یہ لاہور میں ہو کیا رہا ہے زندہ
دلان لاہور میں کبھی کوئی نام نہاد طلبا تنظیم کے غنڈے اور بدمعاش قانون
نافذ کرنے والے افراد پر دیواروں پر وال چاکنگ ختم کرنے کے خلاف حملہ کرتے
اور پرتشدد کاروائیاں کرتے ہیں۔
کبھی غنڈہ بدمعاش کالے کوٹوں میں ملبوس عدلیہ کی نام پر غنڈہ گردی کا
لائسنس حاصل کرنے والے بدقماش اور کالے کرتوت انجام دینے والے وکیل ایک
پولیس افسر کر سرعام زدو کوب کرتے اور مل کر ایک پولیس والے کو بے تحاشہ
مارتے ہیں جس واقعے کو دکھایا گا اور ساری دنیا کے میڈیا میں اس خبر کو
دکھایا جارہا ہے اور کالے کوٹوں کے ہاتھوں کھلونہ بنے نام نہاد آزاد جج
صاحب کا ٹی وی پر بیان چل رہا تھا جو وکلا کے لیے بیان دیتے ہوئے فرماتے
ہیں “وکلا تنظیموں اور بار ایسوسیشنز کو چاہیے کہ ایسے وکیلوں کے معاملات
کو دیکھیں “ کیا دیکھیں اگر وکلا تنظیموں نے ہی اپنی بدمعاشوں کو دیکھنا ہے
تو عدلیہ کس قسم کی دکان لگائے بیٹھی ہے کون دیکھیں ارے پولیس کیس ہے سیدھا
سادھا اور شرم کی بات ہے کہ فی الفور ان وکلا کی ضمانت بھی کروالی گئی واہ
بھئی وکلا گردی کے کیا کہنے اور آزاد عدلیہ کے نام نہاد آزادیوں کے کیا
کہنے کہ کیسے چھپتے چھپانے ضمانت دے دی ارے ان بدمعاش وکلا کی کیا ضمانت دے
دی ان موصوف جج صاحب نے اپنی عزت نفس اور اپنی حفاظت کی ضمانت لی ہے ان
بدمعاشوں کو ضمانت دے کر۔
اور جب یہ بدمعاشی اور غنڈہ گردی کرتے غنڈے اور بدمعاش وکلا کا پولیس افسر
پر ہونے والا تشدد میڈیا عوام الناس کو پہنچاتا ہے تو مرے پے سو درے جس
کیمرہ مین اور رپورٹر نے پولیس افسر پر وکلا کا تشدد ریکارڈ کیا تھا اور
نجی چینل پر دکھایا تھا آج صبح کالے کوٹوں میں ملبوس کالے کرتوتوں کے
چیمپئین وکلا نے اس کیمرہ مین کو دن دیہاڑے روڈ پر روک لیا اس کا کیمرہ اور
چیزیں توڑ دیں اور اس پر اس طرح شدید تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ صحافی
رپورٹر کے زخموں سے خون بہتا خلق خدا نے دیکھا اور اس پر بھی زندہ دلان
لاہور کی بار ایسوسی ایشن کے صدر کا شرمناک بیان اور گھٹیا مؤقف کہ ایسا
کوئی واقعہ تو سرے سے ہوا ہی نہیں۔ کیا یہ دورخی اور بدمعاشی کی وکلا سیاست
نہیں ہے۔
یقیناً کچھھ اچھے وکیل بھی ضرور ہونگے وکلا میں مگر بدمعاش وکلا سے ایک
سوال ہے کہ کیوں غول بنا کر اور جتھے کی صورت میں اپنے مخالفین پر حملہ
کرتے ہو اگر ہمت ہے تو کسی بھی پولیس افسر یا کسی بھی صحافی یا کیمرہ مین
سے ون ٹو ون لڑائی کرو اور پھر دیکھنا اپنی اوقات۔ بالکل اسی قسم کی لڑائی
ایک ایک مخصوص قسم کا جانور کرتا ہے کہ پہلے اپنے جیسے دوسرے جانورں کو جمع
کرتا ہے اور پھر مخالف پر حملہ کرتا ہے وگرنہ اگر اکیلا ہو تو ہر طاقت ور
کے سامنے دم ہلاتا رہتا ہے۔ اس جانور کا موازنہ وکلا بدمعاشوں سے اسلیے کر
رہا ہوں کہ کہیں اس بے زبان جانور کی ہتک و توہین کے زمرے میں نا آؤ اور کل
