'میں خوش ہوں کہ ایک کافر کے مقابلے میں لڑ کر خدا کی راہ
میں جان دے رہا ہوں،خدا کا شکر ہے کہ میں فرنگی فوج کو مارتے مارتے جان دے
رہا ہوں ۔کاش میرے بعد کوئی اِن فرنگیوں کو ہندوستان سے نکال بھگائے۔اْس
وقت تک میری روح کو قبر میں چین نہیں آئے گا،جب تک ہندوستان کی سرزمین
فرنگیوں سے پاک نہ ہوجائے\'۔
یہ آخری خواہش اور الفاظ اُس عظیم شخص کے ہیں جو ہندوستان میں مسلم
دورِحکومت کا آخری چراغِ سحر سمجھا جاتا ہے۔۔۔ایک ایسی سحر کا چراغ جو اپنے
بعد ایسی درخشاں اور روشن صبح لاتی ہے کہ جس سے ہرُ سو اندھیرا چھٹ جاتا ہے
اور نور ہر شے کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے ۔تاہم اپنوں کی غداری نے اس سحر
کو صبح کاذب میں بدل دیا ۔۔۔ یعنی ایک ایسی صبح جس کے بعد گھُپ اندھیرے نے
پھر سے سب کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔جی ہاں قارئین ! میں بات کررہا ہوں اْس
عظیم مجاہد ٹیپو سلطان شہید کی جو یقیناًتاریخ اسلام کی کتاب کا وہ سنہرا
باب ہے جس پر عالم اسلام تا قیامت نازاں رہے گا۔ٹیپو سلطان کی شہادت کو کئی
صدیاں گزریں تاہم آج بھی مشرق و مغرب میں اس بہادر کو خراج تحسین پیش کرنے
والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ ملت اسلامیہ کے اس عظیم مجاہد نے
1799ء میں انگریز وں، نظام دکن اور مرہٹوں کی پچاس ہزار مشترکہ افواج کے
ساتھ بڑی جوانمردی سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کی اور بارگاہ رب العزت میں
وہ مقام پایاجو اس کی راہ پر ثابت قدمی سے چلنے والے خوش نصیبوں کو ہی نصیب
ہوتا ہے ۔
تاریخ جہاں ٹیپو سلطان کو نہیں بھولی تو وہاں اس کے ساتھ غداری کرنے والے
میر صادق، پورنیا اور معین الدین جیسے دیگر کرداروں کو بھی نہیں بھُلا
پائی۔شاعرِمشرق علامہ محمد اقبال نے اپنے اشعار میں ملت کے غداروں کے بارے
میں کیا خوب کہا ہے
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ ملت ، ننگ دین ،ننگ وطن
ایسا کہنے میں شاعر مشرق واقعی حق بجانب تھے کیونکہ 1799ء کے بعد آج تک
مسلمانان پاک و ہند پر جو بھی مصائب آلام آئے اور جو خوادثِ زمانہ آج بھی
اِنکے ساتھ جاری و ساری ہیں اسکی بنیادی وجہ یہی غداری تھی۔اگر یہ غدار
ایسی ذلت آمیز غداری نہ کرتے تو یقیناًاس خطے کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی
کیونکہ آزادی ایک ایسی نعمت ہے کہ جو ایک بار چھن جائے تو پھر اسے دوبارہ
حاصل کرنے میں قوموں کو صدیاں لگتی ہیں ۔
میں آج اپنی اس تحریر سے جہاں ٹیپو سلطان شہید کو خراج تحسین پیش کرنے کی
ایک ناتواں کوشش کر رہا ہوں تو وہاں اس موضوع پر قلم اُٹھانے کی جسارت اس
لیے بھی کر رہا ہوں کیونکہ یہ بڑی شدت سے محسوس ہورہا ہے کہ آج عالم اسلام
کے عظیم قلعہ پاکستان میں بھی غداروں کی ریشہ دوانیوں نے اتنے شگاف ڈال دیے
ہیں کہ ہر شگاف سے فرنگی کبھی سی آئی اے ، کبھی بلیک واٹر ، کبھی ایف بی
آئی ، کبھی ریمنڈ ڈیوس اور کبھی ڈرونز کی شکل میں گھُستا ہوا چلا نظر آرہا
ہے ۔اس کے سامنے کوئی بند باندھنے والا نظر نہیں آتا۔آج کے میر صادقوں نے
جو میرے وطن میں بہت مضبوط ہوچکے ہیں اور سیاست، بیورکریسی اور دیگر ریاستی
اداروں میں ہر طرف پھیل چُکے ہیں، امریکی ڈالروں اور حصول اقتدار و اختیار
کے حصول میں اندھے اور بہرے ہوکر پورے ریاستی نظام کو کھوکھلا کر کے رکھ
دیا ہے ۔ نتیجتاً پورے ملک میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کا نیٹ ورک پوری
طرح جڑیں پکڑ چُکا ہے ۔قوم کی بے بسی دیکھیں کہ بہت سے غدار وں کی غداری
ثابت بھی ہوچکی ہے لیکن وہ اب بھی صاحب عزت و جلال ہیں ۔ان پر کوئی ہاتھ
ڈالنے والا نہیں ۔
شاید کچھ لوگوں کو میری یہ تحریر پڑھ کر یہ اعتراض ہو کہ امریکی فرنگی کیسے
ہوگئے ۔فرنگی کا لفظ تو برطانیہ کے رہنے والوں انگریزوں کے لیے استعمال
ہوتا تھا۔ اس بارے میں بس اتنا ہی عرض کرونگا کہ امریکہ کو بھی اِنھی
فرنگیوں کے آباؤ اجداد نے بسایا تھا جنہیں برطانیہ میں قتل و غارت گری اور
لوٹ مار کی وجہ سے نکالا گیا تھا ۔چنانچہ آج کے امریکی بھی درحقیقت انہی
فرنگیوں کی اولادیں ہیں جنہیں ہمارے حکمران بڑے فخر سے اپنا دوست کہتے ہیں
لیکن ان دوستوں نے اسی طرح ان حکمرانوں کو اور پوری قوم کو پھر سے غلام
بنانا شروع کردیا ہے جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے ہندوستان کو بنایاتھا
۔ امریکی اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوچکی ہیں کہ سی آئی اے پاکستان میں
ایک بڑا ہی مضبوط نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب ہوچُکی ہے اوراسے اب
پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی مدد کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔
زیادہ دن نہیں گزرے جب ایبٹ آباد کمیشن نے سابق صدر آصف علی زرداری کو
پاکستان میں سی آئی اے کے نیٹ ورک کو پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا تھا
اورغداری کی اس ساری کہانی کے مرکزی کردار حسین حقانی کے سرپرستوں کے بارے
میں بڑے واضح طور پر قرار دیا تھا کہ حقانی کے سرپرست پاکستان کے لیے نہیں
بلکہ سی آئی اے کے مفادات کے لیے کام کر رہے تھے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے
دست راست سابق چیف آف جنرل سٹاف جنرل(ر) شاہد عزیز نے غداری کی اس کہانی
میں یہ ہوشربا انکشاف کر کے مزید رنگ بھر دیے کہ پرویز مشرف نے امریکہ کو
پاکستان میں نہ صرف ڈرون حملے کرنے کی اجاز ت دی بلکہ سی آئی اے اور ایف بی
آئی کو قبائلی علاقوں میں ایجنٹ بھرتی کرنے کی اجازت بھی دی تھی ۔ مشرف نے
ا س ضمن میں اپنے کور کمانڈرز تک کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ یوں سی آئی
اے کو وطن عزیز میں کُھل کر کام کرنے کا موقع مل گیا ۔ سی آئی اے نہ صرف
قبائلی علاقوں بلکہ پاکستان بھر میں میڈیا سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق
رکھنے والے افراد کو بھاری تعداد میں اپنے پے رول پر لانے میں کامیاب ہوگیا
۔ ان میں خاص طور پرفوج کے ریٹائرڈ بریگیڈیرز کا وہ بیچ بھی شامل تھا جسے
\'بریگیڈئیرز ویب \'بھی کہا جاتا ہے۔ ایبٹ آباد ، مہران بیس، جی ایچ کیو
حملے سمیت دہشت گردی کی درجنوں وارداتیں فرنگی کےِ اسی خفیہ نظام کی چھتری
کے نیچے ہوئیں ۔اگر یقین نہیں آتا تو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور قانون
نافذ کرنے والے اداروں کی اس حوالے سے وقتاً فوقتاً حکومت کو پیش کی جانے
تحقیقاتی رپورٹس کوہی دیکھ لیں ۔اُمید ہے کہ اس سے آپکو میری بات کا یقین
آجائیگا۔پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے بھی یہ نیٹ ورک کمزور نہیں ہوا
بلکہ مزید مضبوط ہوتا گیا ہے ۔امریکہ کی کاسہ لیسی میں شریف برادران اور ان
کے حواری بھی ماضی کے حکمرانوں سے ذرہ بھی پیچھے نظر نہیں آتے بلکہ امریکہ
کی نمک حلالی میں شاید اُن سے بھی کچھ ہاتھ آگے ہی ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو
پاکستان میں ڈورن حملے ختم ہوچکے ہوتے اور سی آئی اے کا نیٹ ورک ختم کیا
جاچکا ہوتا-
پیارے ہم وطنوں کو بس یہی کہنا ہے کہ آنے والے سال ہر لحاظ سے ایک بہت ہی
مشکل سال نظر آتا ہے ۔ بس خدا خیر کرے، پاکستان اور پاکستانیوں کو اپنے حفظ
و امان میں رکھے۔ٹیپو سلطان شہید کی روح یقیناًقبر میں پہلے سے بھی زیادہ
مضطرب ہوگی۔کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں پاکستان دُشمن قوتیں
ایک خوفناک کھیل کھیلنے جارہی ہیں اسے بچانے کے لیے کوئی ٹیپو تو نہیں آیا
بلکہ اسے نقصان پہنچانے کے لیے بہت سے میر صادق،پورنیا اور معین الدین آچکے
ہیں ۔ |