سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے سالوں میں دُنیا بھرکے لوگ شدید
پریشانی میں مبتلاء ہونے والے ہیں۔بیماریاں بڑھنے والی ہیں اوربیماریاں
پھیلانے والے بھی تیزی سے متحرک ہوتے جا رہے ہیں۔یہاں وضاحت کرنا ضروری ہے
کہ میرے نزدیک بیماریاں پھیلانے والے کون ہیں!!!کرہ ارض پر ’’اشرف
المخلوقات‘‘کی تباہی کا سبب وہ’’جِن‘‘ہیں جوخود کومعاشرے سے دور رکھ کر
اپنی الگ دُنیا بسانا چاہتے ہیں۔میں اپنی زبان اُس مخلوق کو ’’سیاستدان‘‘کہتا
ہوں۔دُنیا کا کوئی بھی ملک ہو ’’ سیاستدانوں ‘‘ سے پاک نہیں رہا۔جمہوریت کے
نام پر سیاستدانوں نے جس قدر کرہ ارض پر تفریق اور نفرت پیدا کر دی ہے اس
کا نتیجہ’’اشرف المخلوقات‘‘کے لئے بہت ہی خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔جہاں خالقِ
حقیقی نے ہر انسان کی شکل،بناوٹ اور رنگ میں فرق رکھا ہے،وہاں ہر انسان کی
سوچ بھی مختلف بنائی ہے۔جب خالقِ حقیقی نے ہر شخص کی سوچ مختلف بنائی ہے تو
یہ کیسے ممکن ہے کہ جمہوریت کے نام پر ہر شخص ایک ہی رائے رکھے اور اُس
رائے کے حق میں سبھی انسان متفق ہوں؟ایسا ممکن ہی نہیں!!!
اگر آج یہ اعلان کیا جائے کہ ہر شخص کو اجازت ہے کہ وہ اپنے علاقے کا
بادشاہ بن سکتا ہے۔تو آنے والے چند سالوں میں اس’’کرہ ارض‘‘ پر شاید ہی
کوئی انسان زندہ بچے۔کیونکہ ہر شخص کی کوشش یہی ہوگی کہ اپنے علاقے کے ساتھ
ساتھ ہمسایوں کے علاقے پر بھی اپنا قبضہ جمایا جائے اورپھر آہستہ آہستہ آگے
بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔یہی سوچ جب عوام سوچتے ہیں تو وہ ایک حد تک
ڈرے ہوئے اور محتاط رہ کر یہ سوچتے ہیں کیونکہ وہ پس پردہ ہوتے ہیں،لیکن یہ
سوچ جب سیاستدان سرِ عام سوچتے ہوئے عوام کے سامنے رکھتے ہیں تواُن کے
سوچنے کا معیار، جذبات اور احساسات ہی کُچھ اور ہوتے ہیں۔سیاستدانوں کے
اُنہی جذبات اور احساسات کا یہ نتیجہ ہے کہ آج دُنیاکے ہر ملک میں بد
امنی،بے چینی،لاپرواہی،خود غرضی،لالچ،جھوٹ کی انتہاء،دولت حاصل کرنے کی دوڑ
اور انسانی حقوق کی پامالی بڑھتی جا رہی ہے۔ان تمام وجوہات کا اثردُنیا بھر
کے لوگ میڈیا کے ذریعے گھر بیٹھے دیکھتے ہیں۔پھر اُن لوگوں کے دل میں بھی
بلا وجہ کے اضافی حقوق حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے اپنے
علاقوں میں بڑا بننے کی کوشش کرتے ہیں اور فساد پیدا کر بیٹھتے ہیں۔
اشرف المخلوقات میں تفریق پھیلانے والے سیاستدانوں کی باتوں پر یقین کرنے
سے پہلے اگر خود یہ سوچ لیا جائے کہ وہ آخر کہہ کیا رہے ہیں یا ہمیں کس بات
کے لئے اُکسا رہے ہیں۔تو پڑھے لکھے لوگ آسانی سے یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ
غلط کون ہے،سیاستدان یا عوام!!!جیسے آجکل آزادی کے نام پر ہر ملک میں
انقلاب کی فضاء پھیلی ہوئی ہے۔دیکھا جائے تو ہر شخص آزادہے۔ سوائے اُن کے
جو جیلوں میں بند ہیں۔آزاد ہوا میں گھومنا پھرنا،کھانا پینا،محنت کرناوغیرہ
یہ سب آزاد لوگوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔جیلوں میں بند لوگ ہی ان چیزوں سے
محروم رہتے ہیں۔تو پھرلوگ کیوں آزادی آزادی چلاتے نظر آتے ہیں؟اگر مہنگائی
یا بیروزگاری کو قید یا غلامی کہا جاتا ہے تو یہ کہنے والے سبھی لوگ غلامی
سے ناواقف ہیں۔آزادی خالقِ حقیقی کی نعمت ہے اور ہر شخص اس دور میں آزاد
ہے۔غلام صرف وہ ہے جو اپنی سوچ کو سیاستدانوں کا غلام بنا کر لکیر کا فقیر
بننا چاہتا ہے۔یہی وہ خطرہ ہے جو اس کرہ ارض پر ’’اشرالمخلوقات‘‘کے لئے
انتہائی خطرے کا موجب بن سکتا ہے۔ |