تصدق جیلانی سے چیف جسٹس تک کا سفر

12دسمبر پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہوگا۔اس دن پاکستان کی عدلیہ کا ایک باب اور ختم ہونے کو ہے۔ اس دن پاکستان کی عدلیہ کی عزت و توقیر بڑھانے والے چیف جسٹس افتخار چوہدری اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے ملازمت کے دوران بہت سے نشیب و فراز دیکھے مگر اپنی ہمت اور ساتھیوں کے تعاون سے سرخرو ہوئے۔اب ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد وزیراعظم پاکستان کی ایڈوائس پر صدر پاکستان نے جسٹس تصدق حسین جیلانی کو نامزد کردیا ہے۔ تصدیق جیلانی ،افتخار چوہدری کے دست راست سمجھے جاتے ہیں۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی کا تعلق ملتان سے ہے۔ وہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پہلے وکیل ہیں جنہیں یہ اعزاز مل رہا ہے۔ ان کا تعلق مظفر گڑھ کے نواحی علاقہ خان گڑھ کے متوسط گھرانے سے ہے۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی 4 جولائی 1949ء کو سید رمضان جیلانی کے گھر پیدا ہوا۔سید رمضان جیلانی پولیس میں اعلیٰ آفیسر تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر مظفر گڑ ھ سے حاصل کی۔اس کے بعد ملتان کے پائلٹ سیکنڈری سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا جہاں آج بھی آپ کا نام سکول کے ذہین ترین طلباء کی فہرست میں لکھاہوا ہے۔ ایمرسن کالج ملتان سے بی اے کرنے کے بعد سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری لاہورکے فار مین کرسچن کالج سے حاصل کی۔ قانون کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ جس کے بعد کانسٹیٹیوشنل لاء کا کورس لندن کی یونیورسٹی سے کیا۔

جسٹس تصدق جیلانی بابائے جمہوریت نوابزدہ نصراﷲ خان مرحوم کے بھانجے ہیں جبکہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ فوزیہ گیلانی انکی بھانجی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب یوسف رضا گیلانی پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کی گئی تو انہوں نے اس کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کرنے والے بنچ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔جسٹس تصدق جیلانی شاعری اور مصوری کے دلدادہ ہیں اس لیے وہ ادبی جج کے طورپر مشہور ہیں۔ جسٹس جیلانی کا پسندیدہ رنگ سرخ ہے۔

چیف جسٹس جیلانی نے اپنی پریکٹس کا آغاز بطور وکیل 1974میں ملتان ڈسٹرکٹ کورٹس سے کیا۔ 1976ء میں ہائیکورٹ کے ایڈووکیٹ بنے اور اسی سال ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل بھی منتخب ہوئے۔ 1978ء میں پنجاب بار کونسل کے ممبر بنے۔ 1979ء میں اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب منتخب ہوئے جس کے بعد 1983ء میں سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ بنے۔ مسٹر جسٹس تصدق جیلانی کو 1993ء میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔ انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کے جج کے طور پر7 اگست 1994ء میں حلف اٹھایااورپھر 31 جولائی 2004ء کو سپریم کورٹ کے جج کا حلف اٹھایا۔ انہوں نے 3 نومبر 2007ء کو مشرف حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی ایمرجنسی تک خدمات دیں۔

پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت نیا حلف لینے سے انکار کرنے پر سپریم کورٹ کے جج کے طور پر انہیں غیر فعال قرار دے دیا۔ 2008ء میں جمہوری حکومت کے قیام کے بعد جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ستمبر 2009میں سپریم کورٹ کے جج کے طور پر دوبارہ جوائن کیا۔ تصدق حسین جیلانی کو بین الاقوامی سطح پر بھی بے شمار اعزازات سے نوازا گیا۔ 12 اکتوبر 2007ء کو واشنگٹن میں سدرن ورجینیا یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ جسٹس تصدق کو امریکن بار نے ایک اعزازی نشست بھی دی۔

جولائی 2008ء میں امریکن بار ایسوسی ایشن کے جانب سے پاکستان میں رول آف لاء کو قائم رکھنے والے ججز میں سے مسٹر جسٹس تصدق حسین جیلانی کو 2008ء میں رول آف لاء کا ایوارڈ دیا گیا۔ آپ نے کچھ عرصہ قائم مقام چیئرمین الیکشن کمشنر آف پاکستان کے عہدے پر بھی کام کیا۔جسٹس تصدق جیلانی نرم خو مگر قانون پر سختی سے عمل درآمد کرنے والی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔سپریم کورٹ کا’’ نغمہ انصاف سب کیلئے’’ انہی کا تحریر کر دہ ہے۔

جسٹس تصدق جیلانی سپریم کورٹ کے ان ججز میں شامل ہیں جنہوں نے 3نومبر 2007 کو پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں فاروق نائیک فارمولا کے تحت سپریم کورٹ کے جن چار ججز نے حلف لیا ، ان میں جسٹس تصدق جیلانی بھی شامل تھے تاہم چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے کئی ججز کی مدت 2نومبر سے ہی بحال کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تھا۔

جسٹس تصدق جیلانی سپریم کورٹ کے اس پانچ رکنی بینچ کے بھی سربراہ تھے جس نے پرویز مشرف دور میں میاں نواز شریف کو ہائی جیکنگ کے الزامات سے بری کیا۔ جسٹس تصدق جیلانی کے خط پر سپریم کورٹ نے نیو مری منصوبے کے خلاف ازخود نوٹس بھی لیا تھا۔

موجودہ چیف جسٹس افتخار نے جس طرح عدلیہ کا وقار بلندکیا اور عدلیہ کا بحال کرایا اس کی مثال تاریخ میں لکھی جاچکی ہے۔ جسٹس تصدق جیلانی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے عدلیہ کا وقار بحال کرانے میں چیف جسٹس افتخار کے دست راست بنے۔ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملک کے بہت اہم کیس جو اس وقت عدالت میں زیر سماعت ہیں ان کی تمام تر ذمہ داری جیلانی صاحب پر آجائے گی۔ دیکھنا ہے کہ وہ ان کیس کو کس طرح حل کراتے ہیں؟
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 234595 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.