کو وہ جانور بھی احتجاج کرتا نظر آئے ۔
پہلے بھی شیرافگن، خورشید قصوری، نعیم بخاری اور دوسرے مخالف گروپ کے لوگوں
پر پر غنڈہ گرد وکیلوں کے حملے ساری قوم نے دیکھیں ہیں اور اب تو لگتا ہے
کہ عدلیہ کے بڑے بڑے نام جو عدلیہ تحریک میں بڑے سرگرم ہیں اپنے ہی پالے
ہوئے بدمعاشوں کے ڈر سے منظر سے غائب ہی ہوگئے ہیں اور بے چارے آزاد کیے
جانے والے عدلیہ کے بڑے بڑے لوگ اس چکر میں چپ ہیں کہ اگر کچھ بولے تو یہ
بدمعاش اور غنڈہ گرد قسم کے وکیل تو ججز کی بھی وہی درگت کریں گے جو دوسروں
کی کرتے آئے ہیں۔ اور اس مقام پر آکر لگتا نہیں کہ عدلیہ کے ذمہ دار ججز
کوئی فیصلہ ان غنڈہ گرد وکلا کے خلاف کر سکیں گے اس ملک کی عدلیہ کا اللہ
ہی حافظ۔ ججز کو صرف یہ بات ذہن نشین کرا دی گئی ہے کہ حکومت کچھ بھی کرے
چپ چاپ بیٹھنا ہے ہاں مشرف کے خلاف جو دل چاہے ججز کریں اس کام میں عدلیہ
بالکل آزاد رکھی گئی ہے۔
اب دیکھنا ہے کہ زندہ دلان لاہور پر سخت اور انصاف پر مبنی حکومت کے دعوے
کرنے والے کون لوگ ہیں جن کی بادشاہی میں یہ کارنامے انجام دیے جارہے ہیں
ارے یہ تو وہی ہیں جو ملک سے نکل بھاگے تھے ایک آمر کے ڈنڈے کی ایک ہی چوٹ
سے یعنی ں لیگ ارے نقطہ کہاں گیا کھاگئے نقطہ بڑی بری بات ہے تو بھیا ں لیگ
نہیں بلکہ ن لیگ۔
ملک بھر کے اراکین پارلیمنٹ پر ثابت ہوجانے والے جتنے اسکینڈل اور الزامات
لاہور سے تعلق رکھنے والی اس ایک جماعت کے اراکین کرتے پائے گئے وہ شرم ناک
اور پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ( خدانخواستہ ) اس جماعت (ن لیگ)
کو پورے پاکستان پر حکومت کرنے مل جاتی تو شائد ن لیگ پورے پاکستان کو اپنے
صوبے پنجاب کے عوام سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ بھی وہی کرتی جو اپنے صوبے کے
غریب عوام کے ساتھ کر رہی ہے (ن لیگ کے موجودہ ٥ یا ٧ اسکینڈل سے سب ہی
واقف ہیں اسلیے تفصیل کا موقع نہیں ہے)۔
اور ایک اور شدید قسم کا پروپگینڈہ اور وہ یہ ہے کہ ن لیگ جس کو یہ دعویٰ
ہے کہ وہ ایک قومی سیاسی پارٹی ہے اور پورے ملک میں اسکی نمائندگی ہے یعنی
اسکے منتخب نمائندے پورے ملک سے منتخب ہوتے ہیں تو یہ شدید قسم کا جھوٹ اور
پروپیگنڈہ ہے کیونکہ الحمداللہ اس مرتبہ ٢٠٠٨ کے الیکشن میں سندھ اور
بلوچستان سے ن لیگ کا کوئی ایک بھی رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوا ہے جو سندھ
اور بلوچستان کے عوام کے لیے خوشخبری ہی کا باعث ہے۔
ن لیگ کو اس لیے اس واقعے میں ملوث سمجھا جانا چاہیے کہ لاہور جو اسکینڈلز
اور غیر قانونی حرکات اور واقعات کا گڑھ بنا ہوا ہے وہاں بلاشرکت غیرے صرف
اور صرف ن لیگ نامی گروہ کی حکومت ہے اور ظاہر ہے کہ کسی بھی قسم کے غیر
قانونی کاموں کے خلاف کوئی اقدام نا کرنے پر ن لیگ نامی گروہ کو بلاشرکت
غیرے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا |