عقابوں سے شکارشکاری - عقابوں کی تربیت اور خصوصیات

میدانوں ،دریاؤں اورصحراؤں کی وسیع اور کشادہ سرحدوں کو برق رفتاری سے عبور کرنے والے عقاب انسانی تاریخ میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں خنجر جیسی خمیدہ چونچ ، نوکیلے پنجے، بادبانوں کی مانند مضبوط اور کشادہ پَروں اور غضب کی بینائی کے حامل عقاب جب بلند پرواز کے دوران غوطہ لگا کر شکار پر جھپٹتے ہیں تو یہ حیرت انگیز عمل انہیں شکاری پرندوں میں منفرد بناتا ہے اسی صلاحیت کے باعث با دشاہ ، نواب، راجہ اور مہاراجہ تفریح طبع اوروز مرہ کے اعصاب شکن ماحول سے فرار حاصل کرنے کے لئے زمانہ قدیم سے عقابوں کو پالتے رہے ہیں اوران کی شکار ی صلاحیت سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں عقابوں کے زریعے پرندوں کے شکار کا یہ مشغلہ آج نہ صرف پوری دنیا میں باقاعدہ ایک کھیل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے بل کہ تند خو عقابوں کی نگہ داشت، افزائش اوران کو شکار کے لئے سُدھانے کے ایسے مراکز بھی قائم ہوچکے ہیں جہاں گرم مزاج عقابوں کو اس طرح تربیت دی جاتی ہے کہ وہ شکار کرنے کے بعد پلٹ کر اپنے مالک یا انسٹرکٹر کے پاس واپس آئیں تربیت کے اس دشوار عمل کو فیلکونری کہا جاتا ہے جس کا ایک تاریخی تسلسل ہے اور یہی ہمارا آج کا موضوع ہے۔

عقابوں سے شکار اور تاریخی تسلسل:
تاریخی لحاظ سے عقابو ں کو سُدھانے کے بعد ان سے شکار کرنے کے ابتدائی شواہد اہل مصر، اہل فارس، جاپانیوں،چینیوں، میسوپوٹیما(موجودہ عراق اور شام)اورمشرق بعید کے علا قوں سے ملتے ہیں اس حوالے سے سب سے پہلا ثبوت722قبل مسیح میں ’آشورین قوم‘ کے عہد سے ملتا ہے جہاں’ خورش آباد‘ شہر کے آثار میں ملنے والے محل ’ سارگون ‘ کی ایک محراب کے پس منظر میں ایک شخص کی تصویر ہے جس کی کلائی پربیٹھا عقاب شکار کے لئے پَر تولتا نظرآتا ہے اس دل فریب دریافت کا سہرا اٹھارویں صدی کے مشہور برطانوی ماہرآثاریات ’ اے ایچ لے یارڈ‘کے سر باندھا جاتا ہے۔

چھے سو اسی قبل مسیح میں چین اور جاپان کے تاریخی مقامات سے بھی سُدھائے ہوئے شکاری عقابوں کا ثبوت ملتا ہے تین سو پچپن عیسوی میں لکھی جانے والی جاپانی کلاسیکل ادب کی دوسری سب سے قدیم کتاب’ نی ہون شوکی‘میں عقابوں کی شکاری صلاحیتوں کا ذکر موجود ہے اسی طرح دوسری سے چوتھی صدی عیسوی کے درمیان جرمن اقوام کے ایک قبیلے’ گوتھک‘ کی فیلکونری میں دلچسپی عروج پر تھی۔
عقابوں کو بطور ترتیب یافتہ شکاری استعمال کرنے کے حوالے سے یورپی تاریخ میں چار سوصدی عیسوی میں ذکر آیا ہے یہ وہ زمانہ ہے جب ’ ہن ‘ اور ’آلان‘ اقوام مشرق سے یورپ پر حملہ آور ہوئیں تھیں پانچویں صدی میں رومن بادشاہ’ اویٹس‘نے جب گوتھک قبائل کے ہمراہ مل کر ’ہن ‘قبیلے کے خلاف جنگ لڑی تو اس دوران اُس نے گوتھک افرادسے عقابوں اور ان سے شکار کی مہارت حاصل کی اس طرح ’ اویٹس‘وہ اولین شخص تھا جس نے سُدھائے ہوئے شکاری عقابوں کے کھیل کو روم میں متعارف کروایا اِس عہد کے ایک رومن محل کے فرش پر ٹائلوں کے ٹکڑوں سے ایک عقاب کو اس کے مالک کے ہمراہ بطخ کا شکار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

فیلکونری کے حوالے سے تاریخی واقعات کے تسلسل میں دو صدیوں کے وقفے کے بعد آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں سُدھائے ہوئے شکاری عقابوں کے کھیل فیلکونری کی ابتداء مشرق وسطی میں ہوتی ہے جو پورے جوش و خروش سے تاحال جاری ہے آٹھ سو پچھتر عیسوی میں مغربی یورپ اور جنوبی اور مشرقی برطانیہ کے قبائل میں بھی فیلکونری عروج پر دکھائی دیتی ہے شواہد کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ مشہور جرمن بادشاہ فریڈرک دوئم وہ پہلا یورپی شخص تھا جس نے عقابوں کے زریعے شکار میں دلچسپی ظاہر کی تھی اور اِس کے لئے اُس نے باقاعدہ عربوں سے عقابوں کو سُدھانے اور عقابوں سے شکار کرنے کا طریقہ سیکھا تھا بل کہ اسی حوالے سے بادشاہ فریڈرک دوئم نے بارہ سو انتیس میں عقابوں کو شکار کی تربیت دینے کے ایک عربی ماہر’ مامیون‘کی عربی میں لکھی گئی کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میں کروایا تھا اور بارہ سو اکتالیس میں اس نے خود اس کتاب میں ترامیم کیں تھیں جس سے اُس کی عقابوں کے بارے میں معلومات اور مہارت کی تصدیق ہوتی ہے اِس کتاب کا انگریزی ترجمہ ’ دی آرٹ آف ہنٹنگ ود برڈز‘کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے ۔

تیرہ سو نوے کی دہائی میں مشہور ہسپانوی مورخ اور ادیب ’ پیرو لوپیز ڈی آلیا‘نے ہسپانوی زبان میں سُدھائے ہوئے عقابوں کے شکار کے حوالے سے ایک جامع اور مستند کتاب ’ لیبرو ڈی لا کازا ڈی لاس ایویس‘لکھی تھی چودہ سو چھیا سی میں مشہور کتاب ’ دی بک آف سینٹ البانس‘منظر عام پر آئی جس میں فیلکونری کے کھیل پر سیر حاصل بحث کی گئی واضح رہے یہ کتاب عقابوں کو شکار کی تربیت دینے کے حوالے سے ابھی تک مستند ترین کتاب خیال کی جاتی ہے سولھویں صدی کا اوائل فیلکونری کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جب جاپان کے جنگ جو سردار ’ اشاکیورا نوری کیج‘نے شکاری عقابوں کی ایک اہم نسل ’ گوش ہاک‘کی کھلی فضاء کے بجائے پنجرے میں قید کے دوران کامیابی سے افزائش کا طریقہ دریافت کیا ۔

عقابوں کی مدد سے پرندے شکار کرنا قرون وسطی کے یورپی معاشرے اور جاپان کے نوابوں میں بھی خاصہ مقبول تھااور وہ اسے ایک کھیل کی حیثیت دیتے تھے درحقیقت اس کھیل کے زریعے وہ اپنی پر تعیش اور اعلی معیار زندگی کا اظہار کرتے تھے کیوں کہ عقابوں اور بازوں کے انڈے حاصل کرنا ایک دشوارکام تھا جب کے انڈوں میں سے بچے نکالنا اور انہیں شکار کے لئے تربیت دینا دقت طلب، وقت طلب اور مہنگا عمل تھا جس کے لئے وسیع میدانی علاقہ بھی نہایت ضروری ہوتا تھا یہی وجہ تھی کہ نوابین، جاگیرداراور امراء اپنے تربیت یافتہ عقابوں کی تصاویر اپنے گھر کے درو دیوار پر منقش کرواتے تھے اسی طرح اس وقت کے ادبی شہ پاروں میں عقابوں کی بلندپروازی ، مشاقی اور تیزی کو بہادری کی علامت کے طور پر بیان کیا جاتا رہا ہے ۔

