آج کل ہر کوئی بزنس کرنا چاہتا
ہے اور کسی نہ کسی طریقے سے دولت کمانا چاہتا ہے لہٰذا لوگوں نے تعلیم کو
بھی کاروبار کا ذریعہ بنالیا ہے یہ نام نہاد تعلیمی ادارے ہر گلی ہر محلے
میں کھلے ہیں اور ایک محلے میں تقربیاً دس پندرہ اسکول کھلے ہیں چھوٹے
چھوٹے گھر کرائے پر حاصل کر کے انہیں اسکول کا نام دے دیا جاتا ہے اس میں
ایک کمرے میں آفس بنا لیا جاتا ہے اور باقی کمروں میں کلاس روم بنا دیے
جاتے ہیں ٹی وی لاؤنج میں دعا یا اسمبلی وغیرہ ہوتی ہے اور اگر کوئی فکشن
وغیر منعقد کرنا ہوتا ہے تو یہاں پر کیا جاتا ہے ایک صاحب یا صاحبہ جو یہ
اسکول شروع کرتے ہیں وہ پرنسپل بن جاتے ہیں اور چار یا پانچ ٹیچرز جو کہ
زیادہ تر ان ٹرنیڈ ہوتی ہیں رکھ لی جاتی ہیں یہ اسکول انگلش میڈیم اور اردو
میڈیم دونوں ہی ہوتے ہیں ان اسکولوں کا ماحول بالکل بھی تعلیمی نہیں ہوتا
یہاں پڑھائی کم اور دوسری فضولیات زیادہ ہوتی ہیں بچوں کے گھروں سے چیزیں
منگوائی جاتی ہیں بچوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے مار پیٹ بھی ہوتی
ہے ہر مہینے فیس بھی وصول کی جاتی ہےغریب بچوں سے تھوڑی فیس اور امیر بچوں
سے زیادہ فیس چارج کی جاتی ہے امتحان کے دنوں میں بچوں سے اضافی رقم وصول
کی جاتی ہے یہ وہ رقم ہوتی ہے پیپروں کو فوٹو اسٹیٹ کروانے پر وصول کی جاتی
ہے کیونکہ پیر بھی اسکول میں ٹیچرز سے خود تیار کروائے جاتے ہیں یہاں ٹیچرز
سے بھی اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ان کو تنخواہیں بہت کم دی جاتی ہیں اور کام
زیادہ لیا جاتا ہے اسکول میں بچوں کی پڑھائی پر بلکل کوئی توجہ نہیں دی
جاتی یوں بس پڑھائی کے نام پر بچوں سے مذاق کیا جاتا ہے سکول کی صفائی لے
کر بچوں سے تمام کام لیے جاتے ہیں میں سب اسکولوں کی بات نہیں کر رہی
کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر اسکول میں ایسا ہو جو بہت اچھے اسکول ہیں ان کا
سٹاف بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتا ہے اور ان کی کارکردگی بھی شاندار ہوتی ہے
میں ان نام نہاد تعلیمی اداروں کی بات کررہی ہوں جن کا کام بچوں کا وقت
ضائع کرنا ہے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ محکمہ تعلیم ایسے اسکولوں کو
منظور کیسے کر لیتے ہیں یہ اسکول تعلیم کے معیار کو بلند کر کی بجائے اور
پست کر دیتے ہیں تعلیم دینا ایک آسان کام نہیں یہ تو ایک بہت مقدس پیشہ ہے
استاد کا درجہ تو ماں باپ سے بھی اونچا ہے ان کی اچھی تربیت ہی بچوں کو ایک
اچھا اور مثالی انسان بناتی ہے جس طرح ایک جوہری ہیرے کو تراشتا ہے اسی طرح
ایک اچھا استاد ان کو اچھا اور قابل بناتا ہے
میری محکمہ تعلیم سے درخواست ہے کہ ایسے اسکولوں کو جن میں نہ بچوں کے پاس
پوری کتابیں ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کھیل کود کے لیے کوئی جگہ ہوتی
ہے ان کو بند کر کے اچھے اور بڑھے اسکول بنائیں جائیں اور ٹرینڈ ٹیچرز رکھے
جائیں اور بچوں کے مستقبل کوروشن کریں بچے تو قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں |