گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کو
توقعات کے برعکس کامیابی ملی،پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت جبکہ مرکز میں
میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔انتخابات کے بعد مختلف پولنگ سٹیشنوں پر
دھاندلی کا بھی شور کیا گیا ۔پیپلز پارٹی ،تحریک انصاف و دیگر نے نتائج کو
تسلیم بھی کیا اور دھاندلی کے خلاف کیس بھی دائر کئے کراچی کے حلقوں میں
دھاندلی کا واضح ثبوت ملا۔ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جے یوآئی(ف) ،جماعت
اسلامی سمیت متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ دیگر جماعتوں نے مختلف علاقوں میں
اپنے مخالفین پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا ہے، اس کے علاوہ غیر
سرکاری تنظیم نے ملک کے کئی پولنگ اسٹیشنز پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد سے
زیادہ ووٹ کاسٹ کرنے کا بھی انکشاف کیا تھا۔نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن
اتھارٹی (نادرا) کی ایک رپورٹ میں کہا گیاہے کہ قومی اسمبلی کی نشست این اے
256 پر 11 مئی کے عام انتخابات میں بھاری پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ نادرا
نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار زبیر خان کی درخواست پر 67 پولنگ
سٹیشنوں میں ڈالے گئے 84,748 ووٹوں کا جائزہ لیا۔ یہ نشست ایم کیو ایم کے
اقبال محمد علی خان نے جیت لی تھی۔ رپورٹ کے مطابق صرف 6815 بیلٹ پیپرز پر
انگوٹھوں کے نشانات کی توثیق کی جا سکتی تھی جبکہ 57,642 بیلٹ پیپرز کی
نادرا سسٹم کے ذریعہ تصدیق نہیں ہو سکی۔ نادرا کی رپورٹ نے انکشاف کیا ہے
کہ 57,642 بیلٹ پیپرز پر انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشانات کی تصدیق اس لیے
نہیں ہو سکی کہ اس کے لیے جو سیاہی استعمال کی گئی وہ غیر معیاری تھی۔
علاوہ ازیں رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 11,343 کاؤنٹر فائلز میں درج
شدہ شناختی کارڈ نمبر جعلی ہیں، وہ کبھی نادرا کی طرف سے جاری نہیں کیے گئے۔
ایک پولنگ سٹیشن پر گلستان جوہر کے ایک ووٹر کی دیدہ دلیری ملاحظہ ہو جس نے
ایک ہی شناختی کارڈ پر 7 ووٹ ڈالے۔کراچی کے بعدلاہور کے حلقہ این اے118میں
بھی دھاندلی کی شکایات تھیں جس پر چیئرمین نادرا طارق ملک حکومت کی نہیں
مان رہے تھے۔تلہ گنگ کے طارق ملک کے ایک انکار نے انہیں ’’ہیرو بنا دیا،
طارق ملک کو پاکستان، کینیا، نائیجیریا، بنگلہ دیش، امریکا، بحرین کے ملکوں
کیلئے عوامی مرکزیت کے حامل ٹیکنالوجی سلوشنز پر عمل درآمد اور اسٹریٹجک
مینجمنٹ کا 20 سال وسیع تجربہ ہے۔ طارق ملک پراجیکٹ اور ٹیکنالوجی مینجمنٹ
میں معروف و کامیاب CIO شمار کئے جاتے ہیں، وہ سینیئر مشیر برائے انفارمیشن
سسٹم، مقرر، مصنف، ٹرینر اور پبلک سیکٹر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ریسرچر کی
حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ نادرا سے منسلک ہونے سے قبل انہوں نے امریکا کی
ریاست مشی گن کی سب سے بڑی کاؤنٹی میں چیف آف ٹیکنالوجی کے فرائض بھی انجام
دیئے ہیں۔طارق ملک نے ہائیڈل برگ جرمنی سے انٹرنیشنل مینجمنٹ میں ماسٹر کی
ڈگری اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، پاکستان سے کمپیوٹر سائنس میں
ماسٹر کی ڈگری بھی حاصل کی۔ طارق ملک کی تعلیمی قابلیت انہیں جان ایف
کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ، ہار ورڈ یونیورسٹی، ماسیچوسٹس اور سٹیفورڈ
یونیورسٹی بھی لے کر گئی۔ طارق ملک کو حال ہی میں سی آئی او آف دی ایئر کا
ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔سابق آمر پرویز مشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار
چوہدری کو جبری معزول کیا تو انہوں نے انکار کیا اور تحریک چلی ،لانگ مارچ
ہوا اور وہ بحال ہو گئے،اب مسلم لیگ(ن) نے بھی اسی آمر کی طرز پر فیصلہ
کیا،آزاد عدلیہ نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا،ضلع چکوال کی تحصیل تلہ گنگ کے
گاؤں ٹہی سے تعلق رکھنے والے طارق ملک نادراکے چیرمین ہیں جنکی جبری برطرفی
پر ملک بھر کی سیاسی جماعتوں نے انکا بھر پور ساتھ دیا۔حکومت نے طارق ملک
کے انکار کے بعد انسے استعفیٰ طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔انہیں وزیر اعلیٰ
پنجاب سے ملاقات کے لئے لاہور بلایا گیا مگر ملاقات وزیر اعلیٰ سے نہیں
رانا ثناء اﷲ سے ہوئی ،رانا ثناء اﷲ نے روایتی انداز میں مونچھوں پر ہاتھ
