ہاں میں نے آپ کے کالم کہیں بار پڑھے آپ بہت
اچھا لکھتے ہیں،ایک لکھنے والا اچھی طرح جانتا ہے کہ کون کیسا اور کتنا
اچھا لکھ رہا ہے۔ لکھنے والے کی اپنی ایک ساکھ ہوتی ہے اس کے مداح اور
چاہنے والوں کی تعداد ہوتی ہے جو ہر حال میں اسے پڑھنا چاہتے ہیں ۔آپ کو
اتنا عرصہ ہو گیا کالم لکھتے ہوئے آپ کو پڑھا بھی جاتا ہے مگر پھر بھی کسی
نے آپ سے آج تک خود رابطہ نہیں کیا کہ میری اخبار کے لئے لکھو کیوں؟اسکی
وجہ کیا ہے؟ یہ باتیں کس نے کی اس کے سوالوں کا میرے پاس کیا جواب ہے یہ تو
میں کالم کے آخر میں بتاؤں گا ۔پہلے میں آپ کو ایک لکھنے والے کے حوالے سے
کچھ اپنے تجربات شیئر کرتا چلوں کہ ایک رائٹر کالم نویس یا لکھنے والا بھی
اسی معاشرے کا فرد ہوتا ہے مگر اس کی سوچ،نظریہ،اور طبیعت عام لوگوں سے کچھ
زیادہ احساس ہوتی ہے لکھنے والے کی معاشرے پر اپنے ارد گرد ،رونما ہونے
والی تبدیلوں پر گہری نظر ہوتی ہے وہ جو محسوس کرتا ہے جو سمجھتا ہے اس پر
اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے ،جس طرح دنیا میں انسانوں کی تقسیم اس کی ذات
پات،دھن دولت،امیر غیریب،اعلیٰ ،ادنیٰ چھوٹا بڑا،اہم ،غیر اہم،قیمتی اور بے
قیمت ہے ،جس طرح انسان کی سوچ،علم اگاہی اور معلومات کا خزانہ بھی مختلف ہے
کسی کے پاس زیادہ کسی کے پاس کم ہے ،ہر لکھنے والا چاہئے وہ ادب کا ہو ،سائنسی
ہو ،اسلامی ہو،معاشرتی ہو ،سیاسی ،انسانی،یاکسی مخصوس نظریے پر ہو اپنی
اپنی بساط کے مطابق لکھتا ہے ۔جو جس طرح کے ماحول ،حالات ،واقعات،حادثات سے
گزرتا ہے متاثر ہوتا ہے یا ماحول اس پر اثر انداز ہوتا ہے اس کی تحریروں
میں بھی وہ رنگ نمایاں ہوتا ہے ،آج کل ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر سے
اخبارات،رسائل،میگزین، ماہنامے،ہفت روزے،روز نامے، شائع ہوتے ہیں ان میں
لکھنے والوں کی تعداد بھی بے شمار ہوتی ہے ،ہر ایک کا اپنا اپنا انداز ِتحریر
ہوتا ہے ،مگر ان میں سے مقبولیت کی سڑھی پرکوئی کوئی چڑتا ہے ،لکھنے والے
کا مقصد اپنی بات کو ،یا معاشرے میں ہونے والی تبدیلیاں، سیاسی داو پیج کو
دوسروں تک پہنچانا ہوتا ہے وہ مزاحیہ ہو یا سنجیدہ،کسی کہانی کی صورت میں
ہو یا ڈرامے فلم کی،ضروری نہیں کے ہر لکھنے والے کو پسند کیا جائے یہ پڑھنے
والے کے اپنے مذاج پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس کی تحریر کو پسند اور کسی کی
کو نا پسند کرتا ہے دوسرا جو ہمارے ہاں کالم یا کہانی لکھنے والے کی اہمیت
کا تعلق ہے تو وہ اس کے قد کاٹھ یعنی شہرت اور مقبولیت بڑی اثر انداز ہوتی
ہے ،ہمارے معاشرے میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کیا لکھا ہوا ہے بلکہ یہ دیکھا
جاتا ہے کہ کس نے لکھا ہے ہو سکتا ہے کہ ایک عام آدمی بہت اچھی بات لکھتا
ہو بہت گہری اور سوچ والی بات بتاتا ہو مگر اسکی اہمیت نہیں وہ عام آدمی ہے
اسکی جان پہچان نہیں اور اس کا نام دیکھ کر ہی تحریر کو چھوڑ دیا جائے،اس
کی نسبت ایک جان پہچان والا آدمی جسکی کسی بھی حوالے سے شہرت ہو ،سات سمندر
پاربیٹھ کر ملک کو تباہ کر رہا ہو بس اس کا نام جانا پہچانا ہو وہبگاوت،یا
ملک کی غداری پربھی لکھے تو اسکی بات کو اہمیت دی جائے گی چاہئے اس کی بات
بے وقوفی کے آخری درجے کی ہو ،وہ کسی کی سمجھ میں بھی نہ آئے ایک رام کہانی
ہو لوگ اس کے نام کی وجہ سے پڑھے گے۔یہ ایک بہت بڑی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں
بڑا بااثر لکھنے والے بھی اپنی غیر مقبولیت کی وجہ سے ناکام اور نظر انداز
ہیں۔کسی بھی ملک معاشرے کی تبدیلی میں لکھنے والوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے
لکھنے والا اپنی قلم کے ذریعے معاشرے کے ان چھپے رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے
جس سے عام آدمی واقف نہیں ہوتا لیڈروں ،سیاست دانوں،اور نام نہاد وفاداروں
کے روپ میں اکثر لٹہرے،ڈاکو،اور قصاک،چھپے ہوتے ہیں ان کے مکرو چہرے بے
نقاپ کرنے میں ایک کالم نگار کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے ۔ مگر یہ سچ ہے کہ
رائٹر ،کالم نگار،وہاں کار آمد ہوتے ہیں ان کا رول وہاں ہوتا ہے جہاں زندہ
قومیں ہوں ،جہاں زندہ ضمیر لوگ ہوں،جس ملک معاشرے میں سوئے ہوئے مردہ ضمیر
اور بے حس مطلب پرست برادری ازم،تعصب،اور شخصیت کے پوجاری ہوں ان لوگوں اور
معاشروں کے سامنے ایک لکھاری کی اہمیت بھینس کے اگے بین بجانے کے برابر
ہوتی ہے مگر لکھاری کی اپنی سوچ ہوتی ہے وہ اپنے حصے کی شمع روشن کرتا رہتا
ہے۔ہمارے ہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جس طرح باقی تمام شعبہ زندگی میں
انسان کی مجبوریوں سے ،اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر اس کا خون نچوڑا
جاتا ہے ، جس طرح عام زندگی میں انسانی کمزوریوں کو دیکھ کر انسانیت سے
کھیلا جاتا ہے اسی طرح میڈیا، یا اخبارات میں لکھنے والے کے ساتھ کیا جاتا
ہے ایک لکھاری جو، نا جانے کس طرح سے وقت نکال کر ایک ادارے کو اپنی سوچ
دیتا ہے اس کے لئے لکھتا ہے ،اس کی مقبولیت میں اضافہ کرتا ہے اس کے بدلے
میں اسے کیا ملتا ہے کچھ بھی نہیں ،جب ایک لکھنے والے کو اپنی محنت کا سیلہ
نہ ملے جب اس کے گھر میں ایک وقت کا کھانا میسر نہ ہو اور وہ پھر بھی مفت
میں لکھتا ہو تو وہ کیا پابندی کرے گا کیا اصول یا پالیسی کو آپنائے گا،وہ
کیا محنت کر کے نئے نئے الفاظ اور نئی نئی کہانیاں ڈھونڈے گا،جب ایک ادارہ
ایک اخبار لکھنے والے کو اپنی پالیسی بتاتا ہے کہ تم ہمیں لکھو گے کسی اور
کو نہیں ،تم ان ان اصولوں،اور قائدوں ضابطوں کی پابندی کرو گے لکھنے والا
جو اپنی پیاس بجھانے کے لئے لکھتا تو ہے مگر مفت میں جب اسے اس کا ماوضہ
نہیں ملے گا تو وہ کیا کب تک خود کو ان اصولوں کا پابند رکھے گا۔میں نے
شروع میں جو باتیں لکھی تھیں وہ روزنامہ کشمیر ٹائم کے ایڈیٹر خالد گردیزی
نے میرے ساتھ فون پر گفتگو کرتے ہوئے کی تھیں ان کا کہنا تھا کہ ایک لکھنے
والے کو اپنی اہمیت بنانی چاہئے ،اپنی ساکھ اپنی پہچان بنانی چاہئے لکھنے
والے کے ساتھ رابطہ کیا جائے وہ کسی سے نہ کریں،اس کا جواب یہی ہے کہ جناب
گیدڑوں کی بستی میں راہ کر شیروں کے اصولوں کی بات کی جائے،ایک غلام قوم کے
غلام حکمرانوں کے رحم کرم پر رہنے والے بادشاوں اور شہنشاوں کی بات کریں تو
کیسا لگے گا۔دال روٹی کے چکر میں الجھی قوم مرغ مسلم،اور سیر وسیاحت کے
خواب دیکھیں تو یہ عجیب بات نہیں لگے گی۔گردیزی صاحب آپ نے بہت اچھی بات کی
میں اتفاق کرتا ہوں مگر یہ زندہ معاشروں کے زندہ ضمیر لوگوں کے اصول ہوتے
ہیں مردہ ضمیروں کے ہاں اساس دلایا جاتا ہے ان کو جگایا جاتا ہے ،ہم اس قوم
و معاشرے کے کالم نویسی ہیں جس کی قسمت سوئی نہیں بلکہ بے حس ہو چکی ہے ۔جس
میں سچائی،دیانت داری،محنت،سے نہیں بلکہ جھوٹ،چوری،فراڈ،منافقت،کرنے سے عزت
اور شہرت ملتی ہے اس لئے ہم جیسے سسک سسک کر مر تو سکتے ہیں مگر خوشی کا
ایک لمحہ جی نہیں سکتے۔ |