بولنا انسان کا بُنیادی اور
ناگزیر وصف ہے۔ ہر انسان کچھ نہ کچھ بولنا چاہتا ہے۔ بولتے رہنے میں وہ
اپنی بقاء محسوس کرتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ انسان بولے بغیر اپنی بات
بیان نہیں کرسکتا؟ سیانے تو کچھ اور کہتے ہیں۔ اُن کی نظر میں بولنے کا
ماہر تو وہ ہے جو اچھی طرح جانتا ہو کہ کب خاموش رہنا ہے! مگر خیر، اب
سیانوں کی بات سُنتا کون ہے۔
کیا دن رات بولتے رہنا ناگزیر ہے؟ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ بہت سے لوگ غیر
محسوس طور پر یہ ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ بولنا اُن کی ’’مجبوری‘‘ ہے؟
بظاہر وہ اِس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ خاموش رہنے کی صورت میں یا تو وہ
زندہ نہیں رہ پائیں گے یا پھر اپنے وجود کی معنویت سے محروم ہو جائیں گے!
نہ بولنے کی صورت میں پیچھے رہ جانے کا خوف اُنہیں کچھ نہ کچھ بولتے رہنے
پر مجبور کرتا رہتا ہے۔
جن مفید حقیقتوں کو پاکستانی معاشرے نے بھلادیا ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ
اچھا بولنے کے لئے خاموش رہنا لازم ہے۔ جو لوگ خاموش رہنے کا ہنر جانتے ہیں
وہ اپنی بات بہتر انداز سے بیان کر پاتے ہیں۔ خاموش اور پُرسکون رہنے کی
صورت میں انسان اپنے آپ سے ملتا ہے اور اپنی خوبیوں اور خامیوں پر مطلع
ہوکر اپنے وجود کو سمجھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ غیر ضروری گفتگو سے گریز
انسان کو سوچنے اور سمجھنے پر مائل کرتا ہے۔ خاموشی اختیار کرنے کی صورت
میں انسان پر اپنے وجود کے مختلف گوشے بے نقاب ہوتے ہیں۔ خاموشی ہی انسان
کو یہ سکھاتی ہے کہ کب اور کیا بولنا ہے۔ محض بولتے رہنے سے ما فی الضمیر
بیان نہیں ہوتا بلکہ موزوں ترین موقع پر مناسب ترین الفاظ میں بیان کی جانے
والی بات کارگر ثابت ہوتی ہے۔ خاموشی ہی انسان کو بات کہنے کا وہ ڈھنگ
سکھاتی ہے جو سب کو پسند آتا ہے۔ شخصیت کی مرکزیت خاموشی اور گفتگو کے فرق
کو جاننے اور سمجھنے میں ہے۔ جہاں خاموش رہنا ہو وہاں گفتگو سے گریز اور
جہاں بولنا لازم ہو وہاں کم از کم الفاظ میں عمدگی سے اظہار زندگی کو نئی
معنویت اور پختگی سے ہمکنار کرتا ہے۔
جرمن فلسفی شاپنہار کو خاموشی اس قدر عزیز تھی کہ وہ شور و غل کو دنیا کے
چار پانچ بڑے اور سنگین جرائم میں شمار کرتا تھا! شاپنہار اُس زمانے کا
انسان تھا جب صنعتی انقلاب ابھی پوری طرح یا بھرپور طور پر رُونما نہیں ہوا
تھا۔ آمد و رفت کے مشینی ذرائع ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ روز مرہ استعمال کی
بیشتر اشیاء ہاتھ سے چلائی جاتی تھیں۔ یعنی شور مچانے والی چیزوں نے
انسانوں کی دُنیا میں رہنا شروع نہیں کیا تھا۔ قدم قدم پر مشینی کارخانے
تھے ہی نہیں تو شور و غل کہاں سے پیدا ہوتا؟ آج کے مقابلے میں وہ ماحول کس
قدر پُرسکون ہوگا اس کا اندازہ لگانا کچھ دشوار نہیں۔ اب ذرا سوچیے کہ
شاپنہار آج کے دور میں ہوتا تو اُس کی کیا حالت ہوتی، دل و دماغ پر کیا
گزرتی!
