انیس سو سینتالیس کو جب مسلمانوں کی لازوال
قربانیوں کے بعد جب پاکستان معرض وجود میں آیا ۔تو بعض لوگوں اس پاک وطن کو
مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی بجائے آستین کی سانپ کا کردار ادا کیا۔اور شروع
دن سے اس وطن کے حصے بخرے کرنے میں مصروف ہوگئے ۔ اس سلسلے کو سب سے پہلے
مشرقی پاکستان میں غدار وطن شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ زبان تحریک کی شکل
میں شروع کیا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے متحدہ پاکستان کی قیادت پر طرح طرح
کے الزامات لگائے۔ یک طرفہ پروپیگنڈے اور ہندوستانی پشت پناہی کے سبب جب
انیس سو ستر کے انتخابات میں شیخ مجیب کی جماعت کو مشرقی پاکستان میں
اکثریت مل گئی ۔تو شیخ مجیب الرحمن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ کیونکہ
اب انکو ’’منزل‘‘ قریب نظر آنے لگی۔لہذا انہوں نے کھل کر پاکستان کو تقسیم
کرنے کی منصوبے پر کام شروع کیا اور مکتی باہنی ’’جو عوامی لیگ کے
ہندوستانی تربیت یافتہ گوریلہ رضاکار تھے‘‘ کے ذریعے محب وطن پاکستانیوں کو
نشانہ بنانا شروع کردیا۔ ایک ایسے وقت میں جب محب وطن پاکستانی شدید خطرات
سے دوچار تھے، جماعت اسلامی کے رضاکار ڈٹ کر انڈین ایجنٹوں کے سامنے دیوار
بن گئے۔ بعد میں جب حالات زیادہ خراب ہوئے اور افواج پاکستان کو بغاوت
کچلنے کے لیئے کارروائیاں کرنی پڑی۔ تب بھی جماعت اسلامی کے رضاکار پیچھے
نہ رہے ۔اور انہوں نے کھل ملک بچانے کی خاطرپاک فوج کا ساتھ دیا۔ بدقسمتی
سے ہم اس وقت ملک بچانے میں کامیاب تو نہ ہوسکے ۔اور ہتھیار ڈالنے کے بعد
ہم نے بنگلہ دیش کو تسلیم بھی کرلیا۔لیکن اس تمام عرصے میں جماعت اسلامی نے
ثابت کردیا کہ وطن کی دفاع میں وہ کسی بھی قربانی اپنے لیئے باعث اعزاز
سمجھتی ہیں۔ بہر حال بنگلہ دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی نے نہ صرف اسے
تسلیم کرلیا۔ بلکہ عملی سیاست میں حصہ لیکر ملک کو ہندوستانی سیاسی و
ثقافتی اثرات سے صاف کرنے کی نہ صرف پوری کوشش کی بلکہ مختلف وقتوں میں جب
بھی حکومت و اپوزیشن میں رہی انہوں نے ملکی تعمیر ترقی میں اہم کردار
اداکیا۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ بنگلہ دیش جب بن گیا تو
وہاں کے مسلمان اس بات پر خوش ہر گز نہ تھے۔لہذا بنگلہ دیش کے قیام کے
تقریبا ڈھائی سال بعد جولائی انیس سو چوہترمیں وہاں سیلاب آیا اور اس سے
نظام زندگی درہم برہم ہوگیاتو عوام نے اسے موقع غنیمت جانتے ہوئے سول
نافرمانی کی تحریک شروع کی ۔ جس کے ہنگامے پھوٹ پڑے اور بڑے پیمانے پر
مظاہرے شروع ہوئے۔چودہ اور پندرہ اگست انیس سو پچھتر کی درمیانی شب فوج نے
شیخ مجیب کا حکومت ختم کردیا۔اور چند فوجیوں نے مل کر مجیب الرحمن کو اہل
خانہ کے ہمراہ قتل کردیا۔ لیکن مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ واجد بچ گئی۔
یہی حسینہ بعد میں سیاست میں آئی۔ حسینہ واجد کی ہمیشہ جھکاو ہندوستان کی
طرف رہاہے۔ لیکن جب وہ اخری دفعہ وزیراعظم بنی تو اس نے مسلمانوں بالخصوص
پاکستان سے نفرت کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئں ۔ انہوں نے ہندوستانی
مشاورت سے غیر قانونی جنگی جرائم کا ٹریبونل قائم کیا اور اس کے لیئے یہ من
گھڑت جواز پیش کیا ۔ کہ انیس سو اکہتر میں پاکستان کے دفاع کرنے والے جماعت
