عبقری میگزین کے اڈیٹر حضرت حکیم
محمد طارق محمود چغتائی دامت برکاتہم کے قلم سے
پچھلے دنوں انارکلی کی ایک مسجد میں ایک دوست سے ملنے چلا گیا‘ بہت دیرینہ
دوست تھے اس دور میں جب میں اپنے شیخ حضرت خواجہ سید محمد عبداللہ ہجویری
رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں رہا کرتا تھا۔ بہت عرصے کے بعد ملاقات ہوئی خوش
ہوئے نماز عصر وہاں پڑھی۔ نماز عصر کے بعد میں مسجد کے قریب ایک جگہ پر
بیٹھا باتیں کررہا تھا۔ میں نے مسجد کے اندر شور سنا‘ تو میں نے پوچھا یہ
شور کیسا؟ مسکرا کر کہنے لگے کہ ایک صاحب ہیں جو ہر روزنماز عصر کے بعد
یہاں آتے ہیں مجذوب ہیں‘ اور قرآن بڑی خاص لے اور انداز سے پڑھتے ہیں‘ جب
آیت وعدہ آتی ہے یعنی جس پر اللہ نے جنت کا وعدہ کیا ہے‘ نعمتوں کا وعدہ
کیا ہے‘ دنیا و آخرت کی نصرت کا وعدہ کیا ہے‘ اس کو خاص انداز سے پڑھتے ہیں‘
جب آیت وعید یعنی عذاب کی آیت ہے اس کو درد اور سوز اور روتے ہوئے پڑھتے
ہیں‘ حالانکہ موصوف حافظ نہیں ہیں لیکن قرآن کو اس انداز سے پڑھتے ہیں‘ جو
کہ شاید کوئی بہت بڑا حافظ اور محدث بھی نہ پڑھ سکے۔ اور یہ روزانہ کا
معمول ہے۔ باتیں کرتے ہوئے میں نے جاکر انہیں دیکھا‘ کھڑے ہوئے ہیں‘ عجیب
کیفیت لباس ہے‘ اور عجیب انداز ہے‘ اور پورے زور شور سے دنیا ومافیہا سے بے
خبر قرآن کو اس انداز سے پڑھ رہے ہیں اور ساتھ قرآن کا ترجمہ بھی بیان
کررہے ہیں‘ میں کھڑا دیکھتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے میں مجاذیب کی دنیا
میں کھوگیا‘ کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اللہ کے ساتھ خاص تعلق ہوتا ہے اس قرب
اورتعلق ہر انسان نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ کے ساتھ ایسا ناطہ اور رابطہ ہوتا
ہے جس ناطے اور رابطے کو ہر شخص نہیں پاسکتا‘ یہ وہ پراسرار مجذوب ہیں
مستجاب الدعوات ہیں‘ اللہ کی ذات کے ساتھ ان کا خاص قرب اور تعلق ہے‘ اس
قرب اور تعلق میں وہ اتنا جذب ہوگئے ہیں کہ ہر وقت ذکر وفکر میں ہیں۔
ایک اور واقعہ سنیے عبقری رسالے کے پریس میں جانا ہوا وہاں ایک مجذوب سے
ملاقات ہوئی اوران کی طرف نظر بہت زیادہ متوجہ ہوئی۔ان کے بارے میں پریس کے
مالک نے بتایا کہ ساٹھ سال سے اوپر کے یہ شخص انڈیا کے گلوکار رفیع کے
بھتیجے اور انور رفیع گلوکار کے سگے بھائی ہیں۔ والدہ انہیں نہلاتی کھانا
کھلاتی ہے کپڑے دھو کر دیتی ہے۔ سر کے اور ڈاڑھی کے بال ٹھیک کرتی ہے انہیں
کوئی خبر نہیں دنیا کی۔ یہ اپنے آپ کو کہتے ہیں میں جنرل ہوں‘ کونسلر ہوں
اور ناظم ہوں اور انہیں کوئی صدر آئے‘ وزیراعظم آئے‘ حکومت آئی‘ حکومت گئی‘
کوئی خبر نہیں۔ انہیں پیسوں کا کوئی پتہ نہیں‘ انہیں کہہ دو سو جائو ‘
فوراً سوجاتے ہیں اور گہری نیند سوجاتے ہیں‘ کھانے کو نہیں مانگتے‘ چاہے
سارا دن کھانا نہ دیں‘ پانی نہیں مانگتے چاہے سارا دن پانی نہ دیں۔ والدہ
نہلا دے تو نہا لیتے ہیں اب والدہ خود بہت بوڑھی ہوگئی ہیں‘ جو بیٹا ساٹھ
سال سے اوپر ہے اسکی والدہ کے بڑھاپے کا کیا عالم ہوگا۔ لیکن اب بھی والدہ
خدمت کرتی ہے۔ چٹ لکھ کر رقم لفافے میں ڈال کر دے دیتے ہیں بازار سے اُس چٹ
کے مطابق سامان لے آتے ہیں۔ صبح ہوئی شام ہوئی انہیں کچھ خبر نہیں‘ یہ
جنوری ہے‘ فروری ہے انہیں کچھ خبر نہیں‘ یہ جیٹھ ہے‘ ہاڑ ہے ساون ہے انہیں
کچھ خبر نہیں۔ ذوالحجہ ہے‘ محرم ہے‘ ربیع الاول ہے انہیں کوئی خبر نہیں۔
صرف ایک چیز سے چڑتے ہیں کہ وکٹری کے نشان سے۔ جو صاحب مجھے یہ بات بتارہے
تھے وہ اس پریس کے مالک تھے کہنے لگے ایک جگہ میں جارہا تھا سابقہ خاتون
وزیراعظم کے بیٹے کی تصویر بورڈ پر بنی ہوئی تھی اس نے وکٹری نشان بنایا
ہوا تھا اور یہ اس سے چڑ گئے اور برا بھلا کہنے لگے۔ ایک جگہ شہبازشریف کے
بیٹے نے وکٹری کا نشان بنایا ہوا اور یہ وکٹری کے نشان سے پھر چڑ گئے‘ میں
نے پوچھا یہ وکٹری کے نشان سے کیوں چڑتے ہیں؟ انہیں کسی نے کہہ دیا ہے کہ
تو دو ووٹوں سے ہار گیا ہے جب یہ دو انگلیاں دیکھتے ہیں تو انہیں غصہ آجاتا
ہے۔ نماز میں سلام بھی کرتے ہیں‘ ادھر ادھر بھی دیکھتے ہیں‘ کبھی کبھی جمعہ
کی نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں‘ وضو کرنے کا کوئی پتہ نہیں‘ نماز میں کیا
پڑھنا ہے کوئی پتہ نہیں‘ پیار سے جو کام کرائو جس کام پر لگادو شام تک اسی
کام کو کرتے رہیں گے‘ سختی کرو روٹھ جاتے ہیں۔قارئین! میں یہ باتیں سن رہا
تھا اور اس مجذوب کو دیکھ رہا جو ہمارے اپنے رسالے کو اٹھا کر کبھی موڑتا
تھا کبھی لپیٹتا تھا اور میرے دل میں ایک خوشی اور مسرت ہورہی تھی کہ اس
عبقری کی مولڈنگ اور فولڈنگ میں ایک ایسے مجذوب کا ہاتھ بھی لگتا ہے کہ جو
اس دنیا کی چیزوں کو بالکل نہیں جانتا‘ وہ صرف ایک اللہ کو جانتا ہے حتیٰ
کہ اللہ نے مجذوب ہونے کے ناطے اس سے اپنی عبادتوں کی پوچھ گچھ بھی ختم
کردی ہے کہ پاگل اورمجذوب کیلئے قیامت کے دن پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ میں نے
ایک سوال کیا کہ اس کی دعا کے بارے میں کیا حال ہے۔ کیونکہ مجھے یقین تھا
کہ ایسے لوگ مستجات الدعوات ہوتے ہیں۔ دعا کرتے ہیں تو اللہ قبول کرتے ہیں‘
بددعا کردیں تو وہ بھی قبول ہوتی ہے۔ کہنے لگے کہ ان کی دعا واقعی قبول
ہوتی ہے۔ میں بیٹھا دیکھ رہا تھا اور دعا دل ہی دل میں کررہا تھا کہ یااللہ
ان کے دل میں ڈال دے کہ میرے لیے دعا کریں۔ میں ان سے دعا کروا رہا تھا تو
مجھے پریس والے کہنے لگے کہ حضرت لوگ تو آپ سے آکے دعا کراتے ہیں میں نے ان
سے کہا ایسے لوگوں سے میں دعائیں لیتا ہوں لوگ جو مجھ سے دعائیں کراتے ہیں
میں ان ہی دعائوں سے ان کو حصہ دیتا ہوں۔ ورنہ میرے پاس کیا ہے میری اوقات
کیا ہے یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو مستجات الدعوات ہوتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو
اللہ کے ساتھ خاص قرب میںرہتے ہیں۔ مجاذیب کی اپنی دنیا ہے قارئین! اسے
شریعت کے ترازو سے اگر تولہ جائے گا تو شاید ہمیں سمجھ نہ آئے لیکن بڑے بڑے
محدثین اور بڑے بڑے علماءاور بڑے بڑے نیک اور صالح لوگوں نے مجاذیب کی دنیا
کو تسلیم کیا ہے۔ بے شمار میرے پاس کتابیں جن میں ایک کتاب ارواح ثلاثہ بھی
ہے اور بھی بے شمار کتابیں ہیں جن میں مجاذیب کے تذکرے ہیں اور مجذوب لوگوں
کے آنکھوں دیکھے چشم دید واقعات اور واقعی یہ لوگ وہ ہوتے ہیں جن کا اللہ
کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ اور جب بندہ ان کے حال کو دیکھ کر ان سے محبت کرتا
ہے اور ان کا اکرام کرتا ہے تو اللہ پاک اس کی مشکل ٹال دیتے ہیں۔ لیکن ایک
وضاحت عرض کردوں ہر ننگ دھڑنگ مجذوب نہیں ہوتا‘ ہر گالیاں دینے والا اور ہر
برا بھلا کہنے والا مجذوب نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے کی یہ ایک بری ریت ہے جو
شخص جتنا ننگا ہوجائے اتنا زیادہ پہنچا ہوا ہوجاتا ہے۔ شریعت میں اس کی
کوئی اصل نہیں ہے۔
بشکریہ عبقری میگزین |