اچھے رشتے کیوں نہیں ملتے؟

پاکستان جیسے مشرقی ماحول رکھنے والے ملک میں ایک مسئلہ جس نے والدین کی نیندیں اچاٹ کردی ہیں وہ ہے بیٹیوں کیلئے اچھے رشتے نہ ملنے کا۔ پہلے تو وہ زمانہ تھا کہ لڑکے والوں کے پائوں کی جوتیاں لڑکیوں والوں کے گھروں کے چکر لگاتے لگاتے گھس جاتی تھیں تب کہیں جاکر لڑکی والے ہاں کرتے تھے لیکن اب کہاں یہ زمانہ آگیا ہے کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر جاتی ہے لیکن اچھا رشتہ نہیں ملتا۔

ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ایسی کنواری لڑکیاں موجود ہیں جن کے والدین اچھے اور مناسب رشتے کی راہ تکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سنگین سماجی مسئلہ ہے جس نے ہماری معاشرتی جڑوں کے اندر مادیت اور مفاد پرستی کے سرایت ہوجانے کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی بات ہے جس نے ہمارے معاشرے کا رجحان تبدیل کردیا ہے وہ کون سی بات ہے جو لڑکے والے ہونیوالی بہوئوں میں تلاش کرتے ہیں۔ آخر وہ کیا چیز ہے جو لڑکوں کے آنے والے رشتوں میں خامی بن کر بیٹیوں کے ماں باپ کو رشتہ قبول کرنے سے انکار کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

ہم نے یہی بات جاننے کیلئے ایک 70 سالہ عورت سے بات کی۔ یہ عورت آج خیر سے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی اولادیں بھی اپنی گود میں کھلارہی ہیں۔ بحیثیت استاد تعلیم کے شعبے میں چالیس سال کا عرصہ گزارنے کے بعد ہیڈمسٹریس کے طور پر ریٹائر ہوئی ہیں کہتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ اقتدار کا بدلنا سماج کا ارتقائی عمل ہے‘ یہ نہ رکا ہے اور نہ ہی آئندہ اسے روکا جاسکے گا۔ لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ سماجی اقدار کے ارتقاءمیں کیا ہمیں اپنی ان بنیادی روایتوں کو بھی تبدیل کردینا چاہیے جن پر اس سماج کی بنیاد کھڑی ہے۔ یقینا نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے لیکن افسوس کہ ایسا ہی ہورہا ہے جب ہم بحیثیت فرد اس بات کا خیال نہیں رکھتے تو پھر ہمیںکسی دوسرے سے بھی شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔ بیٹیوں کے رشتے آج کے دور میں بہت بڑا مسئلہ ہیں لیکن اس دور میں اچھے رشتے نہ ملنے کا سب سے بڑا سبب خود ہمارا دو رخہ معیار ہے۔ اب اگر ہم اپنے بیٹوں یا بیٹے کیلئے رشتہ تلاش کرتے ہیں تو لڑکی اور اس کے گھرانے کا ایک بلند معیار ہم اپنے ذہن میں قائم کرلیتے ہیں‘ یہ معیار خود ہمارے اپنے سماجی معیار سے بھی کہیں بلند ہوتا ہے‘ لیکن جب ہم خود اپنی بیٹی یا بیٹیوں کے لیے آنے والے رشتے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے معیار بالکل بدل جاتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ لڑکے والے خواہ ان کا سماجی و معاشی مقام ہم سے کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو صرف ہماری بیٹی کی شرافت‘ سگھڑپن اور اس کی سیرت کو دیکھ کر رشتہ کردیں لیکن ذرا آپ خود سوچیے جب ہم بیٹے والے بن کر لڑکی والوں کے گھر جاتے ہیں تب ہم خود یہ سب کچھ کیوں نہیں سوچتے؟؟؟

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اگر بیٹی کیلئے کوئی رشتہ آتا ہے تو صرف ان کی خاندانی شرافت اور لڑکے میں کسب حلال کی صلاحیت کو اپنے مدنظر رکھیں کیونکہ جس شخص میں اپنی محنت سے دو وقت کی روٹی کمالینے کی صلاحیت ہو تو وہ دنیا بھر کی آسائش بھی خدا کی مرضی سے وقت آنے پر حاصل کرہی لیتا ہے۔

