گذشتہ روز ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی لکھی ہوئی
کتاب ’’فلسفہ محبت‘‘ کی تقریب پذیرائی میں جانے کا موقعہ ملا تو وہاں پر
انکے عقیدت مندوں کی باتیں بھی سننے کا موقعہ ملا اور یہ جان کر حیرت بھی
ہوئی کہ الطاف حسین نے باقی کاموں کے ساتھ ساتھ 13کتابیں بھی لکھ ڈالی
حالانکہ ہمارے آج کے سیاستدانوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں 13کتابیں
نہیں پڑھی ہونگی تقریب میں منو بھائی ،مجیب الرحمن شامی اور حسن نثار جیسے
سینئر صحافیوں نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا مگر یہاں پر جو سب سے
اہم بات تھی وہ یہ کہ الطاف حسین جب بھی کسی جگہ اپنا خطاب کرتے ہیں تو وہ
باقی کے سیاستدانوں سے زراہٹ کے اپنی تقریر کرتے ہیں اور بغیر کسی لگی لپٹی
کے ہر بات کہہ دیتے ہیں جبکہ باقی کسی اور سیاستدان میں اتنی جرئات نہیں ہے
اسکے ساتھ ساتھ ان میں تنقید سننے اور برداشت کرنے کا بھی جذبہ موجودہے میں
نے ایک بار اپنے کالم میں مولانا فضل الرحمن کے حوالہ سے کچھ تحریر کیا تو
انکے بہت سے حامیوں نے مجھے فون کرکے دھمکی آمیز لہجے میں سمجھانے کی کوشش
کی کہ مولانا صاحب جو مرضی کرتے رہیں بس آپ احتیاط کریں اور اگر اتنے ہی
بہادر ہو تو پھر ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے خلاف بھی لکھووہ سبق
سکھائیں گے میں اپنے ہر کالم میں کھل کر تنقید کرتا ہوں اور ملکی تقدیر سے
کھیلنے والی سیاسی جماعتوں ،انکے لیڈروں اور انکے حواریوں پر بغیر کسی لگی
لپٹی کے لکھتا رہتا ہوں مگر آج تک ایم کیو ایم سمیت کسی اور جماعت کی طرف
سے مجھے نہ کوئی فون آیا اور نہ ہی کوئی خط ۔
جس طرح میری تنقید بھی براہ راست ہوتی ہے اسی طرح الطاف حسین کی باتیں بھی
کھلی کتاب کی طرح تھی ان پر الزام لگتا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں
اور جسطرح مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی اسی طرح ایم کیو ایم بھی حکومت
کے بغیر نہیں رہ سکتی خواہ ملک میں کسی فوجی کی حکومت ہو یا خاندانی
جمہوریت چل رہی ہومگر ایک حقیقت جو سب پر واضح ہے کہ ایم کیو ایم میں
خاندانی سیاست کا کوئی عمل دخل نہیں یہاں پر تو فلسفہ محبت کی سیاست ہے جو
محنت کریگا وہ اوپر آئے گا اس جماعت میں کوئی تفریق نہیں جہاں سے ایک لیڈر
نے کھانا کھانا ہے وہی پر ایک عام ورکر بھی کھانا کھائے گا اگر ورکر اپنی
پلیٹ خود دھوتا ہے تو لیڈر بھی اپنی پلٹ خود ہی صاف کرتا ہے اور سب سے بڑی
بات یہ ہے کہ الطاف حسین نے کبھی بھی اپنے لیے وزارت اعظمی یا کوئی اور
سرکاری عہدہ قبول نہیں کیا پاکستان میں تھے تو سرکاری ایجنسیاں انکے پیچھے
تھیں اب وہ برطانیہ میں ہیں تو برطانوی پولیس نے انکاجینا حرام کر رکھاہے
اس موقعہ پر ایک اور بات الطاف حسین نے کھل کرکہی کہ باقی سب سیاستدانوں نے
فوج سے پیسے لیے اور میں نے آئے ہوئے پیسے دھتکاردیے اور اس دور میں پیسے
بانٹنے والے جنرل مرزا اسلم بیگ ،حمید گل اور امتیاز شاہ آج بھی زندہ ہیں
وہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ میں نے آئی ایس آئی سے پیسے لئے یا
نہیں؟الطاف حسین نے دبے لفظوں میں نہیں بلکہ کھل کرکہا کہ میں فوج کی
پیداوار ہوں اور نہ ہی فوج کے اشاروں پر سیاست کرتا ہوں حمید گل اور
بریگیڈیر امتیاز شاہ جانتے ہیں کہ میں نے آئی ایس آئی کے بھجوائے گئے پیسے
واپس کئے یہی میرا جرم ہے اس موقعہ پر انہوں نے موجودہ حکمرانوں کو بھی آڑے
ہاتھو ں لیتے ہوئے کہا کہ مرد کے بچے ہو تو ڈرون گرا ؤ ورنہ قوم کو الو
نہیں بناؤ الطاف حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ عرصہ سے برطانیہ میں وہاں
کی پولیس نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ برطانوی
حکومت میرا پاسپورٹ منسوخ اور میری جان بھی لے سکتی ہے لیکن میں اﷲ کے سوا
کسی سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی کسی سے خوفزدہ ہونیوالا ہوں میں جب پاکستان میں
تھا تو اس وقت بھی مجھ پر مظالم کئے گئے جھوٹے مقدمات بنائے گئے میں جیل
میں رہا لیکن میں نے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا سب لوگ کہتے ہیں کہ
میں نے قائد اعظم کے مزار کے سامنے قومی پرچم کی توہین کی مجھے تو کھمبے پر
چڑھنا ہی نہیں آتا توہین کیسے کر سکتا ہوں۔
آخر میں بات پھر وہی پر آکر ختم ہوتی ہے کہ جس نے فلسفہ محبت کو سمجھ لیا
وہ اس فانی زندگی میں بھی کامیاب ہوا اور آخرت میں بھی کامیاب ہو گا الطاف
حسین کی لکھی ہوئی کتاب ’’فلسفہ محبت‘‘پر اگر یقین کرلیا جائے تو پھر ٹارگٹ
کلنگ ،اغواء اور بھتہ خوری جیسے گھناؤنے جرائم ختم ہو جانے چاہیے اور انکے
پیچھے جن لوگوں یا سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی ہے انکو بھی بے نقاب کیا
جائے امید ہے جس سچ اور حقیقت کا پرچم لیے الطاف حسین چل رہے ہیں اس سے بھی
وہ پردہ اٹھا کر عوام پر احسان عظیم کریں گے ۔ |