و عمل میں تضاد آج ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور یہ ہر میدان
میں پایا جا رہا ہے ۔اس وقت امت کی رہنمائی تین بڑے اسٹیج سے کی جا رہی ہے
۔
(۱) زبانی دین کی اشاعت و تبلیغ: اس میںمختلف موضوعات پر تقاریر، خطبے،
جلسے اور کانفرنس وغیرہ شامل ہیں،جن کا استعمال امت کی اصلاح کے لیے کیا جا
رہا ہے لیکن امیدکے مطابق نتائج نہیں حاصل ہو رہے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ
آج کی دنیا بیوقوف نہیں ہے۔ سب کی آنکھوں میں ’خوردبین‘ فٹ ہے اور دیکھتے
ہیں کہ کہنے والے کا خود کیا عمل ہے؟ویسے بھی یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ
ہمیشہ ’آﺅٹ پٹ‘ چاہتا ہے۔نبیِ کریمﷺ اور خود صحابہ کرام کا بھی یہی اسوہ
رہا ہے کہ پہلے عمل کرتے تھے پھر دوسروں کو اس کی تلقین کرتے تھے تو اس کا
اثر ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے اس وقت ایمان لانے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی
تھی جنہوں نے مسلمانوں کے بلند کردار سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا تھا ۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ جب آپ لوگوں کو کسی کام سے باز
رہنے کا حکم دیتے تو اپنے گھر والوں کے پاس آتے اور فرماتے کہ مجھے کسی کے
بارے میں معلوم ہوا کہ وہ بھی اس کام کا مرتکب ہوا ہے تواسے دوہری سزا دوں
گا ۔ کیوں کہ ان کو یہ بات سخت نا پسند تھی کہ وہ یا ان کے اہلِ خانہ بھی
وہی کام کرتے نظر آئیں ۔وجہ یہ تھی کہ وہ ’لما تقولون ما لا تفعلون‘ کے
مصداق نہیں بننا چاہتے تھے۔
معلوم ہوا کہ خود کبھی تہجد پڑھی نہیں اور اس کے فضائل پر تقریر کی جا رہی
ہے ، شادی کی تمام رسمیں گھر میں انجام دی جا رہی ہے اور جہیز یا دوسری
رسموں پروعظ و نصیحت کی جا رہی ہے ، خود فلمیں دیکھ رہے ہیں اور دوسروں کو
اس کے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے ،گھر کی لڑکیاں بے حجاب یا تنگ ٹائٹ کپڑے
پہن رہی ہیں اور پردے یا اسلامی لباس پرخطاب کیاجارہا ہے۔
حضرت عمرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے ’سورة البقرة ‘۰۰۱ سے زائد دن
میں سیکھی تھی۔جب کہ ان کی مادری زبان عربی ہی تھی تو کیا وہ آج کی طرح
’صرفی و نحوی ترکیبیں‘ سیکھ رہے تھے،جو اتنا وقت لگا؟ ہر گز نہیں، وہ اپنی
زندگی کو اس کے مطابق ڈھال رہے تھے۔اسی طرح اصحابِ صفہ کے بارے میں آتا ہے
کہ وہ لوگ روز دس آیات سیکھتے، اس پر عمل کرتے تب آگے بڑھتے۔
(۲)پرنٹ میڈیا: اس میںاردو، انگلش اور ہندی زبان میں نکلنے والے مختلف
اخبارات، رسائل و جرائداور کتابیں وغیرہ شامل ہیں۔اردو والوں کی مشکل یہ ہے
کہ ان کا دائرہ بہت محدود ہے کیوں کہ سب پر کوئی نہ کوئی’ مسلکی چھاپ‘ لگی
ہوئی ہے اور ان کا’ معیار‘ بہت بلند ہوتا ہے ۔یہ ایسا ہی ہے کہ ایک عالم
دوسرے عالم کو دین کی باتیں بتائے۔اسی وجہ سے عام طبقہ استفادے سے محروم
رہتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اگرچہ موجودہ دور میں دینی و اصلاحی مضامین کی بھرمار ہے
اور اس کام میں خاص و عام سبھی ملوث ہیں۔ ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ عمل ہو
یا نہ ہو مگر ہر موضوع پر لکھنا ضروری ہے۔جس لحاظ سے لکھا جا رہا ہے، اس سے
تو اب تک بہت حد تک حالات بدل جانے چاہیے تھے۔ان سب کا اثر کیوں نہیں ہوتا؟
وجہ وہی ہے کہ وہ خود عمل نہیں کرتے ہیں اور نیت میں خلوص نہیں ہے۔
اگر کہا جائے کہ جب ان باتوں پر عمل نہیں ہے تو لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو
حلق سے ’اعوذو تسمیہ‘ کے بعد جواب ملے گاکہ ’وما علینا الا البلاغ‘پھر
فرمایا جائے گا کہ ایسے تو لوگوں کی اصلاح ہی نہ ہو سکے گی۔ارے بھائی تو مت
لکھو۔ اگر نہ لکھا جائے تو کون سی قیامت آجائے گی؟ اگر لکھنے اور خود کو
اخباروں رسالوں میں چھپوانے کا اتنا ہی شوق ہے تو کم از کم اتنا ہی لکھو جس
پر عمل ہے۔یاد رہے کہ اس پر سخت عذاب ہے ۔ارشادِ نبوی ہے:
آپﷺ نے فرمایا ! قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور اس کو جہنم میں
پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں نکل پڑیں گی اور وہ ان انتڑیوں کے
گرد اس طرح سے گھومے گا جیسے چکی کا گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے ۔جہنمی اس
کے گرد جمع ہو جائیں گے اور پوچھیں گے اے فلاں ! تم کو کیا ہوا ؟ تم تو
اچھی باتوں کا حکم دیتے تھے اور بری باتوں سے روکتے تھے ؟وہ جواب دے گا کہ
ہاں میںاچھی باتوں کا حکم دیتا تھا مگر اس پر خود عمل نہیں کرتا تھا اور
بری باتوں سے روکتا تھا ،مگر خود اس میں مبتلا تھا ۔(صحیح بخاری:۸۹۰۷)
ہم لوگ جمعہ اور دیگر دینی مجالس کا اہتمام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دین
کا حق ادا کردیا لیکن اس کے حدود کی پابندی نہیں کرتے ۔ جو چیز پسند آتی یا
من موافق ہوتی اس کو لے لیتے ہیں اور بقیہ چھوڑ دیتے ہیں ۔ ہماری حالت یہاں
تک پہنچ گئی ہے کہ فیس بک پر قرآن کی آیات اور شرعی احکام کو رسماً اپ لوڈ
کرتے ہیں اور پھر’ آمین، ماشاءاللہ، انشاءاللہ، ویری نائس اور لائک کرنے
کا‘ ایک سلسلہ چل پڑتا ہے ۔بعض دفعہ ایسے بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اوپر
قرآن وحدیث ہے اور اس کے نیچے’ ایشوریہ رائے‘ کی فوٹو اپ لوڈ ہے ۔
کسی امت کا سب سے برا حال یہی ہو سکتا ہے کہ اس میں دین لہو و لعب کی چیز
ہو جائے اور اسی کو دین مان لیا جائے۔اسی پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
یا ایھا الذین آمنوا لا تتخذوا الذین اتخذوا دینکم ھزوا و لعبا من الذین
اوتوا الکتب من قبلکم و الکفار اولیاءو اتقوا اللہ ان کنتم
مومنین(المائدة:۷۵)
”ائے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے پیشِ رو اہلِ کتاب میں سے جن لوگوں
نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، انہیں اور دوسرے
کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناﺅ۔اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو“
(۳)مختلف ملی جماعتیں اور تنظیمیں: ہندوستان میں مسلمانوں کی مختلف تنظیمیں
،جماعتیں علاقائی اور ملکی سطح پر کام کر رہی ہیںلیکن کسی بھی تنظیم یا
جماعت کو اپنے مقصد میں کامیابی اسی وقت ملتی ہے جب اس کے ذمہ داران، جماعت
کے دستور اور اغراض و مقاصد کو قولی یا تحریری شکل میں پیش کرنے کے بجائے
اس کا عملی نمونہ پیش کریں ۔خاص کر ان لوگوں کا رویہ اپنے کارکنان کے ساتھ
کیسا ہے اور وہ کس حد تک عملی طور پر ان کو نہ صرف ساتھ لے کر چل رہے ہیں
بلکہ ان کے ان کے دکھ درد میں بھی شریک ہو رہے ہیں، تب کارکنان میں جماعت
کے لیے کچھ کرنے اور قربانی دینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور جماعت اپنے مقصد
میں کامیاب ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر منبر پر کھڑے ہوکر فرمایا جائے گا کہ غریبوں کے ساتھ اچھا
سلوک کرنا چاہیے اور ان کو دعوتوں یا افطار میں بلانا چاہیے لیکن عملی طور
پر اس کا نمونہ پیش کرنے سے قاصر ہیں تو آپ لاکھ حدیثیںاس پر ان کے سامنے
پیش کرتے رہیے مگر وہ کبھی نہیں متاثر ہو سکیں گے۔
’عملی نمونہ‘ اسلام کی دعوت دینے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔وہ علماءیا قائدین
جو عالی شان مکانوں میں رہتے ہوں، جنہوں نے غریبی کا منہ نہ دیکھا ہو
اورکولر یا ایر کنڈیشن لگے آفس میں بیٹھے دین کی تبلیغ و اشاعت کر رہے ہوں
وہ سمجھتے ہیں کہ’ اسلام کی دعوت،صبر ، قربانی اور ایثار وغیرہ‘ پر کتابیں
یا لمبے مضامین لکھ کر دوسروں کو اسلام کا سبق پڑھا دیں گے؟؟ ربِ کعبہ کی
قسم ایسا ممکن نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ اگرکسی تنظیم کے سارے ’اصول وضوابط‘ کارکنان یا ملازمین کے
لیے ہو اور خود ذمہ دار حضرات اس سے مبرا ہوں تو یہ نہ صرف گناہِ عظیم ہے
بلکہ اس سے جماعت کا کام بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیتوں میں
خلوص ہونا لازمی ہے اور اخلاص کی نمایاں علامت انکارِ ذات ہے۔اسی وجہ سے
امام شافعیؒ نے اپنی تصنیفات و تالیفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ
میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا یہ علم لوگوں میں میری طرف منسوب ہوئے بغیر
پھیلے۔
اخلاص کے لیے ضروری ہے کہ انسان نام و نمود اور نمائش سے دور رہے۔روم میں
ایک قلعہ کو فتح کرنے میں ایک مسلمان نے غیر معمولی کردار اد اکیاتو لشکر
کے سپہ سالار مسلمہ بن عبدالملک نے ان کو دیکھنے کے لیے اپنے پاس بلایا
لیکن انہوں انکار کردیا۔ بہت اصرار کرنے پر اس شرط پرسامنے آئے کہ آپ امیر
المومنین تک میرا نام نہیں پہنچائیں گے،انعام دینے کے لیے نہیں کہیں گے اور
آپ مجھے خصوصی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔مسلمہ ؓ تیار ہو گئے اور دعا کی ائے