عقابوں سے شکار اور عرب ثقافت:
عرب بدوؤں کی صحرائی ثقافت کا ایک اہم حصہ عقابوں کو سُدھا کر ان سے شکار کرنا ہے اور شکار کو بطور غذا استعمال کرنا ہے اس ضمن میں مشرق وسطی میں بڑے پیمانے پر دولت کا استعمال کیا جاتا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق متحدہ عرب امارات میں عرب شیوخ عقابوں کو سُدھانے، انہیں پالنے اور ان کی افزائش نسل پر سالانہ ستائیس ملین ڈالر خرچ کرتے ہیں جب کہ صرف دبئی اور ابوظہبی میں عقابوں کے علاج معالجے کے لئے کئی شاندار ہسپتال بھی بنائے گئے ہیں جس میں ابوظہبی ائیرپورٹ سے پینسٹھ میل کی دوری پر واقع علاقے’ سویحان‘ میں قائم’ ابوظہبی فیلکن ہسپتال‘ اپنی نوعیت کا منفرد ہسپتال ہے جس میں عقابوں کے حسن اور آرائش کے لئے بیوٹی پارلر بھی موجود ہے جہاں ان کے پنجوں، پَروں اور چونچ کی تراش خراش کی جاتی ہےجب کہ مختلف مواقعوں پرعقابوں کے شکاری کھیل کے علاوہ اُن کا مقابلہ حسن بھی منعقد کیا جاتا ہے واضح رہے دنیا میں موجود سُدھائے ہوئے شکاری عقابوں میں سے نصف عقابوں کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے۔

متحدہ عرب امارات کے بانی اور رہنما عزت ماب شیخ زید بن سلطان ال نیہان نے’ فیلکونری بطور ایک کھیل ‘کے عنوان سے عربی میں ایک زبردست کتاب تحریر کی ہے جس میں شکار اورعقابوں کی تربیت کی بابت قابل قدر معلومات فراہم کی گئی ہے اس کے علاوہ انہوں نے شکاری پرندوں کے زریعے کئے گئے شکارکو حلال غذا قرار دینے کے حوالے سے سورۃ المائدہ کی ابتدائی آیات کا حوالہ بھی دیا ہے واضح رہے فیلکونری زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج کا حصہ تھی لہذا ظہور اسلام کے بعد عربوں کا خیال تھا کہ شاید پرندوں کے زریعے کئے گئے شکار کو متروک قرار دے دیا جائے گا چناں چہ جب انہوں نے اِس حوالے سے رسول اللہﷺ سے رجوع کیا توجواب میں سورۃ المائدہ کی مذکورہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں تھیں۔

شیخ زید بن سلطان ال نیہان نے تربیت یافتہ عقابوں کی مدد سے پرندے شکار کرنے کے عمل کو عرب معاشرے کے اجتماعی میل جول اور باہمی اخوت کا زبردست مظہر قرار دیا ہے جس کے دوران شکار میں شریک تمام افراد رتبے اور حیثیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یک جان ہوجاتے ہیں اسی کتاب میں شیخ زید نے تحریر کیا ہے کہ قبل از اسلام عربوں میں عقابوں کو سُدھا کر شکار کے لئے تیار کرنے والا پہلا شخص ’ ال حرت بن معاویہ بن تہاور‘ تھا یہ سلسلہ طلوع اسلام کے بعد بھی جاری رہا۔

بنو ا مّیہ کے عہد میں حکمران یزید اول بن معاویہؓ(680ء تا683ء) اورہشام بن عبدالمالک(724ء تا 743ء )سُدھائے ہوئے عقابوں کے زریعے پرندوں کے شکار کے انتہائی شوقین تھے بل کہ ہشام بن عبدالمالک نے تو شکار کے دوران تمام عمل کی منظر کشی کرنے کا بھی حکم دیا ہوا تھا اسی طرح خلافت بنو عباس کے پہلے خلیفہ ’ ابوال عباس بن عبداللہ (749ء تا 754ء)جو ’ سفّاح‘کی کنیت سے مشہور تھے اوردوسرے خلیفہ ابو جعفر ال منصور(754ء تا 775ء) اورخلیفہ معتصم باللہ( 833ء تا 842ء)بھی عقابوں کے زریعے شکار سے لطف اندوز ہوتے تھے کہا جاتا ہے کہ معتصم باللہ اپنے عہد میں ہر سال پچیس لاکھ دینار اس مد میں خرچ کرتے تھے اورانہوں نے یومیہ آمدنی کا ایک فیصد اسی تفریح کے لئے مختص کر رکھا تھا جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عربوں میں فیلکونری(Falconry)کس قدر مقبول اور اہم تھی یہاں تک کہ عباسی خلیفہ المہدی(775ء تا 785ء ) کو بائزنطینی حکمران’ مائیکل ڈی لیون‘نے فیلکونری کے حوالے سے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب پیش کر کے خلیفہ کا دل جیتنے کی کوشش کی تھی۔

