بچپن سے کچھ کہاوتیں سنتے آئے ہیں جو
بزرگوں کے تجربات کا نچوڑ بتائی جاتی تھیں۔ ان میں سے ایک ”کالی بھیڑوں“
اور دوسری ”گندی مچھلیوں“ کے بارے میں تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک کالی بھیڑ پورے
ریوڑ کو بدنام کرتی ہے اور ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو! پچھلے چند روز کے
واقعات پر نظر دوڑائیں تو صرف لاہور میں ایسے کچھ واقعات رو پذیر ہوئے ہیں
جن میں مبینہ طور پر وکلاء نے جج، پولیس اور میڈیا کے نمائندوں پر تشدد کیا
اور جس کے بارے میں پاکستان کا میڈیا چیخ چیخ کر دہائی دے رہا ہے، آج جب
مبینہ طور پر ایک نجی ٹی وی کے کیمرہ مین پر وکلاء تشدد کی خبر سامنے آئی
تو میڈیا کی دہائی اور احتجاج میں کچھ اور بھی تیزی آگئی۔ جہاں اس خبر کو
”بریکنگ نیوز“ کے طور پر بار بار نشر کیا گیا وہیں وکلاء کی سابقہ ”پر تشدد“
کارروائیاں بھی بار بار دکھائی جا رہی ہیں۔ آج کی اصل بات کرنے سے پہلے
تھوڑی سی تفصیل ”سابقہ کارروائیوں“کی بیان کرنا چاہوں گا۔ وکلاء تحریک کے
دوران جب پرویز مشرف اور اس کی آمریت کے خلاف پوری قوم اور بالخصوص میڈیا
اور وکلاء کے جذبات ذرا زیادہ تیز اور گرم تھے ( جذبات میں تیزی اور گرمی
کی وجوہات میں وکلاء اور میڈیا پر بے انتہا تشدد بھی کیا جارہا تھا اور
دونوں مکاتب فکر کے لوگ آئین اور قانون کو بھی بخوبی سمجھتے تھے اور عدلیہ
پر شبخون کے بھی مخالف تھے ) تو اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے تین واقعات
وکلاء کی جانب سے پیش آئے اور ایک واقعہ ایسا بھی تھا جس میں میڈیا سے
وابستہ افراد نے بھی پر تشدد راستہ اختیار کیا۔ وکلاء کی جانب سے نعیم
بخاری کے ساتھ سلوک، احمد رضا قصوری کا منہ کالا کرنا اور ڈاکٹر شیر افگن
نیازی کے ساتھ سلوک شامل ہیں جبکہ میڈیا سے وابستہ افراد کی جانب سے سینیٹر
طارق عظیم کے ساتھ مار پٹائی کا واقعہ پیش آیا۔ بلاشبہ اس وقت کے حالات کی
نزاکت کو آج نہیں سمجھا جا سکتا لیکن جو لوگ عدلیہ بحالی تحریک میں شامل
رہے ہیں وہ اس امر کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے حالات کس نازک
دور سے گزر رہے تھے اور وکلاء کا ہر وقت حکومتی دہشت گردی سے واسطہ پڑتا
تھا، ظلم اور تشدد کی وہ کونسی اقسام تھیں جو نہتے وکلاء پر نہیں آزمائی
گئیں، ان حالات میں وکلاء کو جب اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملا تو
انہوں نے اپنے اندر موجود ان ”کالی بھیڑوں“ کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانے کی
کوشش کی جو آئین اور قانون کو سمجھنے اور جاننے کے باوجود ایک ڈکٹیٹر کی
جیب کی گھڑیاں اور ہاتھ کی چھڑیاں بنے پھرتے تھے۔ نعیم بخاری، احمد رضا
قصوری اور شیر افگن نیازی پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کسی میر جعفر و میر
صادق سے کم نہیں، اس لئے ان کے خلاف احتجاج کے دوران اگر کسی قسم کا تھوڑا
سا تشدد بھی ہوگیا ہو تو اس کو یقیناً پوری قوم نے قابل سزا نہیں سمجھا تھا۔
اسی طرح صحافیوں کی جانب سے سینیٹر طارق عظیم کے خلاف کارروائی بھی اسی ضمن
میں آتی ہے اور ان صحافیوں کے خلاف جنہوں نے طارق عظیم کو زد و کوب کیا اور
جس کا نظارہ پوری قوم نے اپنے گھروں میں بیٹھ کر اپنے ٹی وی پر کیا ، آج تک
کسی قسم کی کوئی کارروائی ریکارڈ پر موجود نہیں۔
اب آتے ہیں حالیہ واقعات کی جانب جس میں وکلاء کی جانب سے ججز، پولیس اور
میڈیا سے وابستہ افراد کے ساتھ تشدد کی خبریں منظر عام پر آئی ہیں۔ بلاشبہ
وکلاء نے دنیا کی بہت بڑی تحریک کامیابی سے چلائی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز
نہیں کہ انہیں کسی قسم کی مادر پدر آزادی مل جائے کہ وہ کسی کے بھی خلاف پر
تشدد قسم کی کارروائیاں کریں اور کوئی انہیں پوچھنے والا یا روکنے والا بھی
نہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے کہ کیا متذکرہ
