پیخور خو پیخور دے کنہ

ہمارے بچپن میں پشاور شمال مغربی سرحدی صوبے کا دارالخلافہ تھا اب جبکہ ہم جوان ہیں تو یہ خیبرپختونخواہ کا دارالخلافہ بن چکا ہے پتہ نہیں ہمارے بڑھاپے میں کیا حال ہوگا لیکن ایک بات جو اتنے عرصے میں دیکھ چکا ہوں کہ پہلے یہاں پر مقامی یا پھر نواحی اضلاع سے لوگ آکر یہاں روزگار کیلئے آتے تھے اب یہاں کے مقامی لوگ تو پتہ نہیں کہاں غائب ہوگئے اب تو افغانستان سے لوگ آکر یہاں پر آباد ہوگئے ہیں اور ان لوگوں نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ مقامی لوگ نادرا کی مہربانی ) اللہ بخشے فلموں والی نادرانہیں( سے شناختی کارڈ تو نہیں بنا سکتے اور اگر کسی کے خوش قسمتی سے بنے ہیں تو نامعلوم وجوہات کی بناء پر بلاک کردئیے گئے ہیں جبکہ لر اور بر کے نام پر آنیوالے افغانیوں کے ماشاء اللہ شناختی کارڈ بھی ہیں زمینیں بھی کاروبار بھی اور پاسپورٹ بھی اور اسی پشاور میں یہ لوگ مزے سے زندگی گزار رہے ہیں کسی زمانے میں اس شہر کو پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا اب پتہ نہیں پھول کہاں غائب ہیں اورآج کل تو یہ حال ہے کہ گوبھی والی پھول بھی کمیاب ہیں کیونکہ سبزی مہنگی جو ہوگئی ہیں شائد پھولوں والا شہر اس وقت کہا جاتا تھا جب یہ شمال مغربی سرحدی صوبے کا دارالخلافہ تھا اب تو اسے دھماکوں کا شہر بھتہ خوروں کا شہر ڈاکوئوں اور چوروں کا شہر کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا -ساتھ میں گرد و غبار اور گندگی کا شہربھی پشاور شہر کے چاروں اطراف میں وردی والوں کے ناکے لگے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی دھماکے ہوتے ہیں پھر بھی لوگوں کو بھتے کے خطوط ملتے ہیں اور پھر بھی روڈ کنارے کسی کو دن دیہاڑے لوٹ لیا جاتا ہے شائد یہ اس کے نام کا اثر ہے جس میں کہا جاتا تھا کہ پشاور پیشہ آوروں کا شہر ہے اور وردی والے خواہ وہ کالے وردی والے ہوں یا خاکی وردی والے ان پیشہ وروں جو کہ بارود لیکر آتے ہیں یا گاڑیاں بارود سے لیکر شہر میں دھماکے کراتے ہیں یا پھر ڈاکوئوں کو تنگ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ پیشہ وروں کا شہر ہے اور شائد ان کے نظر میں یہ بھی ایک پیشہ ہی ہے - اس لئے وہ لوگ یہاں پر آکر کھلے عام اپنا کام کرجاتے ہیں -

پیخور خو پیخور دے کنہ یعنی پشاور تو پشاور ہے کا گانا ہمارے ایک دوست گلوکار نے گایاتھا جس میں اس نے تانگے پر سواری دکھائی تھی اب اس شہر میں تانگوں کی سواری حال حال ہی ملتی ہے ہر سڑک پر ہر چھٹا شخص اگر افغان مہاجر ملتا ہے تو روڈ پر چلنے والی ٹریفک میں ہر تیسرا رکشہ ہی ہے جن کے چلانے والوں میں اتنا اتفاق ہے کہ ایک ہی پرمٹ پر تین اور بعض مقامات پر پانچ پانچ رکشے چلتے ہیں -ہمارے پیارے شہر پشاور کی سیکورٹی اتنی زبردست ہے کہ شہر میں ہر جگہ جہاں پر تھانہ واقع ہے وہاں پر کام کرنے والے پولیس اہلکار رات کو چین کی نیند سوتے ہیں کیونکہ تھانوں کے دروازے بند ہو جاتے ہیں-ان کے تھانوں کے آگے پیچھے بڑی بڑی سیکورٹی وال لگا دئیے گئے ہیں تاکہ اس شہر کی شہریوں کی خدمت کرنے والے یہ پولیس اہلکار دن رات ذہنی تنائو سے بچے رہیں یہ الگ بات کہ بعض اوقات یہ اپنے جیب خرچے کیلئے شریف شہریوں کو ذہنی تنائو کا شکار کرتے ہیں کسی شریف آدمی کے جیب سے چرس نکالنا ان کے دو انگلیوں کا کمال ہوتا ہے اور پھر شریف آدمی اپنی عزت کی ڈر کی وجہ سے نذرانہ دیکر جان چھڑاتا ہے -

