بابری مسجد سانحہ ،ایک نہ بھرنے والا زخم

آج سے31سال قبل 6دسمبر 1992کو آزادہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی روحوں تک کو لرزادیااس کے ساتھ ساتھ اتنے گہرے زخم دے دیے جن کا آج تک مداوا نہیں ہوسکا ہے ۔ کڑی پابندی کے حصار میں 500سالہ قدیم اور آباد مسجد ایک سازش کے تحت دےکھتے ہی دیکھتے شہید کردی گئی اور یہ کارنامہ ایک ایسی حکومت کے زیرسایہ رونما ہوا جو خود کو سیکولر کہتے نہیں تھکتی ۔ جو خو د کو مسلمانوں کا سب سے بڑا ہمدرد اور دوست کہتی ہے اور انھیں اپنا حلیف مانتی ہے۔ وہ اگر چاہتی تو ہندوستان کی دامن پر یہ بدنما داغ کسی صورت نہیں لگتا۔

دراصل بابری مسجد کی شہادت ایک گہری سازش کا نتیجہ تھی یا اسے مسلمانوں کے تشخص پر راست حملہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ رام مندر تو ایک بہانہ تھا ۔ایک دھوکہ تھا جس کی آڑ میں اسلام کے شعائر یعنی مسجد کو مٹانا تھا ۔ورنہ ایودھیا میں رام کے مندروں کی کمی نہیں ہے ۔وہاں گھر گھر رام مندر ہیں اور آج بھی سینکڑوں پجاری اس بات کے دعویدار ہیں کہ رام میرے مندر میں پیدا ہو ئے ۔رام وہاں نہیں یہاں پیدا ہوئے۔اس حقیقت کے باوجود بھی کانگریس اور بی جے پی کے فرقہ پرستوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا اور ہندوستانی مسلمانوں کے سینوں میں ایسے زخم دے دیے جن سے آج بھی خون رس رہا ہے اور ہر سال 6دسمبر آتے آتے اس کی تکلیف ،شدت اور ٹیس مزید تیز ہوجاتی ہے۔

اتنے بڑے المیے پہ ہرسال 6دسمبر کومسلمان یوم سیاہ اور احتجاج کر کے رہ جاتے ہیں ۔یا پھر بابری مسجد کے قاتلوں کے لیے سزا کے مطالبوں تک بات آتے آتے رک جاتی ہے۔وہ کر بھی کیا سکتے ہیں اس لیے کہ نہ قلم ان کے ہیں نہ منصف ان کے مگر تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ حکومتی سطح پربھی آج تک اتنے عظیم سانحے کے خلاف نہ کوئی ایف آئی آر درج ہے اور نہ کوئی رٹ،نہ کسی عدالت نے اس کے قاتلوں کو سزا سنائی ہے اور نہ کسی حکومت نے مجرمین کی گر فتاری کے وارنٹ جاری کیے۔اس کی وجہ شایدیہ ہے کہ یہ حکومت کا مسئلہ نہیں بلکہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے جن کے لیے اس ملک میں انصاف نہیں ہے ہاں ! ان کے لیے سزائیں اور عتاب تو ہیں مگر ان کی شنوائی نہیں ہوسکتی ۔ان کے لیے جیلیں اور عقوبت خانے تو ہیں مگر ان کے حقوق کی بازیابی کے راستے نہیں۔ان کے لیے عدالتیں ایسے قوانین کی سفارش نہیں کر سکتیں جن سے انھیں فرقہ پرستوں پر فتح حاصل ہویا ان کا وقاراورر تبہ بلند ہو۔

جس وقت میں یہ احساسات لکھ رہا ہوں میرا دل ،جگر ،دماغ،ہاتھ کوئی ساتھ نہیں دے رہا ہے سب شدت احساس سے اِدھر اُدھر بکھر رہے ہیں اور رعشہ سا پورے جسم پر طاری ہے۔دراصل یہ واقعہ ہے ہی اتنا تکلیف دہ اور ہوش ربا کہ افسردگی چھانی یقینی ہے اور تفکرات کا بکھرنا لازمی ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا لکھوں،کیسے لکھوں؟بابری مسجد کے درد کا مدواکہاں تلاش کر وں ۔ کس کو یہ دکھڑا سناﺅں اور کس سے کہوں کہ ہماری بابری مسجد کو آزاد اور آباد کر دیا جائے ۔ کس سے فریاد کر وں کہ بابری مسجد کے قاتلوں کا وہی انجام کرے جو انھوں نے اس معصوم کا کیاہے۔سب باتیں کرنے والے ملتے ہیں کام کوئی نہیں کرتا ۔نام نہادصاحب اقتدار بھی بیانوںتک محدود ہیں عملی اقدام کوئی نہیں کرتا ۔ جب سمجھ میں نہیں آتا۔جب کوئی ہمنوا نہیں ملتا۔جب کوئی منصف نہیں ملتا اور جب کوئی مسیحا بھی نہیں ملتا تو یہ غموم و ہموم مجھے اندر سے ہی توڑ توڑ رہے ہیں اور زخمی زخمی دل مزید زخمی ہورہاہے۔دل خراش آہیں سینے کی پسلیوں میں آگ لگا رہی ہیں اور کرب انگیز یا ں آنکھوں میں نمکین پانی بھر رہی ہیں۔

قارئین کرام !آپ اسے الفاظ بازی یا جملہ سازی نہ سمجھئے گا۔ یقین جانیے گا کہ یہ اس مسلمان کے احساسات ہیں جواس بات پرایمان رکھتا ہے کہ مسجد اللہ پاک یعنی اس کاینات کے مالک کا گھرہے جہاں اس کی انواراور تجلیات نازل ہوتی رہتی ہیں اوروہاں دلوں کا اطمینان اور سکون قلب ملتا ہے ۔ جو مسلمان بے رحم حالات کے تھپیڑو ں سے تنگ آکر خانہ خدا کو جائے امن و امان سمجھتاہے اور تلاش امن میں چلا آتا ہے ۔اندازہ لگائیے جب اسی خانہ خدا کو گرادیا جائے اوراس طرح کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کا نام و نشان مٹ جائے تو کیسا لگے گا؟ شاید یہی کیفیت ہوگی جو میری ہو رہی ہے۔اس وقت تو دکھ مزید ہوجاتا ہے جب بابری مسجد کے قاتل مزید شرپھیلانے کے لیے آزاد گھوم رہے ہوں ۔ ’جلتی پر تیل کا کام‘ شاید کسی اسی کو کہا جاتا ہے۔ اسی کا نام’ زخموں پر نمک چھڑکنا ‘ہے۔

ہندوستان آسمان بن کر مسلمانوں کا امتحان لے رہا ہے ،بار بار لے رہا ہے اور مسلمان صبرکی تصویر بن کر راز نہاں دکھلاتے جارہے ہیں ۔ کڑے سے کڑے امتحانات مسلمانوں سے ےہاں لیے جارہے ہیں ۔کبھی ان کے کھلتے اور روشن چراغوں کو دہشت گردی کے الزام میں پھنسا کر جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔کبھی ان پر غداری کا گھناﺅنا الزام لگایا جاتا ہے۔ کبھی ان کی آ با د یوں پر منظم حملے کر دیے جاتے ہیں ۔ کبھی ان کے تعلقات بیرون ممالک سے جوڑ دیے جاتے ہیں۔ کبھی علی الاعلان اور بلوا کر کے ان کے مذہبی مقامات کو شہید کر دیا جاتا ہے۔یہ ایک دو دن کی کہانی نہیں بلکہ گذشتہ 66سال پرانی کہانی ہے جس کا سلسلہ کم ہونے کے بجائے دراز ہوتا جارہا ہے ،اس میں آئے دن نئے ابواب اور خونی داستانوں کا اضافہ ہورہا ہے اور ہر دن مظلوموں کے لہو سے اس کی سرخیاں بنا ئی جارہی ہیں۔

طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ یہ سب ان مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے جنھوں نے ہر موڑ پرمادر وطن کے برہم گیسوﺅں کو سنوار ا اور اس کی خاطردیوار چمن سے زنداں تک قربانیوںکے طویل سلسلے قائم کر دیے۔ جنھوں نے مادر وطن کی آن پر اپنا سب کچھ لٹا دیا۔ اس کی حفاظت اپنوں بچوں سے زیادہ کی اور کبھی انھوں نے اس کے جذبات سے کھلواڑ نہیں کیا ۔کبھی اس کے آئین سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی چاہے وہ ان پر گراں ہی کیوں نہ گذرتے ہوں یاان کی آزادی کے مغائر ہوں اگر کبھی کوئی قانون یا فیصلہ ان کے مذہب اور دین کے خلاف بھی آیا تو اس پر بھی ترمیم ہونے تک احتجاج کیا اس کے بعد کچھ نہیں۔ جن مسلمانوں نے نہ کبھی اس کے قوانین کو ہاتھ میں لیا جس طرح دیگر فرقہ پرست کرتے ہیں۔ وہ پولیس کی گولیاں سینوں پر کھا تے رہے اور’ جے ہند یا سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘کے نعرے لگاتے رہے ۔سرکٹاتے رہے اور ’بھارت ماتا کی جے‘ کی گہار لگاتے رہے ۔اس کے باوجود انھیں ہی مشق ستم بنایا گیا اور انھیں ملک میں اچھوتوں کی حیثیت دی گئی ۔گویا رہنا ہے تو اس طرح رہو ورنہ ہما ر ے دام میں آکر جان دیدو ۔ تمھیں سراٹھا کر جینے اور اعلامقام کے ساتھ رہنے کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ ورنہ اس کی سزا یہ ہوگی کہ تمہاری مسجدیں ، عبادت گاہیں اور مذہبی مقامات زمیں بوس کر دیے جائیں گے۔یہ ہے ان کی قربانیوں کا صلہ اور گر دن کٹانے کی جزا۔یہ کیسی عدیم النظیر مثال ہے جو ہندوستان ساری دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے ؟یہ کیسی انوکھی اور دوہری بات ہے جو ہندوستان نے اپنے باشندوں کے ساتھ روا رکھی ہے ؟یہ کیسا سلسلہ ہے جس کی زد میں ہندوستان کے مسلمان آرہے یہں؟کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پیار کو کیا نام دیا جائے؟

IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62321 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More