لوگ صرف چڑھتے سورج کے پجاری ہیں

تخلیق کار بھی کتنے بھولے مزاج اور نرم دل رکھنے کا مالک ہوتا ہے۔ خواب کو سرمایہ اور حقیقت کو سراب سمجھتا ہے۔ زمانہ اس کے ساتھ قیامت کی چال چلتا ہے اور وہ اس چال کو بھی ’’ چاہ ‘‘ (محبت ) سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس کو کیسے سمجھایا جائے کہ یہ دل سے سوچتا ہے ، اور عقل کو قریب بھٹکنے نہیں دیتا۔ سود و زیاں سے بے پرواہ ، صرف تخلیق کے خمار میں سرگرداں، اپنی دُھن میں مگن ، تخلیق کی حیرتوں میں گم رہتا ہے۔ دل کی سیاہی کو کبھی کاغذوں پر اُنڈیل کر راحت ڈھونڈتا ہے تو کبھی روح کی بے قراری کو کینوس پر رنگوں میں گھولتا ہے۔ کبھی اسکرین پر کردار بن کر تاثرات کی زبان سے کچھ کہہ دیتا ہے اور کبھی آواز کی زنجیر سے بندھے ہوئے جذبوں کو رہائی دینے کی جستجو کرتا رہتا ہے۔یہ تخلیق کار اتنے جوکھم اُٹھاتا ہے، آخر کس لئے؟ شاید اس لیئے کہ وہ انسانوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ اس محبت کو عوام کے لیے عام کرتا ہے۔ عوام کی محبت کو اپنا سرمایہ ٔ حیات سمجھتا ہے۔ ان تمام پہلوؤں سے بے خبر زمانہ صرف طلوع ہونے والوں کے ساتھ ہے۔ ڈوبنے والے سورج کے ساتھ صرف اس کی تنہائی ہوتی ہے یا پھر اس کے تاریک ہوتے ہوئے اپنے وجود کا سایہ، جسے کچھ دیر میں دم دینا ہوتا ہے۔

فطرتِ انسانی کا سامنا جنبشِ قلم سے پہلے جنبشِ لب سے ہوتا ہے۔ کیونکہ دنیا میں آتے ہی جنبش کی ابتدا آواز سے ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً آواز کا لبوں سے نکلنا اور سب کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرا دینا، کہ کوئی ہے ، کوئی آیا ہے۔ تاریخِ انسانی کے اس اہم واقعہ سے یہ بات تو دو اور دو چار کی طرح واضح اور روشن ہے کہ تہذیب کے ارتقاء میں الفاظ کا کلیدی رول رہا، اور ہے۔ تاریخ اس بات کو بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتی کہ الفاظ کی طاقت تلوار کی جھنکار سے کہیں بڑھ کر ہے۔ الفاظ کے زیرہ بم نے بارہا دلوں کی دنیا بدلی ہے۔

ان سب حقائق پر سے پردہ اُٹھنے کے بعد آپ سوچ رہے ہونگے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ دوستو! یہ سب باتوں کے پیچھے بھی ایک مقصد چھپا ہوا ہے۔ اور یہ سب باتیں اُن لوگوں کی یاد دہانی کے لئے ہیں کہ جو ہمارے سروں پر حکمران بن کر مسلط ہیں۔ میں آج کے حکمرانوں کی بات بھی کر رہا ہوں اور جو آج سے چند سالوں پہلے تک تھے ان کی بھی کیونکہ ان حکمرانوں نے کبھی عوام کا بھلا نہیں سوچا، آج عوام جس کسمپرسی کے دور سے گزر رہے ہیں یہ سب انہی لوگوں کی مرہونِ منت ہے۔ مہنگائی کا سیلاب، دہشت گردی کا بم، ٹارگٹ کلنگ کا جن، لوڈ شیڈنگ کا عذاب، امریکی ڈالر کے ہاتھوں ہمارے روپئے کی مقدار میں روز افزوں کمی کا بخار، بے روزگاری کا نہ ختم ہونے والا سمندر، غرض کہ کس کس مسئلے کا مثال پیش کروں۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ عوام ان سب عذابوں کو بھگت رہے ہیں اور پتہ نہیں کب تک بھگتاتے رہیں گے، اگر عالیشان محلوں میں رہنے والوں کو ایسا ایک دن بھی نصیب ہو گیا تو بیچارے بِلبلا اُٹھیں گے۔

صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کا مفہوم ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : آنے والے ایک زمانہ میں دو باتیں معاشرہ میں رونما ہونگی۔ ایک تو جہالت بڑھ جائے گی اور دوسرے ھرج بہت ہوگا۔ اصحاب نے پوچھا یا رسول اﷲ ﷺ ! ھرج کیا؟ فرمایا: قتل، قتل۔ (جلد؍۱، کتاب؍۳، حدیث ۸۵؍فتح الباری؍۱:۱۹۲)قتل عام، نسل کشی، فسادات، جنگوں میں اندھا دھند مار کاٹ، بے وجہ عام غارت گری۔ خون خرابہ۔ کیا دنیا بھر میں ہر جگہ یہ سب کچھ نہیں ہو رہا ہے؟ بات نہ کراچی ، لاہور، پشاور میں روز لاشیں گرنے کی ہے نہ شام اور مصر میں دو فرقوں کے باہمی کشت و خون کی۔ ان سب کو تو دشمنوں کی سازشوں کے نام دے کر ٹی وی پر باقی ماندہ فلم یا ڈرامہ پر دوبارہ نظریں مرکوز کی جا سکتی ہیں۔ بات تو یہ ہے کہ خود سب سے زیادہ مہذب ملک امریکہ میں آئے دن بندوقیں لے کر اپنے دوستوں اور ہم جماعت طلبہ پر دَنا دَن گولیاں برسا دیتے ہیں اور چھ آٹھ دس سال کے معصوم بچوں بچیوں اور ان کے استادوں استانیوں کو بھون ڈالتے ہیں۔ اور کہیں جبینوں پر بَل تک نہیں آتا۔ نہ کوئی کبھی یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

اب ذرا ہم اپنے معاشروں کی حالت دیکھتے ہیں۔ ہم اپنے جہل کو علم کا نام دیتے ہیں، بے علمی کو استادی کی دلیل بناتے ہیں۔ دین سے وہ بے خبری ہے کہ اﷲ کی پناہ۔ سچی بات یہ ہے کہ آج کل آزادیٔ اظہار کا حق صرف بندوق کو حاصل ہے اور دنیا میں ہر جگہ ہے۔ انسان سارے بے زبان جانور ہو کر رہ گئے ہیں۔ جب جس کا جی چاہا وہیں بھون دیا۔ یعنی کہ خون میں لت پت کر دیا۔ وہ باتیں جو اوپر درج کی گئیں ہیں وہی سب کچھ آج ہو رہا ہے اور پھر بھی ہم سب کی آنکھیں بند ہیں۔ کوئی آنکھ کھولنے کو تیار نہیں۔

آج ہر طرف صرف نعرہ اور نعرہ ہی نظر آتا ہے ۔ عملی کام کچھ نہیں! پہلے آزادی کا مطلب بھی یہ ہوتا تھا کہ عام انسانوں پر ظلم نہ ہو، ان کی املاک، کاروبار ، تجارت ، کھیت کو نقصان نہ پہنچے اور انہیں اپنے بال بچوں کے ساتھ ایک سیدھی سادی چین کی زندگی بسر کرنے دی جائے۔ بس تب نہ یہ چیختے چلاتے اخبارات تھے نہ چنگھاڑتے ہوئے ٹیلی ویژن چینلز۔عام آدمی بے چارہ کہاں بولتا ہے کہ اسے اظہار کا غم ہو۔ اس کا فکر آج بھی وہی ہے جو پانچ سو سال پہلے اور پانچ ہزار سال پہلے تھا: بچوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنا ۔ ایک سبزی فروش بندہ اس نے کبھی جارج بش، ٹونی بلیئر ، نکولس سارکوزی جیسے نام بھی نہ سنے ہوں گے ۔ وہ بیچارہ کیا جانے قوم اور جنگ اور فسادات کی ہجے کیا ہے۔آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے ملک سے کھیل کود کا زمانہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ دہشت گردی کی ڈر سے کوئی بھی ملک کرکٹ کھیلنے کے لئے آنے پر تیار نہیں۔ کیا اس طرح ہم دنیا بھر میں بدنام نہیں ہو رہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں قانون نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ اگر ہوتا اور اس پر عمل در آمد کیا جاتا تو آج حالات قدرے بہتر ہوتے۔ کیونکہ مجرموں کو وقت پر سزا ملنے سے ہی قانون کی حکمرانی ہوتی ہے وگرنہ جو حالت آج ہے شاید (میرے منہ میں خاک) کل حالات اس سے بھی ابتر ہو جائیں۔ خدا ہم سب پر اور اس ملک پر اپنا خاص فضل فرمائے۔ آمین۔
یہ ساری باتیں لکھنے کے بعد میں سوچتا ہوں کہ کیا کوئی ارباب اسے پڑھ بھی رہے ہیں اگر جواب ہاں میں ہے تو اس پر عمل در آمد کیوں نہیں کیا جاتا۔ کیوں غریبوں کی حالت بدلنے کی سعی نہیں کی جاتی، کیوں غریبوں کو منجدھار میں اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ کچھ دن پہلے وزیر داخلہ صاحب کے ایک بیان پر اتنا واویلا مچایا گیا اور نہ صرف واویلا بلکہ ایوان کے باہر ایک الگ ایوان بنا کر باضابطہ کاروائی تک کی گئی۔ مگر غریبوں کے مسائل کے حل کے لئے اس طرح کی کوئی کاروائی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ یوں ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں یا بنے ہوئے ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اس ملک کے غریبوں کے لئے حکمران کچھ کریں تاکہ ان لوگوں کو مسائل سے نجات مل سکے۔ ورنہ تو آپ کو بھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ’’ زمانہ ہمیشہ سے چڑھتے ہوئے سورج کے ہی پجاری رہا ہے‘‘ کہیں ایسا ہو گیا تو آپ سب کا کیا ہوگا۔خدا وہ دن نہ لائے اور اس دن کے آنے سے پہلے ہی آپ سب کو ہوش آجائے۔
زمانہ ایک سا ہوتا نہیں کبھی ہرگز
پھرانتظار کی لذت نصیب ہو کہ نہ ہو
 
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.