سڑکیں ہمارے صوبائی دارالحکومت پشاور کی ایسی ہیں کہ اگر کوئی کھانا ہضم کرنا چاہے تو صرف پشاور پریس کلب کے سامنے والی روڈ پر رکشے مزدا یا اپنی گاڑی میں گزر کرصرف پانچ میں اپنا کھانا ہضم کروا سکتا ہے اور اگر کوئی ہماری طرح خشاکی) بے وقعت(ہو تو وہ سائیکل پر اس مفت کی سروس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہی حال پورے شہر کی سڑکوں کا ہے کچھ خرچہ پانی سی اینڈ ڈبلیو والے ان سڑکوں کی تعمیر سے نکال لیتے ہیں اورکچھ سڑکیں ٹائون کمیٹی کے اہلکاروں کیلئے روزانہ کی بنیاد پرخرچہ پانی نکالنے کا باعث بن رہی ہیں توکچھ سڑکیںروڈ کنارے پارکنگ کی سہولت بھی دے رہی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس بہتی گنگا میں کنٹونمنٹ بورڈ والے بھی ہاتھ تو نہیں البتہ خود نہا رہے ہیںشیر شاہ سوری کی زمانے میں بننے والی سڑک کے بعض حصوں پر وردی والوں کا قبضہ ہے انہیں موت سے زیادہ ڈر لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سڑکوں پر بلاک اور پتہ نہیں کیا کیا انتظامات کردئیے ہیں کہ شائد موت کا فرشتہ بڑے بڑے بلاک کلاشنکوف اور وہاں پر کھڑے تندخو اور درشت لہجے میں بات کرنے والوں کو دیکھ کر ان کی طرف نہیں آئیگا -خیر کچھ سڑکیں ان لوگوں نے بلاک کردی ہے جس کے باعث ٹریفک کا حال یہ ہے کہ کسی زمانے میں باڑے کی بس اپنی تیزی اور کوہاٹ اڈے کی بس اپنی سستی کی وجہ سے مشہور تھی جبکہ اب تو یہ دونوں گاڑیاں یہ محمود و آیاز کی طرف ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتی ہیں-

یہ واحد شہر ہے جہاں پر پاپڑ بسکٹ اور روٹی میں تمیز کرنا موجودہ دور میں انتہائی مشکل ہے اس میں کچھ غلطی ہماری خواتین کی بھی ہے جنہوں نے گھروں میں روٹی پکانا چھوڑ دیا ہے اور اب ہم بھی اپنی خواتین کی طرح نکمے ہوگئے ہیں تیار روٹیاں بازار میں ملتی ہیں یہی وجہ ہے کہ لر اور بر کی آوازیں نکالنے والوں کے دور میں روٹی کا سائز پاپڑ تک آگیا -کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ صرف بیس روپے میں اس مہمان دوست شہر میں ایک وقت کا کھانا کھا سکتا ہے اب یہ حال 70 روپے تک پہنچ گیا ہے قہوہ جس کے بارے میں کہاجاتا تھا کہ اسے پینے اور پلانے کیلئے شہری لوگ ہر وقت تیار رہتے ہیں اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ پینے کیلئے پانی بھی اس شہر کے باسیوں کو نہیں ملتا- قہوہ تو دور کی بات ہے- خدا جانے آگے کیا ہوگا اس شہر میں زمین اور پیسے کی قیمت بڑھ رہی ہیں لیکن انسان کی قیمت گھٹ رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ کبھی کھبار ایک مرلے زمین پر سات جنازے اٹھتے ہیں تو کبھی دو روپے نہ دینے پر سکول جانے والے بچوں پر فائرنگ ہوتی ہیں - کسی زمانے میں پخ تونوں کو نسوار کی وجہ سے جاہل سمجھنے والے اب جان لیں کہ اب یہ لوگ بڑے سٹائل سے شیشہ پیتے نظر آتے ہیں شائد پخ تونوں نے یہ بات سنی ہے " چہ خر دا خرہ کم وی نو غوگ ئے دا پریکولے دے" یعنی گدھا اگر گدھے سے کم ہو تو اس کے کان کاٹنے چاہئیے شائد اس لئے ماڈرن ازم کے اس دور میں پخ تونوں نے نسوار کیساتھ ساتھ شیشے کا استعمال شروع کردیا ہے یہ اس شہرکا کمال ہے کہ ہر شخص خواہ وہ چوری میں پکڑا جائے کسی جھگڑے میں پھنس کرتھانے پہنچ جائے اس کیساتھ برتائو دہشت گردوں والاکیا جاتا ہے اور اگر خوش قسمت بھاگ جائے یا بدقسمتی سے فرار ہونے کی کوشش میں پولیس کی گولی کا نشانہ بن جائے تو پھر اسے دہشت گرد قرار دینا سب سے آسان کام ہے کیونکہ دہشت گردی کے نام پتہ فنڈز بھی آرہا ہے اور دہشت گردوں کو مارتے ہوئے کسی کا دل بھی نہیں دکھتا اس لئے ہر غریب آدمی جو ڈنڈے کی زد میں آجائے تو پھر وہ دہشت گرد ہے خواہ اس نے کسی کی مرغی ہی چوری کیوں نہ کی ہو اسے دہشت گرد ہی سمجھا اور مانا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب اس شہر میں لوگ بھی لاپتہ ہوتے ہیںاور انکی بوری میں بند لاشیں بھی مل جاتی ہیں -
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422078 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More