6دسمبر 1992سے لیکرآج تک 21برس کی مدت میں ہماری یہ پوری
نسل پیدا ہوکر نوجوان ہوچکی ہے۔21سال قبل جب بابری مسجد مسمار کی گئی تھی،
تب اسے دیش کی جمہوریت پر حملہ مانا گیا تھا۔ لیکن اتنی مدت میں ہم اپنی
جمہوریت پر حملہ کرنے والوں کو کوئی بھی سزا دینے میں ناکام رہے ہیں۔بلکہ
سچ تو یہ ہے کہ ہم ایک مضبوط انصاف آئین ، ایک جمہوری دستور اور ایک پورے
قانونی نظام کی موجودگی کے باوجود یہ بھی طے نہیں کرپائے ہیں کہ بابری مسجد
مسماری کا اصل مجرم کون ہے ؟6دسمبر1992کے بعد سے اب تک ملک میں بہت کچھ بدل
چکا ہے۔ سیاست کے میدان میں بھی بھاری تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔سیاسی عدم
استحکام کا دور بھی ہم نے دیکھا ہے۔ وشوناتھ پرتاپ سنگھ، چندر شیکھر اور
اندر کمار گجرال و ایچ ڈی دیو گوڑااسی سیاسی عدم استحکام کے دورمیں ملک کی
وزارت عظمیٰ تک جاپہنچے۔ اٹل بہاری واجپئی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی و
این ڈی اے کو بھی تین بار میں سات برس تک ملک پر حکمرانی کا موقع ملا۔
1990سے لیکر 1992تک کا دور یاد رکھنے والے لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ
بھارتیہ جنتا پارٹی، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں کے لیڈرا ن
کھلے عام سڑکوں پر یہ اشتعال انگیز نعرہ لگاتے تھے کہ ’’جو مانگےگا بابری ،
اس کا دن ہوگا آخری ‘‘بابر کی اولادوبھارت چھوڑو ،’’سوگندھ رام کی کھاتے
ہیں،مندر وہیں بنائیں گے۔ ‘‘ لیکن سات برس کی حکمرانی کے باوجود بھارتیہ
جنتا پارٹی نے رام مندر کیلئے ایک اینٹ بھی نہیں رکھی۔ کوئی بھی سمجھ سکتا
ہے کہ بھاجپائیوں نے ملک کے سیدھے سادھے ہندوئوں کے جذبات سے کھلواڑ کیا ہے۔
مندر کے نام پر انہیں ووٹ بینک بنانے کی کوشش کی،مجبوری میں ہی سہی بھارتیہ
جنتا پارٹی کے لیڈروں کو ملک کے جمہور ی آئین کے تحت ہی ملک میں حکمرانی
کرنی پڑی۔ اس سے زیادہ وہ کچھ کربھی نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے پھر
بھی زہر کے بیج بوئے ۔ انہوںنے ملک کے آئین کا از سر نو جائزہ لینے کیلئے
ایک کمیٹی ہی بنا ڈالی۔ لیکن وقت کے تھپیڑے کھاکر انہیں اقتدار سے بے دخل
ہونا ہی پڑا۔
بابری مسجد ،رام مندر ملکیت کا تنازعہ آج بھی ملک کی عدالت عالیہ میں چل
رہا ہے۔ ایک دور ایسا بھی آیا جب آج سے 3سال قبل یعنی 30ستمبر 2010کو الہٰ
آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے بابری مسجد ، رام مندر کی زمین آدھی آدھی
ہندوئوں اور مسلمانوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے کی دونوں
فریقوں نے جم کر مخالفت کی ۔ اسے فیصلے سے زیادہ تصفئے کا نام دیاگیا۔ آخر
کار دونوں فریق سپریم کورٹ میں پہنچے۔ اب معاملہ وہیں ہے۔ تاریخ کے اوراق
پلٹنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اس بات پر بہت بحث ہوچکی کہ شہنشاہ بابر کے
زمانے میں اس کے میر باقی نام کے ایک سپہ سالارنے فیض آباد میں بابری مسجد
تعمیر کرائی تھی، یہ بھی کہ دسمبر 1949 میں اچانک ہی رات کے اندھیر ے
میںبابری مسجد میں منبر کے قریب بھگوان رام کی مورتی رکھ دی گئی اور پھر
مسجد میں تالالگ گیا۔ پھر تالاکھلا بھی ، ہندوئوں کو پوجا پاٹ کی اجازت بھی
ملی ۔لیکن ان سب کے ساتھ فرقہ پرستانہ سیاست بھی شامل ہوگئی اور آخر کار
بابری مسجد شہید ہوگئی۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمان بابری مسجد کو کعبہ وقبلہ مان کر اس کی بازیابی
کیلئے تن ، من ، دھن کی بازی لگادیں۔ لیکن ہمیں یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ
ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ہماری حیثیت کسی دوسرے شہری سے کم نہیں ہے۔
ہمارے قانونی و آئینی و دستوری اختیارات مساوی ہیں۔ ہمارے جان ومال و عزت و
آبرو سب کچھ کی ذمہ داری ملک کے دستو رپر ہے۔ ہمیں پوری قوت سے اپنے اس
دستور کی حفاظت کرنی ہوگی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی بھی گروہ
یا شخص ہمارے آئین کو ٹھینگا نہ دکھاسکے۔بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ بابری
مسجد مسماری کے بعد ملک میں دہشت گردی کا جو نیا ماحول پیدا کیاگیا،وہ صرف
اور صرف مسلم نوجوانوں کا حوصلہ کچلنے کیلئے۔ کیونکہ حالات اور وقت نے یہ
ثابت کردیا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے معاملات میں
پھنساکر جیلوں میں ٹھونسا گیا۔ پوٹا اور ٹاڈا جیسے سیاہ قانون کو یاد کیجئے
، جس میں تین لاکھ سے زائد بے قصور مسلم نوجوانوں کو ، عزت دار مسلمانوں کو
،تعلیم یافتہ مسلمانوں کو، جھوٹے الزامات کے تحت پھنسایاگیا۔ وہ دور بھلے
ہی گذر گیا ،لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ چند مہینے بعد ملک میں ہونے والے
عام انتخابات کیلئے ایک بار پھر سے فاشسٹ طاقتیں سیاسی چولااوڑھ کر ملک کے
اقتدار پر قابض ہونے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ملک میں
بدعنوانی،اور مہنگائی کا رونا بھی رویا جارہا ہے اور مسلمانوں کو یہ
سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ کانگریس کا ووٹ بینک نہ بنیں۔مسلمان کیا
کریںگے یہ فیصلہ انہیں خود کرنا ہے ۔
|