اسلامی کے ہمدرد آزدی بنگلہ دیش کے غدار ہیں لہذا ان ٹریبونل میں ان پر
مقدمات چلیں گے۔ ان ٹریبونل کے قیام کے بعد پوری دنیا بشمول اقوام متحدہ نے
اس کے قانونی حیثیت پر کئی سوال اٹھائے ۔ لیکن بنگلہ دیشی وزیر اعظم ٹس سے
مس نہ ہوئی ۔کیونکہ انکی طرف سے ان ٹریبونل کے قیام کا مقصدہی یہی تھا کہ
اس کے ذریعے جماعت اسلامی سے وابستہ افراد کو سزائیں دی جاسکے۔تاکہ
ہندوستان کو خوش کیا جاسکے ۔ ان ٹریبونلز نے جماعت اسلامی کے کئی ارکان کو
عمر قید اور پھانسی کی سزائیں سنائی۔ ان میں جماعت کے بزرگ ترانویں سالہ
غلام اعظم کو جب عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔تو کئی اطراف سے اسکی مذمت کی
گئی۔ لیکن آفسوس کہ جس پاکستان کی بقا کا جنگ لڑتے ہوئے جماعت کے لوگ اس ’’انجام‘‘
تک پہنچے اس پاکستان نے بنگلہ دیش کو روکنے کی بجائے یہ کہ کر انہیں مزید
شہ دی کہ یہ ’’بنگلہ دیش کا اندرونی ‘‘ معاملہ ہے ۔ حالانکہ اگر عدل و
انصاف سے کام لیاجاتا تو یہ ہرگز بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار نہیں
دیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ جن لوگوں کو آج موت کی سزاوں اور عمر قید کا سامنا
ہیں۔ انہوں نے اپنی ذات کے لیئے نہیں بلکہ اسی پاکستان کے لیئے آواز بلند
کیا تھا۔ جس پاکستان کے حکمران آج ان کے لیئے دو بول بولنے کی بھی ہمت نہیں
کر رہے۔ پاکستانی کی اس انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویئے اور ہندوستان محبت سے
محبت کی نتیجے میں بنگلہ دیش حکام اب اتنے شیر ہوگئے کہ انہوں پاکستان کو
بچانے کی کوشش کرنے والے جماعت اسلامی کے ایک بزرگ ملا عبدالقادر کو پھانسی
دیکر شہید کردیا۔ واضح رہے کہ ملا عبدالقادر کو اس بات پر قائل کرنے کی
کوشش کی گئی کہ وہ رحم کی درخواست کرے۔ لیکن سلام ہے اس عظیم شہید کو کہ
اسنے زندگی سے محبت کی بجائے پاکستان سے محبت کا ثبوت دیا ۔ ملا عبدالقادر
نے ثابت کردیا کہ انکا انیس اکہتر کو انکی طرف سے کرنے والا اقدام درست تھا
۔اور اس پر اسے کوئی پشیمانی نہیں ۔انکی پاکستان سے محبت کا اندازہ اس بات
سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ کہ جس پاکستان کی وجہ سے وہ پھانسی چڑھنے والے
تھے، تختہ دار پر کھڑے ہوکر بھی اس نے اسی پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی دعا
میں یاد رکھا۔ان کا یہ اقدام ہمارے حکمرانوں کی منہ پر ایک زوردار طمانچے
کی حیثیت رکھتا ہے۔ان کے منہ سے پاکستان کی محبت میں نکلے الفاظ دراصل انکی
طرف سے پاکستانی حکمرانوں اور ارمی چیف کے ضمیر جھنجوڑنے کی کوشش تھا ۔ جن
میں وہ یہ پیغام دے رہے تھے کہ’’ کہ میں تو موت کے دروازے پر کھڑے ہوکر بھی
پاکستان سے محبت کو اپنے لیئے اعزاز سمجھتا ہوں۔ لیکن آپ لوگ پاکستان کے
سیاہ و سفید کے مالک بن کر بھی اس ملک اور ان سے محبت کرنے والوں سے وفا
نہیں کررہے‘‘۔ ملا عبدلقادر شہید اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ جنکے جدائی کا
درد آج پاکستان بھر میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔سوائے اقتدرا کے ایوانوں میں۔
لہذا آئیں اختتام کالم پر اپنے اﷲ سے یہ دعا مانگتے چلیں کہ : یا اﷲ ملا
عبدالقادر کی شہادت قبول فرمائیں اور پاکستان کے حکمرانوں کے دلوں میں
اغیار کی بجائے وطن اور اہل وطن سے محبت کا جذبہ پھر سے بیدار فرمائیں ۔
آمین۔ |