ایک اشاعتی ادارے سے وابستہ نوجوان نسل کی نمائندہ کہتی ہیں کہ سب کہتے ہیں کہ لڑکیوں کیلئے اچھے رشتے نہیں ملتے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچھے رشتے کا معیار کیا ہے‘ بہو کی تلاش ہو یا داماد کا انتخاب میرے خیال میں ایک اچھا رشتہ وہ ہوتا ہے جو تعلیم یافتہ ہو‘ حالات کو قسمت کا لکھا سمجھ کر صابر و شاکر ہونے کے بجائے حالات کو ہی بدلنے کا سوچے‘ دولت ہی مرکز نگاہ نہیں ہونی چاہے۔ مزید کہتی ہیں کہ انسان کی زندگی تین چیزوں کے حصول کے گرد گھومتی ہے اور انہی کی مطابقت سے ہم اچھے رشتے کا تصور قائم کرلیتے ہیں۔ پہلی چیز ہے ضرورت‘ دوسری ہے آسائش اور تیسری ہے تعیش۔ انسان کی سب سے اہم چیز ضرورت ہے۔ جو ضرورت کو آسان کرنے کا حل ڈھونڈ لیتا ہے میرے خیال میں وہ اچھا رشتہ ہوتا ہے۔ یہ کلیہ بہو اور داماد دونوں کیلئے یکساں ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں کچھ اور ہی سوچ ہے ہم چاہتے ہیں کہ لڑکی سسرال میں آئے تو لڑکے اور اس کے گھر والوں کیلئے آسائش اور تعیشات کے سارے لوازمات جہیز کی شکل میں ساتھ لیکر آئے۔ دوسری جانب لڑکے والوں کی سوچ ہوتی ہے کہ ہماری بیٹی اپنے گھر میں جیسی بھی زندگی بسر کرتی رہے وہ الگ ہے لیکن سسرال جائے تو اسے تمام تعیشات بہم ہوں۔ بس یہی بنیادی چیز ہے کہ ہم اچھے رشتوں کے بروقت نہ ملنے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ لڑکی کم عمر ہوتی ہے اور زیر تعلیم ہوتی ہے کہ رشتے آنے شروع ہوجاتے ہیں لیکن غریب والدین اس آس میں کہ بیٹی پڑھ لکھ کر کوئی نوکری کرلے‘ پھر جہیز جمع کرکے شان سے شادی کردیں گے کا سوچ کر رشتوں کو انکار کرتے رہتے ہیں اور پھر جب سب کچھ ان کے حسب منشاءہوجاتا ہے تو پھر لڑکی کے رشتے نہیں آتے اور وہ والدین کی دہلیز پر ہی بوڑھی ہونے لگتی ہے۔ اگر ہم شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر چلیں‘ سادگی کو اپنائیں اور جہیز کی لعنت کو ختم کرلیں تو آج ہمیں جو سماجی مسئلہ درپیش ہے وہ کبھی کا ختم ہوجائے لیکن اس کیلئے پہل خود ہمیں اپنے گھر سے ہی کرنی ہوگی۔ انتظار ہے تو بس یہ کہ پہلا پتھر کون پھینکے۔

ایک عالم دین کہتے ہیں کہ اگر ہم صرف سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غور سے نظر ڈالیں تو ہمیں یہ شکایت نہیں رہے گی کہ اچھے رشتے کیوں نہیں ملتے۔ حضرت فاطمة الزہرہ رضی اللہ عنہا کا جہیز اور ان کی شادی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دعوت ولیمہ کو یاد کرلیں اور ان کی پیروی کریں تو پھر نہ صرف ہم دین و دنیا دونوں میں سرخرو ہوں گے بلکہ مذہب اسلام میں سادگی کا جو مقام ہے اس کو اپنا کر ہم بے شمار بے جا اسراف سے بھی بچ جائیں گے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں یہ نہ کہنا پڑے کہ اچھے رشتے نہیں ملتے تو ہمیں شریعت الاسلام نے نکاح کیلئے جس عمر کی وضاحت کردی ہے اس پر عمل کرنا ہوگا۔ آج جو یہ پریشانیاں ہیں یہ سب کچھ مسلمان ہوتے ہوئے شریعت اسلام سے دوری کے سبب ہیں۔ اگرآج بھی ہم مذہب اسلام کی اس روح کو سمجھ لیں تو ہماری تمام پریشانیاں ختم ہوجائیں گی اور آخرت بھی سنور جائے گی۔

بشکریہ عبقری میگزین

Jaleel Ahmed
About the Author: Jaleel Ahmed Read More Articles by Jaleel Ahmed: 383 Articles with 1217501 views Mien aik baat clear karna chahta hoon k mery zeyata tar article Ubqari.org se hoty hain mera Ubqari se koi barayrast koi taluk nahi. Ubqari se baray r.. View More