مشرق وسطی کے علاوہ قازقستان، کرغستان اور منگولیا میں بھی عقابوں کی مدد سے شکار کو بطور کھیل پسند کیا جاتا ہے بل کہ ان علاقوں میں تو گھوڑوں پر سوار ہو کرعقابوں کا تعاقب کرتے ہوئے شکار کیا جاتا ہے جنوبی کوریا میں بھی فیلکونری کو ثقافتی ورثے کی اہمیت حاصل ہے جاپان میں فیلکونری کے کھیل کو ’ تاکاگاری‘ کہا جاتا ہے اور اسے اپنے تاریخی پس منظر کے ساتھ خاصی مقبولیت حاصل ہے ا سی طرح آسٹریلیا، جنوبی افریقہ ، برطانیہ، فرانس ، ہالینڈ اور یورپ کے اکثر ممالک میں فیلکونری کو بطور ثقافتی کھیل اور صحت مند تفریح کے حوالے سے پسند کیا جاتا ہے امریکہ میں بھی فیلکونری خاصہ مقبول کھیل ہے جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انیس سو چونتیس میں یہاں پہلا فیلکونری کلب قائم کیا گیا تھا اور آج بھی امریکہ میں ریاست ہوائی اور واشنگٹن ڈی سی( ڈسٹرکٹ آف کولمبیا) کے علاوہ تمام شہروں اور ریاستوں میں سُدھائے ہوئے عقابوں کی مدد سے شکار کرنے کو بطور کھیل قانونی حیثیت حاصل ہے ۔

عقاب اور اشیائے تربیت:
عقاب ایک خطرناک اور زبردست حسِ شکار رکھنے والا پرندہ ہے لہذا عقابوں کو شکار کے لئے سُدھانا خاصا مشکل اور دشوار عمل ہے غیر تربیت یافتہ عقاب کو پرسکون رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی آنکھوں کو ڈھانکنے کا انتظام ہوآنکھوں کے گرد اند ھیرا کرنے والی اس ٹوپی کو انگریزی میں ’ ہڈ‘اور عربی میں ’البرقع‘کہتے ہیں واضح رہے یہ ’ہڈ‘عقاب کو تربیت یافتہ ہونے کے بعد بھی پہنانا ضروری ہے اس کے علاوہ شکاری عقاب کے پیروں میںآواز والے گھنگرو یا چھلے بھی ڈالے جاتے ہیں اور ساتھ ہی دونوں پیروں میں مضبوط چمڑے کی پٹیاں جنہیں عربی میں ’ ال مرسل ‘ کہتے ہیں بھی باندھی جاتی ہیں تاکہ پرندہ دوران تربیت غیر ضروری لمبی اڑان نہ بھر سکے اور مالک کی گرفت میں رہے ان پٹیوں کے علاوہ ایک لمبی رسی جسے عربی میں ’ اسبق‘ کہتے ہیں چرخی سے لپٹی ہوئی ہوتی ہے جو نیم تربیت یافتہ عقاب کو محدود مگر لمبی اڑان بھرنے کی اجازت دیتی ہے یہ اڑان عموما پچیس میٹر تک ہوتی ہے اس کے علاوہ سخت چمڑے کے دستانے جسے عربی میں ’ ال منجل‘ کہتے ہیں بہت اہم ہیں جو تربیت دینے والے کے ہاتھوں کو عقابوں کے سخت پنجوں سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور عقاب کو شکار کی جانب رخ کر کے اڑانے میں بھی مددگار ہوتے ہیں ایک اور اہم چیزعقابوں کی رہائش گاہ یعنی پنجرے کی بناوٹ ہے جو ا س طرح ہونی چاہیے کہ وہ باآسانی اپنے پَروں کو چاروں طرف پھیلاسکیں۔

اگرچہ عقابوں کی غذا کے حوالے سے مختلف معیارات ہیں تاہم ایک امَر پر تمام شکاریوں کا اتفاق ہے کہ خوراک ایسی ہونی چاہیے جس سے پرندوں کا وزن غیر ضروری طور پر نہ بڑھے اور وہ پرسکون طریقے سے پرواز کر سکیں اور غیر محسوس انداز میں شکار پر جھپٹ سکیں یہی وجہ ہے کہ عقابوں کو شکارکی تربیت دینے کے حوالے سے سب سے اہم کردار چمڑے کے بنے ہوئے مصنوعی پرندوںیا دیگر کھانے کی اشیاء کی مصنوعی شکلوں کا ہوتا ہے جنہیں دوران تربیت زمین پر دیکھتے ہی عقاب تیر کی مانند جھپٹتا ہے لیکن جب وہ اسے کھا نہیں پاتا اور اس کے بدلے میں مالک اپنے ہاتھ پر پہنے ہوئے دستانے پر رکھی اصلی غذا اُسے کھانے کودیتا ہے تو دونوں کے درمیان اُنسیت پیدا ہونے لگتی ہے لیکن چوں کہ عقاب ایک تند خو پرندہ ہے لہذا اس کی اپنے تربیت دینے والے انسٹرکٹر سے دوستی نہیں ہوتی بل کہ ان دونوں کے درمیان صرف ضرورت کا رشتہ قائم ہوتا ہے یعنی عقاب بہتر خوراک کے لئے مالک کے پاس واپس آتا ہے جب کہ مالک کی خواہش ہوتی ہے کہ پرندہ اڑان کے بعد فرار نہ ہو بل کہ بہتر خوراک کی طلب میں اس کے پاس ہی آکر اُترے۔

تربیت کے دوسرے مرحلے میں انسٹرکٹر چمڑے کی مصنوعی چڑیا کو باریک رسی کی مدد سے اپنے سر کے گرد دائرے کی شکل میں بار بارگھوماتا ہے تاکہ عقاب دوران پرواز شکار پر جھپٹنے کے لئے پینترے بدلنے میں ماہر ہوسکے۔ عموما دوران تربیت کھلا وسیع میدان منتخب کیاجاتا ہے تاکہ پرندے سے بندھی ہوئی ڈوری یا رسی کا کسی درخت وغیرہ سے الجھنے کا امکان نہ رہے تربیت کے اِن مراحل سے گذرنے کے بعد انسٹرکٹر عقاب کو آزاد اڑان بھر کر شکار کرنے کی اجازت دیتا ہے تاہم اس سے قبل ضروری ہے کہ مالک عقاب کواس کی من پسند غذا کھلاکر اپنی آوازیا حرکات کی جانب متوجہ کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرچکا ہو تا کہ مقابلوں کے دوران عقاب شکار کرنے کے بعد مالک کے ہاتھ پر ہی اترے اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب عقاب غوطہ لگاکر شکار کو اپنی گرفت میں لینے کے بعد انسٹرکٹر کے ہاتھ پر اترتا ہے تو انسٹرکٹر کو محنت کا صلہ مل جاتا ہے واضح رہے عقاب کی ا ڑ ان، غوطہ، رفتار، اسٹیمنا،شکار کی تعداد، شکار پر گرفت اور انسٹرکٹر کے ہاتھ پر مہارت سے اترنے کی بنیاد پر ہی مقابلوں میں فاتح عقاب کا تعین کیا جاتا ہے۔
اگرچہ فیلکونری کو عالمی سطح پر کھیل کا درجہ حاصل ہے تاہم کچھ حلقوں کی جانب سے اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے اور اسے وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دیا جاتا ہے لیکن دوسری جانب ماضی سے جڑی یہ روایت وقت گذرنے کے ساتھ مزید مقبول ہوتی جارہی ہے جس کا ثبوت یورپ، امریکہ اور مشرق وسطی میں فیلکونری کے مقابلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے ان مقابلوں میں نہ صرف کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں بل کہ مقابلوں کی تیاری سے لے کر مقابلوں کے انعقاد تک ہزاروں افرادکوروزگار بھی میسر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ افراد سال بھر ان میلوں ٹھیلوں اور مقابلوں کا شدت سے انتظار کرتے ہیں جن میں تربیت یافتہ عقاب جہاں ایک طرف امراء کے لئے تفریح کا سامان پیدا کرتے ہیں تو دوسری جانب ہنرمند اپنی محنت کا صلہ پاتے ہیں ۔

فیلکونری کی بین لااقوامی تنظیمیں:
وہ تربیت یافتہ شکاری عقاب جو کھیل میں حصہ لیتے ہیں ان کی تحفظ کی بین الااقوامی تنظیم انیس سو اڑسٹھ میں قائم کی گئی تھی جسے’ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار فیلکونری اینڈ کنزرویشن آف برڈ پرے‘ کہا جاتا ہے اس تنظیم کے اس وقت اڑتالیس ممالک میں انہترکلب قائم ہیں جب کہ دنیا بھر میں موجود ممبروں کی تعداد ساڑھے اٹھائیس ہزارہے اس کے علاوہ شمالی امریکہ کی فیلکونرز ایسو سی ایشن جس میں امریکہ ، کینیڈا اور میکسیکو اہم کردار ادا کرتے ہیں انیس سو اکسٹھ سے سرگرم عمل ہے اس تنظیم کی داغ بیل کینیڈا کے مشہور مصنف اور جنگلی حیات کے ماہر’ فرینک بیب ‘نے ڈالی تھی جو عقابوں کے بارے میں کئی مستند کتابوں کے مصنف بھی ہیں یہ دونوں تنظیمیں بین الااقوامی سطح پر عقابوں کی افزائش، شکار کی تربیت اور مقابلوں کے انعقاد کے حوالے سے عالمی شناخت رکھتی ہیں ان تنظیموں کے علاوہ مشرق وسطی میں بھی کئی قابل زکر تنظیمیں ہیں جو سُدھائے ہوئے عقابوں سے شکار کی سرگرمیاں پورے سال جاری رکھتی ہیں ۔

تِلور (Houbara Bustard) :
عقاب اور تِلور کا چولی دامن کا ساتھ ہے کیوں کہ عقابوں کا من پسند شکار تِلورہے تو دوسری جانب تِلور کا گوشت عربوں کا من پسند کھانا ہے تِلور نہ صرف اڑنے میں تیزرفتار پرندہ ہے بل کہ دوران پرواز عقاب کو کافی تنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے دوران وہ حملہ آور عقاب کی جانب اپنے دفاع کے لئے ایک مخصو ص بدبو دار مائع کی پھوار بھی پھینکتا ہے جہاں تک تِلور کی جسامت کا تعلق ہے تو تِلور کی اونچائی ساٹھ سنٹی میٹر تک ہوتی ہے جب کہ پَروں کا پھیلاؤ ایک سو چالیس سینٹی میٹر تک ہوتا ہے تِلور کا رنگ بھورا اور مٹیالا ہوتا ہے اور کثیر تعداد میں صحراؤں میں پایا جاتا ہے بل خصوص پاکستان کے علاقے رحیم یار خان سے متصل صحرائے چولستان تِلور کا اہم مسکن ہے اس کے علاوہ شمالی افریقہ، ایران اور دنیا کے دیگر خشک صحرائی علاقے بھی تِلور کے اہم مراکز ہیں تِلور کی نگہ داشت اور افزائش کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان ال نیہان(مرحوم) اور سعودی عرب کے ولی عہد شیخ سلطان بن عبدالعزیزکی خدمات ناقابل فراموش ہیں جن کی سربراہی میں پرندوں کی حفاظت اور افزائش کے حوالے سے دنیا بھر میں اَن گنت منصوبے روبہ عمل ہیں یاد رہے صوبہ بلوچستان کا سرکاری پرندہ بھی تِلور ہے ۔

عقابوں کی اِقسام:
فیلکونری کے شائق امراء اور عام افرادشکار کے لئے مختلف اقسام کے عقاب استعمال کرتے ہیں جنہیں مختلف علاقوں میں کہیں باز اورکہیں شاہین کہا جاتا ہے ۔چند مشہور شکاری عقابوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہیں ۔

۱۔ پیری گرائین عقاب(Peregrine Falcons) :
پیری گرائین جسے عربی میں ’ شاہین‘ کہتے ہیں دورانِ پرواز دو سو میل فی گھنٹے کی رفتار سے غوطہ مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو شکار پر جھپٹنے کے حوالے سے دنیا میں کسی بھی جاندار کی تیز ترین رفتار ہے زبردست شکاری صلاحیت رکھنے وا لے پیری گرائین عقاب کی سترہ زیلی اقسام بھی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں جو زیادہ تر پہاڑی سلسلوں، دریائی وادیوں اور ساحلوں کے نزدیک پائی جاتی ہیں اس عقاب کی جسامت ایک سے دو فٹ تک ہوتی ہے جب کے پَروں کا پھیلاؤڈھائی سے پونے چار فٹ تک ہوتا ہے مادہ نر سے نسبتا بڑی ہوتی ہے اسی نسبت سے نر کا وزن چار سو چالیس سے سات سو پچاس گرام جب کے مادہ کا نوسو دس سے پندرہ سو گرام کے درمیان ہوتا ہے یہ پرندہ لگ بھگ تین ہزار سال سے شکار کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔

۲۔صقر عقاب) (Saker Falcon :
صقر عقاب جسے عربی میں ’ صقر حر‘ کہتے ہیں مشرقی یورپ، ایشیاء کے شمال مشرقی خطے منچوریا، جزیرہ نما عرب ،چین اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں پایا جاتا ہے یہ ایک بڑی جسامت کا شکاری عقاب ہے جس کے پَروں کا پھیلاؤ چار سے ساڑھے چار فٹ تک ہوتا ہے مشرق وسطی میں اس عقاب کو خاص اہمیت حاصل ہے اس کے علاوہ صقر عقاب ہنگری کا قومی پرندہ بھی ہے جسے مقامی زبان میں’ تراول‘کہا جاتا ہے ۔

۳۔ہیرس عقاب (Harris\'s Falcon):
ہیرس عقاب شکاریوں کا پسندیدہ پرندہ ہے جو نہایت برق رفتاری سے اپنے شکار پر جھپٹتا ہے درمیانی سائز کے اس عقاب کے پَروں کا پھیلاؤ ساڑھے تین فٹ کے لگ بھگ ہوتا ہے اس پرندے کا مسکن زیادہ تر جنوبی امریکہ میں چلی اور ارجنٹائن میں ہے جب کہ برطانیہ میں بھی پایا جاتا ہے اس پرندے کی ایک خاصیت اس کا گروہ کی شکل میں شکار کرنا بھی ہے۔

۴۔گوش عقاب(Goshawk)
لمبی دم اور چھوٹے بازؤں والی درمیانی جسامت کا یہ عقاب شکار میں نہایت مشاق ہے کینیڈا اور جنوبی امریکہ کے علاوہ جنوبی ایشیاء میں بھی پایا جاتا ہے اس نسل کے عقابوں کی کامیابی سے مصنوعی افزائش بھی کی گئی ہے ۔

۵۔ گئیرعقاب(Gyrfalcon)
گئیر عقاب جسے عربی میں ’ سنقر‘ کہتے ہیں تینتالیس سے اکیاون انچ پَروں کے پھیلاؤ کے باعث عقابوں کی چند بڑی نسلوں میں شمار کیا جاتا ہے اپنی جسامت اور شکاری صلاحیت کے باعث اسے بادشاہ عقاب بھی کہا جاتا ہے یہ پرندہ کئی ممالک کے سرکاری نشان کا حصہ بھی ہے شمالی امریکہ ، یورپ ، ایشیاء اور بحر منجمد شمالی کے ساحلی علاقے اس کے مسکن ہیں۔

۶۔لانر عقاب(Lanner Falcon)
عربی میں ’صقر وکری‘ کے نام سے منسوب براعظم افریقہ، جنوب مشرقی یورپ اور ایشیاء میں پایا جانے والا یہ عقاب بھی جسامت میں تقریبا گئیر عقاب کے ہم پلہ ہوتا ہے اور زبردست شکاری صلاحیت کا حامل ہوتا ہے ۔

۷۔پراآئیری عقاب(Prairie Falcon)
شمالی امریکہ میں شکاری عقابوں کے شائق افراد کا پسندیدہ پرندہ ہے جو جسامت میں پیری گرائین عقاب جتنا ہے مگر مخصوص ماحول میں غضب کا شکاری ہے۔

ان عقابوں کے علاوہ امرعقاب، اپلوموڈوعقاب، باربری عقاب،سیاہ عقاب، بھورا عقاب،جنگلی عقاب،لافنگ عقاب،اورنج بریسٹ عقاب، ریڈ فوٹڈعقاب، سرخ گردن والا عقاب، سوٹی عقاب اور ٹائیٹا عقاب بھی شکار کے حوالے سے قابل ذکر ہیں جو گلہری، خرگوش، چھوٹی لو مڑی، تیتر، چکور اور بطخ وغیرہ کو بھی شکار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ATEEQ AHMED AZMI
About the Author: ATEEQ AHMED AZMI Read More Articles by ATEEQ AHMED AZMI: 26 Articles with 109774 views I'm freelance feature essayist and self-employed translator... View More