کیا شیعہ سنی اتحاد ممکن ہے؟

دس محرم الحرام یومِ عاشور کے موقع پر راولپنڈی کے راجہ بازار میں دو مذہبی گروہوں کے درمیان تصادم میں کئی قیمتی جانوں کا بڑی بے دریغی سے قتلِ عام کیا گیا۔ معصوم طالب علموں کو جانوروں کی طرح پیٹا گیا جمعہ کی نماز کے لئے آنے والے نمازیوں کو لہو لہان کیا گیا۔ گویا کہ د س محرم کے دن حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کی داستان اور یزیدیت کے کردار کو ایک بار پھر دہرایا گیا۔
اس افسوسناک واقع کے بعد حکومتی دعوے بھی سامنے آئے تو اپوزیشن کے نعرے بھی سننے کو ملے کسی نے کہا کہ بیرونی سازش ہے تو کوئی کہتا ہے کہ حکومت کی نا اہلی ہے۔ لیکن شاید حقیقت کچھ اور ہے۔ اس حادثہ کو خالصتاً بیرونی سازش کہنے والے شاید ماضی کے واقعات اور شیعہ سنی اختلافات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ذرا ماضی میں جھانکا جائے تو واقعات اور حقائق بتاتے ہیں کہ شیعہ سنی اختلاف کوئی نیا مسئلہ نہیں اور ان کا باہمی تصادم غیر فطری عمل نہیں۔ بلکہ شیعہ سنی اختلاف تو کافی دیر سے چلا آرہا ہے۔ ان کے عقائد میں کافی بنیادی اختلاف پایا جاتا ہے۔ حبِ علی ؓ اور بغضِ معاویہؓ کی بنیاد پر دونوں فریقین کئی بارمدِ مقابل ہوئے ہر محاذ پر اپنے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے نا صرف کوشاں نظر آئے بلکہ دونوں اطراف سے سر توڑ کوششیں جاری رہیں۔ گویا کہ یہ اختلاف ہر دور میں جاری و ساری رہا۔ یہ اختلاف اصل میں حضرت اما م حسینؓ کی شہاد ت سے بھی پہلے کا چلا آرہا ہے۔ جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ ؓ کا اختلاف ہوا تو امت اس وقت دو گروہوں میں بٹ گئی اور اسی امر کو مؤرخین اس اختلاف کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ اصل میں شیعہ سنی اختلاف اس وقت سے شروع ہوا جو آج تک قائم ہے۔ ان دونوں گروہوں کے بنیادی عقائد میں خاصا بنیادی فرق پایا جا تا ہے جو کہ شاید ان کے باہمی اختلاف کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس اختلاف کو ختم کرنے اور باہمی ہم آہنگی کے فروغ کے لئے کئی بار کوششیں کی گئیں اور آپس میں امن اور اتحاد سے رہنے کے عزم کو کئی بار دھرایاگیا مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ حکومتوں کے علاوہ کئی مذہبی جماعتوں نے بھی اس فرقہ وارانہ تشدد کو ختم کرنے کے لئے کوششیں کیں مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ حالیہ واقعات کے بعد اس سلسلہ میں بعض مذہبی حلقوں کے جانب سے بڑی اچھی تجویز دی گئی کے ایسے اجتماعات کے لئے ایک جگہ مختص کر دی جائے تاکہ اس قسم کی شر انگیزیوں سے بچا جا سکے اور عوام بھی پریشانی کا شکار نہ ہوں۔ لہذا حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ ماضی کے واقعات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کوئی ایسی حکمتِ عملی ترتیب دے جس سے اس قسم کے پر تشدد واقعات کی نا صرف حوصلہ شکنی ہو بلکہ ایسے واقعات کی روک تھام کو بھی یقینی بنایا جا سکے تاکہ مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات سے بچا جا سکے۔ اور اگر ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان اس اہم معاملہ پر توجہ نہیں دیتی اور اس معاملہ کے حل کو طول دیتی ہے تو یہ عمل شاید کسی خطرہ سے خالی نہ ہوگااور ملک پاکستان اس وقت ایسی کسی صورت حال کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

کیونکہ اگر یہ معاملہ حکومت یا فریقین کی جانب سے عدم توجہی کا شکار ہو گیا تو شاید یہ خون کا کھیل مزید طول پکڑ لے گا جو کہ اس وقت پاکستان کے مفاد میں نہیں۔

Hafiz Muhammed Faisal Khalid
About the Author: Hafiz Muhammed Faisal Khalid Read More Articles by Hafiz Muhammed Faisal Khalid: 72 Articles with 62681 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.