غالب کا عصری طاقت کے بارے اظہار خیال

طاقت اپنی ذات میں اٹل اور حرف آخر ہوتی ہے۔ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتی۔ اس کے کہے اور کیے کو آئین کا درجہ حاصل ہوتا۔ اس کی علمداری میں آنے والی ہر شے اور ہر ذی نفس اس کا تابع اور اس کے حضور جواب دہ ہوتا ہے۔ کسی کو اس کے کہے اور کیے پر لب کشائ کی اجازت نہیں۔ اس کے ظلم وستم پر جئے جئے کار کرنے والی زبانیں ہی سلامت رہتی ہیں۔ تنی گردنیں کٹ کر اس کے جوتوں کی ٹھوکر میں ہوتی ہیں۔ معافی درگزر صبر کی دولت سے وہ محروم ہوتی ہے۔

الله کی غیر تابع طاقت کے متعلق خوش کن کلمے اس عہد کی جی حضؤری کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ انہیں محض افسانوی اددب سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بے سری بے مہاری اور غیرتابع طاقت کا سوچ اپنی ذات سے باہر نہیں نکلتا۔ وہ اوروں کے لیے نہیں سوچتی اور دوسرے اس کے اہداف اور ترجیعحات میں نہیں ہوتے۔ ان کی حیثیت لیبر بیز سے زیادہ نہیں ہوتی ان کی زندگی اور موت اسی کے لیے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الله کی غیر تابع طاقت قاءم بلذات نہیں ہوتی۔ نسلوں کے بعد سہی زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔

شاعر کے پاس علامتیں استعارے اشارے اور کنائیے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے سہارے اپنے عہد کے معاملات کا اظہار کر دیتا ہے۔ غزل کا شاعر محبوب کا نام لے کر طاقت کے رویے طور اور وتیرے کا کھل کر اظہار کر دیتا ہے۔ اس کے پاس یہ بڑا کارگر اور زبردست ہھتیار ہے۔ اگر کسی عہد کی اصلی اور حقیقی صورت دیکھنا ہو تو شاعری کا پوری توجہ سے مطالعہ کیا جاءے۔ دودھ کا دودھ پانی سامنے آ جاءے گا۔ شاعر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مبالغہ کرتا ہے لیکن اس کا مبالغہ مورخ سے ٹن ٹءم کم ہوتا ہے۔ غالب دنیاءے شعر وادب میں اپنا الگ سے مقام رکھتے ہیں۔ ان کی غزل میں سو سے زیادہ شعر اس عہد کی تاریخ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ظفر کی شاعری گذشتہ کی شاعری ہے لیکن غالب کی شاعری بال سے باریک اور تلوار سے تیز دھار کی شاعری ہے۔ یہ بھی کہ اسے بات کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ آتا ہے۔

طاقت کے بارے میں نے جو عرض کیا اس کی سند میں غالب کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
بات پر واں زبان کٹتی ہے وہ کہیں اور سنا کرے کوئ
واں وہ اور کوئ قابل توجہ ہیں۔ اس سے اگلا شعر دیکھیں کس طرح پلنترا بدلا ہے:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئ
غالب دانستہ سب کچھ کہہ گیے ہیں اور اب لیپا پوچی کرنے کے ساتھ یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ یہی کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اس ذیل میں جنوں کی قبا اوڑھ رہے ہیں۔ وہ پورے ہوش میں ہیں اور جو لکھ رہے ہیں پوری ذمہ داری سے لکھ رہے ہیں۔ پوری غزل کو دیکھ لیں اس عہد کی سچی تصویر ہے۔ لوگوں کی حالت زار کے تحت کئ رنگ اختیار کرتے ہیں۔ کبھی ناصح بنتے تو ہیں کبھی مولوی تو کہیں مورخ۔ ترغیب اور بغاوت جوابی کاروائ کی تلقین بھی ملتی ہے۔ حضور کریم کی حدیث کو کوڈ کرتے ہیں۔
پہلا شعر اور آخری شعر قاری کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ شک و شبہ کی کسی سطع پر گنجاءش ہی نہیں رہتی۔

ابن مریم ہوا کرے کوئ میرے دکھ کی دوا کرے کوئ
مرض نہیں‘ دکھ۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔ اب آخری شعر ملاحظہ ہو:
جب توقع‘ اٹھ گئ غالب کیوں کسی کا گلہ کرے کوئ
دیسی طاقت کی موت کا کھلا اعلان ہے۔ اس میں مجموعی آپسی حالات اور تعلقات کا تذکرہ بھی ہے۔ اس عہد کے مجموعی رویے اور طور وانداز کی بھی نشاندہی ملتی ہے۔ غیر متوازن منتشر اور ذات تک محدود شخصی چلن کو اس سے بڑھ کر کھلے انداز میں واضع نہیں کیا جا سکتا۔ غزل کا ہر شعر عدم آسودگی اور بےسکونی کی تصویر ہے ورنہ غالب کوئ مصلح اور عملی پیر یا صوفی نہ تھے۔ تصوف کے اشعار مل جانے کی وجہ سے انہیں خواجہ درد کی طرح کا صوفی قرار نہیں دیا سکتا۔ میرے خیال میں اس غزل کے چوتھے شعر اور مجموعی تشریح یہی بنتی ہے تاہم میرا خیال حرف آخر کا درجہ نہیں رکھتا۔

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 191268 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.