امن کی کنجی طالبان کے ہاتھ ہے

جب سے مولانا فضل الرحمٰن اور ڈاکٹرمنورحسن نے شہید اور شہادت پرفتوے جاری کئے ،محب وطن عوام اور خواص نے ان دونوں کے کچے چھٹے ہی نہیں بلکہ کچے پکے ادھیڑنے شروع کر دئے ہیں ۔جماعت اسلا می اور جمیعت علماء اسلام نے کچھ ایسا تاثر دیا ہے جیسے وہی طالبان کو فدائین مہیا کر رہے ہیں اور اصل طالبان لیڈر بلکہ سپریم کمانڈردونوں یہی ہیں ۔سلیم صافی نے اس انٹرویو کے بعد چپ سادھ لی ہے جبکہ وہ بھی اس فتنے میں برابر کا شریک ہے۔سلیم صافی شاید بھول گئے ہے کہ ان کی صحافت بھی ایک فوجی کی مرہون منت ہے۔ورنہ کابل اور جلال آباد جانے والے شنواری اور آفریدی ٹرک ڈرائیورسلیم سافی سے کہیں بہتر مشاہدہ رکھتے ہیں ۔اور پاک افغان تعلقات پر تبصرہ بھی کر سکتے ہیں ۔مگر وہ اس بحث کو فضول تصور کرتے ہیں ۔فوج کے خلاف مہم جوئی میں سلیم صافی کا کردار بھی مشکوک ہے۔سلیم صافی کی صحافت سرحد کے سابق گورنر جنرل (ر)افتحار حسین شاہ کا کارنامہ ہے۔سلیم صافی کو چاہئے کہ وہ اپنے محسن سے متعلق بھی ایک پروگرام کر لے اوریہ بھی بتائے کہ جب اافغانستان میں طالبان اسے سزا دینے والے تھے تو افتحار حسین شاہ نے کس طرح اور کس کے ذریعے اسے بچایا تھا۔ دیکھا جائے تو آج بہت سارے بزرگ کالم نگار بھی فوجی ادوار کی پیداوار ہیں مگر موسم بدلتے ہی ان بزرگوں نے اپنے محسنوں کو بھی نہیں بخشااور چڑھتے سورج کو چالیس توپوں کی سلامی دینے کی رسم بحال رکھی۔سلیم صافی اس سلسلے کا ابتدائی اور چھوٹا کردار ہے ۔جو امن کی آشا کے سائے میں پل کر جوان ہوا ہے۔اس طرح کے کالم نگاروں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ کالم نگاروں کی قلابازیوں کے مصنف جناب داکٹر محمد فاروق نے ان قلم کاریوں پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔کہ یہ حضرات با اقتدار اور با اختیار حکمرانوں کی کس طرح مداح سرائی کرتے ہیں ۔اور پھر پینترا بدل کر ان کے لتے لیتے رہے ہیں ۔ڈاکٹر فاروق لکھتے ہیں کہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ اس ملک کو جتنا نقصان سیاستدانوں نے پہنچایا ہے۔اس سے بڑھ کر دانشور طبقے نے اس ملک کی بربادی کے ذمہ دار ہیں ۔چینی کہاوت ہے کہ شہر کو آگ لگانے کیلئے لشکر کی نہیں بلکہ ایک بیمار چوہے کی ضرورت ہو تی ہے۔چوہے کی دم کے ساتھ جلتی رسی باندھ کر چھوڑ دیا جائے تو گھروں ،گلیوں ،گوداموں سے لے کر کھلیانوں تک بھاگتا پھرے گا اور مرنے سے پہلے سارے شہر کو جلا دے گا ۔ذرا غور کریں کہ کس طرح ایک آدمی نے صحافت کے لبادے میں سارے ملک کو ایک فتنے میں مبتلا کر دیا ہے۔مولانا فضل الرحمان اور منور حسن کو اگر سوالنامہ پہلے سے نہیں ملا ہوا تھا تو تب بھی وہ احتیاط سے کام لے سکتے تھے ۔مگر بغیر سوچے سمجھے وہ ایک چالباز شخص کی باتوں میں آکرکس قدر شرمندگی کا سامنا کررہے ہیں اور اپنی بات پر جھوٹ در جھوٹ بول کراسے سچائی کا چغہ پہنانے میں مصروف ہیں ۔آج ان کی جماعتوں اور ہم مسلکوں کے سارا ملک ان کے خلاف ہے اور ہو سکتا ہے کہ کل یہ احتجاج کسی بڑے حادثے کا باعث بن جائے جس کے ذمہ دار بھی یہ تینوں کردار ہوں گے۔سلیم سافی نے ایک سازش کے تحت نہ صرف جمیعت علماء اسلام اور جماعت اسلاامی کو امتحان میں ڈال دیا بلکہ طالبان کیلئے بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان مسلمان ہیں ۔اور پاکستانی ہیں ۔اور امریکہ سمیت کوئی بھی غیر اسلامی طاقت حکومت پاکستان اور طالبان کے ساتھ امن کی بحالی سے خوش نہیں ہو گی۔طالبان اپنے حملوں سے پاکستان اور اور افواج پاکستان کو نقصان پہنچائیں گے۔تو اس سے بھارت اور اسرائیل اور ان کی حامی طاقتوں کو فائدہ ہو گا،مگر طالبان کو اس سے کچھ نہیں ملے گا۔عقل کی آنکھ سے دیکھا جا ئے تو امریکہ نے پاکستان پر ایک ہی وقت میں دو حملے کئے۔پہلا حملہ ڈرون کا کیا گیا جس میں حکیم اﷲ کو مار دیا گیا یا شہید کر دیا گیا جسے متنازعہ بنا دیا گیا ۔دوسرا خودکش حملہ سلیم صافی کے ذریعے ہوا اور پاکستانی عوام کو دو حصوں تقسیم کر دیا گیا ،سلیم سافی کے خود کش حملے نے جمیعت اور جماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور آج دونوں پارٹیوں کے لیڈر عملاََ عوام کی عدالت میں کھڑے اپنے بیان کا جواب دے رہے ہیں مگر عوام ان کی کسی بات پر کو ئی غور نہیں کر رہی۔جمیعت اور جماعت کے مرحوم قائدین کے قصے بھی سامنے آگئے ہیں اور اخبارات جناب مفتی محمود اور جناب مولانا مودودی کے پاکستان مخالف بیانات شائع کر رہے ہیں ۔یقیناََ موجودہ نسل جناب مفتی محمود اور جناب سید مودودی کے کردار سے واقف نہیں مگر سلیم صافی نے دونوں مرحومین کا منفی کردار نئی نسل سے متعارف کروایا ہے۔جناب مفتی محمود کے حوالے سے مستند کالم نگارلکھتے ہیں کہ وہ پاکستان کے وجود کے ہی مخالف تھے۔مفتی صاحب کا بیان کئی بار دہرایا گیا جس میں انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔خیرت کی بات ہے کہ ایک مفتی پاکستان بنانے والوں کو گنہگار اور پاکستان کو گناہ کا فتویٰ دے رہا ہے اور دوسری جانب اسی مٹی پر سیاست کر تا ہے ۔،حکومت بنا تااور حکمرانی کی باتیں کرتا ہے۔اور پھر ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ بھی بن جاتا ہے۔ بات یہاں نہیں رکتی بلکہ آگے چل کر پاکستانی سیاست کا بیڑا بن جاتا ہے اور اسے ڈبونے کی ہر سازش میں شریک ہو تا ہے ۔وہ اس کے محافظوں اور شہیدوں کو کتوں سے تشبیہ دیتا ہے ،مگر پھر بھی ناقابل گرفت ہے ۔مولانا نے یہ بات طالبان اور وزیرستان کے عوام کے حق میں کہی چونکہ امریکہ کے ڈرون حملوں میں وزیرستان کے عام شہری مارے جا تے ہیں فوجی نہیں ۔یہ سوال طالبان لیڈروں اور علماء کو کرنا چاہئے اور مولانا فضل الرحمان سے پوچھنا چاہئے کہ وہ مسلمانوں اور کتوں میں فرق نہیں سمجھتے تو انہیں مولانا کہلوانے کا کوئی حق نہیں ۔مولانا فضل الرحمان نے تو اپنی خاندانی روایت قائم رکھی ۔اور جس ملک کے وجود کو ان کے والد نے گناہ قرار دیا تھا اس کی مخالفت کا فریضہ سرانجام دیا مگر جو نقصان ڈاکٹر منور حسن نے اپنی جماعت کو پہنچایا اس کا ازالہ اب ممکن نہیں ۔

ایک قومی اخبار نے لکھا ہے کہ مولانا مودودی نے 1948کے کشمیر جہاد کو ما ننے سے انکا ر کر دیا اور انتخابات کو کتو ں کی ڈور کہا ،حیر ت کی بات ہے کہ مو لا نا کی جما عت ا سلامی جو پا کستا ن کے و جو د کی مخا لف تھی وہ اس ملک کی سیا ست میں حصہ دار ہے ،حکو متو ں میں شا مل ر ہتی ہے ،مار شل لاؤ ں سے فیض یا ب ہو تی ہے ،امر یکن ایڈقبول کر لیتی ہیں اور آ جکل جہا د کشمیر میں بھی شامل ہے مگر محافظین وطن کوگالیا ں دیتی ہے اور اپنوں کو شہید بھی تسلیم نہیں کر تی پا کستا ن عوام اور حکو مت و قت کو بغیر کسی مصلحت کے جنا ب فضل ا لرحمان اور ڈاکٹر منور حسن کے معلق سنجیدگی سے سو چنا ہو گا کہ آخر یہ لوگ کس کی ضما نت کر رہے ہیں اور ان کی سیا ست کے پر دے میں کیا چھپا ہے۔طالبان پرالزام ہے کہ وہ آئین پاکستا ن کو نہیں مانتے؟ مگر یہ لو گ تو پاکستا ن کو ہی نہیں مانتے طالبان جہاد کی بات کرتے ہیں اور کئی بار ان کے لیڈر بیا ن دے چکے ہیں کہ اگر بھا ر ت نے سر زمین پاکستا ن پر حملہ کیا تو سب سے پہلی صف میں طا لبان کھڑے ہونگے مگر مولانا فضل الرحمان اور ڈاکٹر منور حسن نے کبھی ایسابیان نہیں دیا۔وہ تو حکومت میں حصے داری اور کشمیر کمیٹی کی چئیرمینی کی بات کرتے ہیں اور فوج کو گلیاں دیتے ہیں۔

13نومبر کے ایک ٹی وی پر و گرام میں میزبان ،عمران خان اور جنرل شاہد عزیز کی بھی کچھ جھلکیاں دکھائیں جو فوج پر تنقیدکر رہے ہیں مگر ساتھ ہی کہا کہ ان لوگوں نے لا ئن کراس نہیں کی ۔عمران خان توسیاست دان ہے اور عمران خان کو خو ش فہمی تھی کہ اس کی جما عت کوفاٹا سے سیٹیں ملیں گی مگر اب خا ن صاحب کو خو ش فہمی دو ر ہو گی ہے۔بیشک جنرل شاہد عزیز نے لائن کراس نہیں کی مگر وہ فوج میں رہے ،پلاٹ ،مربعے اور جر نیلی ومراعات کے ساتھ ریٹا ئر ہو ئے اور آب اسی فو ج سے لی گئی مراعات کے ملے ہوے ایک محل نمامکان میں بیٹھ کر فو ج پر الزامات لگارہے ہیں۔جنرل شاہدہوں یا ڈاکٹر منور حسن حسا ب سب برابر ہو نا چاہیے۔جنرل شاہد عزیز اگر وا قعی اعلیٰ کردار کے حامل ہیں تو انھیں فوج سے لی گئی مراعات واپس کر دینی چاہے یاپھر فوج اور عوام سے معافی ما نگنی چاہے۔ 14نومبر کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں سیلم صافی نے ڈاکٹر منور حسن کے متعلق مزید انکشا ف کیا کہ انہوں نے جلسے کے دوران فوج کے متعلق جو کچھ کہا وہ ناقابل بیان ہے ۔سیلم صافی نے ڈاکٹر منور حسن کے اٹک جلسے اور پریس کانفرنس کا بھی حوالہ دیا کہ جو کچھ یہ شخص اندرون جماعت کہ رہا ہے وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔
جناب لیاقت بلوچ جما عت اور فوج کی قر بتوں کے حوالے تو دے رہے ہیں مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان کا امیر اندرون جماعت کیا کہ رہا ہے اور وہ کو ن سی باتیں ہیں جو بقول سیلم صافی کے قابل بیان نہیں ڈاکٹر منور حسن کے حا لیہ بیا نات نے جما عت اسلامی کا جو چہرہ عیاں کیا ہے اس نے عوام النا س میں خا صکر فو جی جوانوں اور شہیدوں کے خا ندانی میں جماعت اسلامی کیخلاف نفرت کا بیج بو د یا ہے وہ لوگ جو بنگلہ دیش کی حکومت کخلاف تھے آب وہ بھی حسینہ واجد کے اقدام کو درست قرار دے رہے ہیں جبکہ سید علی گیلانی اور جماعت اسلامی کے کشمیر جہا د کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہاہے۔ کسی ا خبارنے لکھا ہے کہ جب امر یکہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے نئی دائی تلا ش کر لی تو جماعت کیلئے امریکہ مردہ باد ہو گیا ،کشمیر کا فساد جہاد بن گیا اور سیاست عین اسلامی ہو گئی ۔مگر صدا فسوس کہ ملکی دفاع اور عوام کی حفاظت کرنے والی فوج جس کی وجہ سے آج جما عت اسلامی سمیت کرو ڑوں پاکستانی اس ملک میں آدھم مچاتے رہتے ہیں ۔اس ملک کے فوجی جوان ملک بچا نے کیلئے قربانیاں دیں ،اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کریں تو وہ شہید ہیں مگر جوامریکی امداد پر پلا ،بڑھا ہو اور اسی کے زیر سائیہ مجاہدبنا ہووہ کیسے شہید ہے۔ پختہ روایت ہے جماعت کی کہ جو کہا اس پر ڈٹ جاو
جو پڑھا پڑھ کے بھلا دیا
جو لکھا تو لکھ کر مٹا د یا

اسلئے منور حسن بھی وہی کرینگے جو ان سے پہلے کر گئے اور ہزار تا و یلیں بیان ہونگی، رجوع یا معذرت کا با ب ان کی ڈکشزی میں نہیں۔

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 91518 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.