بالا کارروائیوں میں وکلاء کی پوری کمیونٹی ملوث ہے یا انفرادی سطح پر کچھ
لوگ یا مخصوص گروپ ملوث ہیں کیونکہ اگر ایسے واقعات انفرادی سطح پر ہورہے
ہیں تو پوری وکلاء کمیونٹی کو مورد الزام ٹھہرانا اور میڈیا پر اتنا زیادہ
اچھالنا ہرگز مناسب نہیں۔ پوری قوم جانتی ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی ادارہ
چاہے وہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری اس طرح کی چیزوں سے ہرگز پاک نہیں۔ اگر
ڈاکٹر مریضوں کو اپنی فیس کے لئے ذبح کردیتے ہوں، اگر ججز روپے پیسے کے لئے
اپنا ایمان بیچ دیتے ہوں، اگر سرکاری ملازمین رشوت ستانی کا بازار گرم کئے
ہوئے ہوں ، اگر اخبارات اور میڈیا سے وابستہ افراد ”زرد صحافت“ کی چمک سے
”دن دوگنی، رات چگنی“ ترقی کررہے ہوں اور اگر سیاستدان اور جرنیل ملک ہی
بیچنے کے چکروں میں ہوں تو وکلاء بھی لامحالہ اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور
خاص طور پر اگر ایسے واقعات انفرادی سطح پر ہورہے ہوں تو پوری وکلاء برادری
کو الزام کیوں؟ ان کے خلاف ایک نئی ”میڈیا وار“ کیوں؟ ان کا بحیثیت کمیونٹی
”میڈیا ٹرائل“ کیوں اور کس کی اشیر باد سے ہورہا ہے؟ ابھی تک جو خبریں یا
ٹی وی فوٹیج سامنے آئی ہیں ان سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ
متذکرہ بالا تمام واقعات میں وکلاء بطور کمیونٹی کے ہرگز ملوث نہیں ہیں
بلکہ چند مخصوص عناصر اور افراد ان میں ملوث پائے گئے ہیں۔ کچھ ”کالی
بھیڑیں“ اور ”گندی مچھلیاں“ ہیں جو تمام واقعات کے پس پردہ ہیں اور یہ وہ
لوگ ہیں جن کے کوئی نظریات نہیں ہیں بلکہ ان کے سامنے صرف اپنی ذاتی ایجنڈے
ہیں یا ان طاقتوں کے ایجنڈے ہیں جو طاقتیں اس ملک میں آئین اور قانون کی
حکمرانی کے خلاف ہیں، جو اس ملک میں آمریت کے سایوں کو تقویت دینا چاہتی
ہیں۔ پوری قوم اور وکلاء کی اکثریت بھی یہ سمجھتی ہے کہ وکلاء کے خلاف ایک
منظم سازش کے تحت سارا ڈرامہ سٹیج کیا جارہا ہے اور یہ سب کچھ عین اس وقت
کیا جارہا ہے جب سپریم کورٹ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے مقدمہ کا فیصلہ
کرنے جا رہی ہے۔ ایک اور اہم بات جو اس ضمن میں کہنا ضروری ہے اور جس کی
بابت راقم اپنے سابقہ کالم میں بھی ذکر کر چکا ہے کہ وکلاء کو اپنے اداروں
کے اندر احتساب کا کوئی کڑا نظام فوری طور پر متعارف اور رائج کرنے کی
ضرورت ہے۔ وہ عزت جو وکلاء نے ایک بہت اعلیٰ تحریک، قربانیوں، بچوں کا پیٹ
کاٹ کر، ماریں کھا کر، جیلیں برداشت کر کے اور ظلم و تشدد سہہ کر کمائی ہے
اسے چند کالی بھیڑیں اور گندی مچھلیاں خراب کررہی ہیں۔ جس طرح کسی وکیل کے
ذاتی مقدمہ میں عمومی طور پر بار کی اکثریت اس وکیل کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے
اسی طرح اگر کسی وکیل کی جانب سے انفرادی سطح پر کسی جج، کسی پولیس والے یا
میڈیا سے وابستہ فرد پر تشدد کیا جاتا ہے یا کسی قسم کی زیادتی کی جاتی ہے
تو بار کی اکثریت کو اس مظلوم جج، پولیس والے یا میڈیا سے وابستہ فرد کے
ساتھ کھڑا ہونا چاہئے اور ”ظالم“ وکیل کے خلاف نہ صرف یہ کہ اپنے غم و غصہ
کا اظہار کرنا چاہئے بلکہ ایسی ”کالی بھیڑوں“ اور ”گندی مچھلیوں“ کی
نشاندہی کر کے کو اپنی صفوں سے بھی نکال باہر کرنا چاہئے۔ اگر وکلاء نے
مصیبتوں اور پریشانیوں کے ساتھ کمائی ہوئی عزت کو بچانا ہے، اگر انہیں اس
ملک کا مستقبل عزیز ہے اور اگر وہ اس ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی
چاہتے ہیں تو انہیں بحیثیت مجموعی ”کالی بھیڑوں“ اور ”گندی مچھلیوں“ سے
اپنے آپ کو صاف اور مبرا رکھنا پڑے گا۔ بار ایسوسی ایشنوں اور بار کونسلوں
کو بھی سو موٹو ایکشن لینے کی ضرورت ہے تاکہ وکلاء معاشرے میں صحتمندانہ
کردار ادا کرسکیں، قوم کو ان سے جو توقعات ہیں وہ ان پر پورا اتر سکیں....! |