پھیرتے ہوئے انہیں کیا کہ حلقہ این اے 118پر حکومت کی مانیں،جیسے ہم کہتے
ہیں ویسے کرتے جائیں یہی بہتر ہو گا،جس پر طارق ملک نے انہیں صاف صاف جواب
دیا کہ جو سچ ہے میں صرف اسے سامنے لاؤں گا،یہ انکار ’’ن‘‘ کی حکومت کو
پسند نہیں آیا۔رات دو بجے انکی برطرفی کے احکامات انکے گھر پہنچائے جاتے
ہیں۔طارق ملک نے جراتمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمرانوں کی ہاں میں ہاں
ملانے کی بجائے انکار کیا جو ’’شریفوں‘‘کو پسند نہیں اس انکار کی وجہ سے
انہیں برطرف تو کیا گیا لیکن انہوں نے اپنی برطرفی کو چیلنج کر دیاجسکے بعد
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نور الحق قریشی نے ان کے کنٹریکٹ کی منسوخی
اور بریگیڈئر (ر) زاہد حسین کی قائم مقام چیئرمین نادرا کی تقرری کا
نوٹیفکیشن معطل کردیا۔ سماعت کے دوران چیئرمین نادرا طارق ملک کے وکیل بابر
ستار نے موقف اختیار کیا کہ چیئرمین نادرا کا کنٹریکٹ 3 سال کا تھا جبکہ
انہیں عہدے سے برطرف کرنے کا طریقہ کار قانون میں درج ہے جسے حکومت نے
نظرانداز کرتے ہوئے اچانک کنٹریکٹ کی منسوخی کا حکم جاری کر کے قائم مقام
چیئرمین کا تقرر کر دیا ہے حالانکہ قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو نادرا کا
قائم مقام چیئرمین تعینات نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس نور الحق قریشی نے طارق
ملک کے وکیل کا موقف سننے کے بعد حکومت کی جانب سے چیئرمین کے کنٹریکٹ کی
منسوخی اور قائم مقام چیئرمین نادرا کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کردیا۔
جسکے بعدچیئرمین نادرا طارق ملک نے دوبارہ اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا
اور عدالتی احکامات دکھا کر قائم مقام چیئرمین بریگیڈئر (ر) زاہد حسین کو
فوری طور پر کراچی واپس جا کر اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کی ہدایت کی۔ اسلام
آباد ہائیکورٹ سے حکم امتناعی حاصل کرنے کے بعد چیئرمین نادرا طارق ملک
نادرا ہیڈ کوارٹرز پہنچے اور اپنے عہدے کا دوبارہ چارج سنبھالتے ہوئے لاہور
کے حلقہ این اے 118 میں دھاندلی سے متعلق الیکشن کمشن کیلئے رپورٹ مرتب
کرنے پر بھی مشاورت کی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے چیئرمین نادرا ہٹائے جانے
پر شدید احتجاج کیا تھا چیئرمین سینٹ نے باضابطہ طور پر تحریک التوا پیش
کرنے کی ہدایت کی کہ انتخابی انگوٹھے کے نشانات پر رپورٹ حکومت کے حق میں
تبدیل نہ کرنے پر چیئرمین نادرا کو نشانہ بنایا گیا ہے بڑے بڑے برج انتخابی
دھاندلی پر الٹنے والے تھے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر سعید غنی کا کہنا
ہے کہ چیئرمین نادرا کا عہدہ قانون کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا
تھا چیئرمین کو بغیر تحقیقات کے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ لاہور کے ایک قومی
اسمبلی کے حلقہ کے انتخابات کے بیلٹ پیپرز کے مشکوک ہونے پر رپورٹ کا
معاملہ تھا چیئرمین نادرا کو دھمکیاں دی گئیں۔سابق وزیر داخلہ رحمان ملک
بھی خاموش نہ رہ سکے اور کہا کہ ایک ماہ کے نوٹس کے بغیر چیئرمین نادرا کو
ہٹایا نہیں جا سکتا تھا مئی 2013 کے انتخابات کے لئے پرائیویٹ پرنٹنگ پریس
سے بھی بیلٹ پیپرز چھپوائے گئے تھے رحیم یار اور بلوچستان سے ٹرک پکڑے گئے
تھے نادرا کے بارے میں قانون موجود ہے قانون کے تحت مدت مقرر ہے اس سے قبل
ہٹانے کے لئے تحقیقات اور ایک ماہ کا شوکاز نوٹس دینا ضروری ہے انتخابات
میں دھاندلی کو منظر عام سے روکنے کے لئے چیئرمین نادرا کو نشانہ بنایا گیا۔
انتخابات کے حوالے سے چیئرمین نادرا طارق ملک کے پاس ایسی معلومات تھیں جس
سے حکومت خوفزدہ تھی کیا ملک میں دیانتدار افسران کو ہٹایا جاتا رہے گا ۔
اگر انتخابات میں دھاندلیاں ہوئی ہین تو انہیں منظر عام پر آنے سے کیوں
روکا جا رہا ہے نادرا کی اچھی کارکردگی تھی ۔قائد حزب اختلاف خورشید شاہ
کہتے ہیں کہ طارق ملک کو ہٹانا انتخابی دھاندلی کوچھپانے کا آغاز ہے،
الیکشن کمیشن طارق ملک پرڈٹ جائے۔طارق ملک تلہ گنگ کی روایتی’’پگ‘‘ کی لاج
رکھتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹ گئے ،دیکھتے ہیں کہ اب حکومت انکے خلاف نیا
کونسا حربہ اختیار کرتی ہے جسے انہیں ہٹا کر راستہ صاف کیا جا سکے اور کسی
ایسے شخص کو چیئرمین لگایا جائے جسکے پاس انکار نہ ہو بلکہ جو کہا وہ کرے
پر چلنے ولا ہو۔طارق ملک کے انکار کے فیصلے سے انہوں نے تلہ گنگ کی مٹی کا
لاج رکھی جس پر ساری قوم کو فخر ہے۔ |