اللہ قیامت کے دن مجھے اس شخص کے ساتھ اٹھانا۔ ادھر جماعت یا تنظیم کے
لوگوں کا حال یہ ہے کہ غریبوں کو کپڑے،کمبل،غلے کی کِٹ بھی دیں گے تو
باقاعدہ مسکراتے ہوئے فوٹو کھچوانے اور اخباروں میں چھپوانے کو لازمی
سمجھتے ہیں۔(الا ماشاءاللہ)
ایک اہم بات یہ دیکھنے میں نظر آ رہی ہے کہ تنظیموں یا جماعتوں میںمحاسبہ
کا فقدان ہوتا جا رہا ہے۔یہیں سے بگاڑ شروع ہوجاتا ہے۔مصلحت پسندی، شبیہ
خراب ہونے اور لوگوں میں بدگمانی پھیلنے کا خوف دلا کر محاسبے سے روک دیا
جاتا ہے۔سید عروج احمد قادریؒ نے اسے سمِ قاتل قرار دیا ہے۔مزے کی بات یہ
ہے کہ تحریروں اور تقریروں میں اس پر زور دیا جاتا ہے اور بطورِ خاص حضرت
عمرؓ کی وہ مثال پیش کی جاتی ہے جس میں ایک شخص نے ان کے کرتے کی لمبائی
دیکھ کر ان سے جواب مانگا تھا کہ زائد کپڑا آپ کے پاس کہاں سے آیا؟اور حضرت
عمرؓ نے اس کا جواب دے کر مطمئن کیا تھا۔ مگر اب اس کی مثال پیش کرنے سے
قاصر ہوتے ہیں۔
جب کہ محاسبہ انفرادی اور اجتماعی دونوں شکل میںبہت ضروری ہے۔جس پر قرآن
کریم نے پوری توجہ دلائی ہے:
قد افلح من ذکاھا وقد خاب من دساھا(الشمس:۹،۰۱)
”یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس
کو دبایا“
کسی بھی تنظیم یا جماعت کے امیر کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے معاونین اور
کارکنان پر گہری نظر رکھے اور ضرورت پڑنے پر ان کا مواخذہ بھی کرے ورنہ اس
کے زوال کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔حضرت عمر ؓ کا قول ہے:
”اپنے نفس کا محاسبہ کرو، اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور اپنے
اعمال کی خود ناپ تول کرو، اس سے پہلے کہ (تمہارے محاسبے کے لیے ) انہیں
ناپا تولا جائے“
صرف میٹنگ کرنے سے مقصد یا ہدف نہیں حاصل ہو سکتا ،ہاں البتہ’ مرغ مسلم،
بریانی ، کافی اور بسکٹ وغیرہ‘ کے فروخت میں ضرور اضافہ ہو سکتا ہے۔اس کا
ثبوت یہ ہے کہ ملک کے حکمرانوں پر اب جماعتوں کا وہ اثر نہیں دکھ رہا ہے جو
کبھی پہلے ہوا کرتا تھا۔
مشکل یہ ہے کہ جیسے ہر معاملے میں افراط و تفریط ہے ویسے یہاں پر بھی ہے۔سب
نے اپنے کچھ مخصوص دائرے بنا لیے ہیں اور اسی میں مگن ہیں۔ کچھ لوگ امت کی’
اصلاح‘ کا اس قدربوجھ اٹھائے ہوئے ہیں کہ گھر والوں کے لیے وقت نہیں
ہے۔والدین یا بیوی بچے ڈرے سہمے رہتے ہیں یا ان کے آتے ہی کمروں میں دبک
جاتے ہیں اوراپنی بات تک نہیں کہہ پاتے۔ایسے ہی کچھ لوگ دین کی تبلیغ و
اشاعت یا مضامین لکھنے میں اس قدرمصروف ہیں کہ یہ بھی بھول گئے ہیں کہ
صفائی ستھرائی بھی اسلام کا اہم حصہ ہے اور اس کی بھی اسلام نے تعلیم دی
ہے۔ کپڑے، بستر اور روم وغیرہ کی صفائی کو سالوں ہو جاتا ہے مگر اسلام کی
تبلیغ سے فرصت نہیں مل پاتی ہے۔مسئلہ وہی ہے کہ کمی ہے تو خود احتسابی،
اعتدال پسندی ، رواداری کی اور زیادتی ہے تو خودپسندی ، تنگ نظری، غلو و
مبالغہ کی۔جب کہ اسلام نے ہمیشہ سے اعتدال کا درس دیا ہے۔ |