محبت میں کوئی جان دے کے چلا ہے

اسلامی ریاست قائم ہو جائے تو اسے توڑنا اسلام کے خلاف ہے۔پاکستان کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھائے گا ہم اس کا مقابلہ کریں گے بھلے اس کے لئے ہمیں جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ یہ صرف ان کا عزم اور اعلان ہی نہ تھا بلکہ ان کے ہر کارکن اور لیڈر نے اپنے خون کے آخری قطرے تک پاکستان اور پاکستانی فوج کے ساتھ کھڑے ہو کے اس عہد کو نبھایا۔وہ بھی بنگالی تھے وہی بنگالی جنہیں مغربی پاکستان کے بھائیوں سے بہت گلے تھے۔ان کا رشتہ پاکستان سے لیکن اقتدار کا نہیں اسلام کا تھا۔وہ پاکستان کے وفادار تھے اور اس جرم کی پاداش میں اس وقت بھی ان کے گھر لوٹے گئے۔ان کی عزتیں پامال کی گئیں۔ان کے کاروبار تباہ ہوئے۔ان کا جینا دوبھر ہو گیا۔مشرقی پاکستان ان کی وفاؤں کے باوجود اور ہماری جفاؤں کی وجہ سے بنگلہ دیش بن گیا۔مغربی پاکستانی کچھ مکتی باہنی والوں کا شکار ہوئے اور جوبچے انہیں بھارت اپنے ساتھ لے گیا۔یہ جاتے بھی تو کہاں کہ فرزندانِ زمین تھے۔اس کے بعد کون سا ایسا ستم تھا جو ان محبانِ پاکستان پہ نہیں توڑا گیا۔مجیب نے ان کے سیاست میں حصہ لینے پہ پابندی عائد کر دی۔یہ پابندی مجیب کی موت کے بعد ہی ختم ہوئی۔

بنگلہ دیش میں کوئی نیلسن منڈیلا تو تھا نہیں کہ وہ ماضی کو بھلا کے آگے بڑھتا۔یہاں تو اندرا تھی جس کی زندگی کا محور و مقصد ہی مسلمانوں کی تباہی تھاجو اس نے اپنے باپ سے ورثے میں پایا تھا۔وہ تو دو قومی نظرئیے کو بحیرہ عرب میں غرق کرنے پہ اتنی مست تھی کہ اسے اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ وہ اپنے لئے اور اپنے ملک کے کے لئے کتنا بڑا گڑھا کھود رہی ہے۔ پھر مجیب تھا جس نے صرف اپنے ذاتی اقتدار اور انا کی تسکین کے لئے دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔پھربھٹو جس نے سر عام یہ اعلان کیا کہ جوقانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے مشرقی پاکستان جائے گا اس کی ٹانگیں تڑوا دوں گا۔یہ بغض یہ کینے یہ نفرتیں ،دشمنیاں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور تباہ کرنے کی کوششیں آج بھی خطے میں ایک آگ لگائے ہوئے ہیں۔کہتے ہیں کہ کئی دفعہ ہاتھوں سے دی گئی دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔ہم بھی کم نہیں لیکن بھارت سے تو اس کے سارے چھوٹے بڑے پڑوسی تنگ ہیں۔

جماعتِ اسلامی کے اسسٹنٹ سکریٹری جنرل عبدالقادر ملا بھی اسی موروثی نفرت کا نشانہ بنے ہیں۔بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ حکمران ہو تو محسوس یہی ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش بھارت کا کوئی صوبہ ہے اور یونہی بھارتی خفیہ ایجنسی را کا عمل دخل بھی بنگلہ دیش کے معاملات میں بڑھ جاتا ہے۔جماعت اسلامی چونکہ ایک اسلام پسند پارٹی ہے جو ملک کو ہندوؤں کے غلبے سے نجات دلا کے حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتی ہے اور اس کی بھارت سے نفرت بھی کچھ ڈھکی چھپی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را بھی جماعت اسلامی کو نقصان پہنچانا اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے۔عبدالقادر ملا کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ اسلام کی سر بلندی کے لئے یہ آخری قربانی نہیں۔دنیا کے چالیس ممالک میں ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ پاکستانیوں نے بھی اس پہ اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔لیکن جب یہ ٹرائل چل رہا تھااور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں تھی کہ عبدالقادر ملا کو پھانسی دے دی جائے گی۔پاکستان اور اس کی وزارت خارجہ نے مکمل طور پہ اس معاملے سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھا۔کل جب انہیں پھانسی دے دی گئی تو وزیر داخلہ صاحب کو یاد آیا کہ یہ پھانسی نہیں دی جانی چاہئیے تھی۔وزارتِ خارجہ نے اسے بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے کے بے مروتی اور بے حسی کی انتہاء کر دی۔

تحریک آزادی کشمیر کے سر خیل اور پاکستان کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھنے والے سید علی گیلانی نے حکومتِ پاکستان کی اس بے حسی پہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واﷲ تم اٹھ کے آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں

غور کریں تو اس بیان میں آپ کو ان سارے پاکستانیوں کے جذبات نظر آئیں گے جنہیں پاکستان کی زمین کبھی میسر نہیں رہی ۔پاکستان جنہیں اپنے خوابوں کی تعبیر لگتی ہے جو پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتے ہیں۔عبدالقادر ملا اور ان کے دوسرے ساتھی بھی شاید یہی سمجھتے ہوں گے کہ ہم جس دھرتی کی محبت میں جانیں نچھاور کرنے کو تیار ہیں کبھی ہم پہ کوئی برا وقت آیا تو ہمیں اور کچھ نہ بھی ملے ہمدردی کے دو بول ضرور ملیں گے۔ویسے بھی قاعدہ ہے کہ غیرت والے اپنے دوستوں کو اکیلا نہیں چھوڑتے۔یہ بات پاکستان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اس ملک میں تو غیر ملکی سڑکوں پہ سر عام پاکستانیوں کا قتل کرتے ہیں، قاتل کے حصے کا خون بہا بھی حکومت ادا کرتی ہے اور قاتل اپنے ملک چلا جاتا ہے۔ایک عبدالقادر ملا تھے جنہیں ۱۹۷۱ء میں آزادی کی جنگ کے دوران اپنے ملک سے وفاداری کی سزا دی گئی اور وہ پھانسی پہ جھول گئے دوسری طرف شکیل آفریدی ہے جس نے سر عام ملک سے غداری کا ارتکاب کیا لیکن مجال ہے کہ کوئی اسے غدار کہہ سکے۔ہم اس پہ جھوٹے قتل ڈال کے اسے اپنے ملک میں رکھے ہوئے ہیں ورنہ وہ کب کا اپنے دوستوں کے سایہ عاطفت میں ہوتا۔

حکومت کو عبدالقادر ملا کی پھانسی بھلے ہی بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ لگتی ہولیکن پاکستان کے عوام پاکستان کے ان عشاق کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔بنگلہ دیش کے عوام کی طرح پاکستانی بھی دکھی ہیں ۔اﷲ کریم اس شہید کے درجات کو بلند کرے جس نے اس کے دین کی سر بلندی کے لئے اپنی جان نچھاور کر دی۔ہمارے محب وطن غیر پاکستانی پاکستانیو! ہم ضعیف ہیں اور سوائے دعاؤں کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269127 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More