ہم شور و غل پیدا اور برداشت کرنے کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اب ہم میں
سے بہتوں کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ خاموش رہنا کیا ہوتا ہے! سب کو شور اِس
قدر پسند ہے کہ ایک دوسرے کی نازک مزاجی اور پرائیویسی کا تصور ذہنوں سے مٹ
سا گیا ہے۔ آج کی گفتگو میں چیخ پُکار اور بدگوئی کا رنگ نمایاں ہے۔ ہم
چونکہ ایک دوسرے کی پرائیویسی، تنہائی اور نازک مزاجی کا احترام نہیں کرتے
اس لئے ایک دوسرے کو مکمل طور پر تسلیم بھی نہیں کر پاتے۔ جنہیں بولنے کا
’’ہوَکا‘‘ ہے وہ بس بولتے ہی رہتے ہیں۔ وہ بالعموم اس بات سے کچھ غرض نہیں
رکھتے کہ اُن کے بولنے یا بولتے رہنے سے کسی پر کیا گزرے گی۔
رات دن ہمارے ارد گرد ایک ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ شہر کی زندگی میں شور و غل
کو نمایاں اور ناگزیر وصف تصور کرلیا گیا ہے۔ گاڑیوں، مشینوں اور ایسی ہی
دوسری بہت سی چیزوں سے پیدا ہونے والا شور تو خیر ناگزیر ہے، لطف کی بات یہ
ہے کہ ہم نے موسیقی بھی وہ اپنالی ہے جس میں صرف شور نمایاں ہے! فلمیں بھی
ہمیں وہ پسند ہیں جن میں چیختے، چنگھاڑتے مکالمے ہوں۔ آمنے سامنے بیٹھ کر
بھی ہم چیخ چیخ کر بات کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی ہوٹل میں بیٹھیے تو ڈھنگ سے دو
باتیں کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف محسوس ہوتا ہے۔
اسٹاک مارکیٹ کی سیر کیجیے تو اُس پر مچھلی مارکیٹ کا گمان گزرتا ہے۔ ذرا
اپنے محلے یا گلی پر نظر دوڑائیے تو ہر طرف شور برپا ملے گا۔ کبھی سبزی
والا صدا لگاتا ہوا گزر رہا ہوتا ہے اور کبھی گول گپے والا احمد رشدی مرحوم
کی میٹھی آواز کا سہارا لیکر آپ کو گاہک بنانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ سڑک
پر ہر ڈرائیور اپنی گاڑی میں نصب ہارن بجانا عین فرض گردانتا ہے۔ حد یہ ہے
کہ لوگ خالی سڑک پر بھی ہارن بجاتے ہوئے گاڑیاں گزارتے ہیں! گویا آج کا
انسان محض شور پیدا کرنے کے مِشن پر نکلا ہے۔ جس شور سے اعصاب کمزور ہو
جاتے ہیں اُسی شور کو ہم نے زندگی لازمی حصہ، بلکہ اوڑھنا بچھونا بنا رکھا
ہے۔
اپنی بات بیان کرنا تو ہماری ضروری یا مجبوری ہوسکتی ہے مگر کیا شور مچانا
بھی ہماری مجبوری ہے؟ کیا شور و غل ہمارے لئے آکسیجن کی طرح ناگزیر ہے؟ کیا
خاموش رہنے کی صورت میں ہم زندگی کی کسی بڑی نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں؟
گفتگو ناگزیر ہو تو چپ رہنا حماقت کی دلیل ہوا کرتا ہے۔ مگر یہ کیا کہ ہم
کچھ نہ کچھ بولتے رہنے کے شوق میں اپنا بہت کچھ (اور کبھی کبھی تو سب کچھ)
داؤ پر لگانے کے لئے بے تاب رہیں؟ ہمیں بالعموم اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ہر
وقت محض بولتے رہنے کی عادت کے ہاتھوں ہم اپنی کس قدر توانائی ضائع کر رہے
ہوتے ہیں اور کتنی ذہنی پیچیدگیوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں! گفتگو کے نام
پر شور و غل کو اپناکر ہم نے اچھی خاصی زندگی کو مستقل عذاب کی شکل دے دی
ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ دو گھڑی چپ رہنا بھی اچھا خاصا دُشوار محسوس ہوتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ بولنے کے لئے کچھ نہ ہو تب بھی ہم بولتے رہتے ہیں!
بلا ضرورت بولنے اور شور برپا رکھنے کی صورت میں ہم اپنے وجود کو مسلسل نظر
انداز کر رہے ہوتے ہیں۔ خاموش رہ کر ہم دراصل اپنی طرف آتے ہیں۔ جب شور و
غل کی عادت سی پڑ جاتی ہے تو انسان ہر وقت کچھ نہ کچھ بولتا رہتا ہے یا کسی
دوسری قسم کا شور پسند کرتا ہے۔ جن کارخانوں میں مشینوں کا غیر معمولی شور
برپا ہو اُن میں بھی کاریگر میوزک سسٹم سے دل بہلا رہے ہوتے ہیں! اِس عمل
کو موسیقی سے شغف نہیں بلکہ محض نفسیاتی پیچیدگی قرار دیا جاسکتا ہے۔ دل و
دماغ کو ضرورت نہ ہو تب بھی ہم ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں یا محض عادتاً
سنیما ہال جاکر فلم دیکھتے ہیں۔
خاموشی اپنے وجود سے شناسا ہونے کا عمل ہے۔ خاموش رہ کر انسان اپنی بات
بہتر ڈھنگ سے بیان کرنے کا ہنر سیکھتا ہے۔
یہ خامُشی ہی دلیل سُخن شناسی ہے
مُجھے نہ بولنا آتا تو بولتا رہتا!
گفتگو سے گریز انسان کو مُطالعے اور مشاہدے کی طرف لے جاتا ہے۔ مُطالعہ اور
مُشاہدہ گفتگو کو بہتر بنانے میں خاصا معاون ثابت ہوتا ہے۔ مزاج میں یہ
تبدیلی مشکل ضرور ہے، ناممکن ہرگز نہیں۔ ع
ذرا سی ہمتِ پرواز کی ضرورت ہے
نہیں ہیں دور بہت شاخِ آشیاں سے ہم |