حلقہ بلوچ ضلع سدھنوتی کا ایک
اہم حلقہ ہے جو کہ آبادی کے لحاظ سے بھی کافی بڑا ہے اس حلقہ کی مجموعی
صورتحال انتہائی خراب ہے شاید یہ آزاد کشمیر کا وہ بد قسمت لوگوں کا حلقہ
ہے جہاں کے عوام کو ہمیشہ ہی پسماندہ رکھا گیا اس حلقہ میں ایک نمبر دار سے
لے کر وزیر اور وزیر سے لے کر وزیر اعظم اور صدر تک کسی کوکوئی پرواہ نہیں
اور اس سے بڑھ کر چاہے وہ دور مسلم کانفرنس کا ہو یا پی پی پی کا ہر ایک نے
اس حلقہ سے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ ترقی اس حلقہ کا مقدر نہ بنے اور
زیادتیوں پر زیادتیاں ہوتی رہی اب اگر اس حلقہ کی مجموعی صورتحال پر نظر
دوڑائی جائے تو یہاں کے احوال بتاتے ہیں کہ یہ حلقہ ہمیشہ سیاسی گرداب کا
شکار رہا ہے یہاں کی سڑکیں عوام کو کچھ اور ہی پیغام دے رہی ہیں اور اس سے
بھی بڑھ کر تعلیم کسی بھی معاشرے میں ترقی کی ضامن ہوتی ہے اس پورے حلقہ
میں تحصیل کی سطح پر کوئی ڈگری کالج موجود نہیں اگرچہ مسلم کانفرنس کے دور
میں یہاں سے وزیر تعلیم بھی منتحب رہے ہیں اور بلوچ کو تحصیل کا درجہ
دلوانے میں بھی کامیاب رہے لیکن جہاں عوام کو بنیادی حقوق میسر نہ ہوں وہاں
اگر دارلحکومت بھی منتقل کیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا جہاں پر
سکولوں کے اساتذہ کو پسند نا پسند کی بنیادوں پر تقرریاں اور تبادلے کیے
جائیں جہاں آج تک ایک ڈگری کالج کا قیام عمل میں نہیں آ سکا وہاں کی ترقی
کے دعوے داروں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ آیا وہ کس چیز کو ترقی
قرار دے رہے ہیں اور رہا اب کی بار پی پی پی کا دور تو یہ دور مسلم کانفرنس
سے ماقبل پی پی پی کے دور سے بھی بدتریں دور گزر رہا ہے اس بار کے وزیر
صاحب اپنی پارٹی کے کارکنا ن سے نالا ں ہیں وہاں باقی عوام کا اللہ ہی حافظ
ہے وزیر موصوف کا اس بار کوئی کرشمہ زمین پر نظر نہیں آیا جس کی بدولت یہ
کہا جائے کہ آنے والے وقت میں اس حلقہ میں کسی ترقیاتی پروجیکٹ کی امید ہے
اور ان ہی کرشمات کی بدولت لوگ اپنی سیاسی پارٹیاں تبدیل کرتے دیکھائی دے
رہے ہیں البتہ یہ بات سب پر ہی عیاں ہے کہ اس حلقہ کی سڑکیں کھنڈرات کا
نقشہ پیش کر رہی ہیں صحت کے معاملہ میں بھی اس حلقہ میں انتہائی پسماندگی
نظر آئی ہے کے یہاں کے عوام پرائیویٹ ڈاکٹروں کے رحم و کرم پرہیں جس کی
بدولت پرائیویٹ ڈاکٹروں کا کاروبار خوب عروج پر ہے اور اگر کسی مریض کو
انتہائی مجبوری کے باعث کسی بڑے ہسپتال میں جانا پڑھے تو بھی ایک نئی قیامت
کا سامنا کرنا پڑتا ہے پہلی تو بات ہے مریض جیتے جی ہی مر جاتا ہے اور اگر
کسی دوسرے ضلع کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں جانا ہی پڑھے تو سٹرکوں کی حالت اسے
موت کا فرشتہ بن کا سر پر آکھڑی ہو جاتی ہے یوں کہیے کہ اپنے ضلع میں مریض
کو لے جانا صرف حماقت ہی تصور ہو گی چونکہ سٹرک صرف خچر ٹریک ہی رہ گیا ہے
اس میں سڑک کے تمام آثار مخدوش ہو گئے ہیں باقی رہی سہی کسر ہسپتال
انتظامیہ نکال دیتی ہے اور سیاسی لیڈران صرف بونگیاں مارنے کے لئے ہی نظر
آتے ہیں دوسری طرف تحصیل کی سطح پر نہ ڈگری کالج نہ ہسپتال اور نہ ہی سب
ڈویژن عدالتیں موجود ہیں اگر اس ترقی یافتہ دور میں بھی اس حلقہ کو ڈوگرہ
راج کے زمانہ کا حلقہ کہا جائے توبھی بے جا نہ ہو گا کسی لیڈر کسی انتظامی
عہدے پر مامور شخص کو کبھی نہ اپنی ذمہ داری کا خیال آیا اور نہ ہی آنے
والے دنوں میں اس کی توقع کی جا سکتی ہے اور کی بھی کیوں جائے جس جگہ
استادسے لے کر پٹواری تک اور ڈاکٹر سے لے کر انجنیئر تک سیاسی لیڈورں کے
مجاور ہوں وہاں ترقی کے خواب محض مذاق ہی ہے اور اس سے بڑھ کر اگر عوام کی
بے حسی اسی طرح قائم رہی تو یاد رکھنا پھر وزیر اعظم مجید تو کیا اگلا وزیر
اعظم بھی اس حلقہ کو اسی طرح پسماندہ رکھنے میں کوئی کسر رواہ نہیں رکھے گا
چونکہ جب پی پی پی کے ورکر کنونشن میں وزیر زراعت سے پوچھا گیا تھا کہ اس
حلقہ میں ترقیاتی کاموں کا آغاز کیوں نہیں کیا گیا تو وزیر موصوف کا کہنا
تھا وزیر اعظم فنڈز نہیں دے رہے اور فریال تالپور اب اس حلقہ میں برائے
راست فنڈز مہیا کرائیں گی مگر اب وہ دعوے محض مذاق ہی دیکھائی دیتے ہیں اس
لیے اب ان تمام محرکات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات عیاں ہے کہ کسی طرف کوئی
ذمہ دار ی نبھاتے ہوئے دیکھائی نہیں دیتا اب جو کام کرنا ہے اس حلقہ کی
عوام نے کرنا ہے اور وہ طاقت عوام کے اپنے ضمیر کے اند ر مضمر ہے کے آیا
انھوں نے ذاتی فوائد کو ترجیح دینی ہے یا اجتماعی سیاسی لیڈر اپنا مطلب
نکالنے کے لیے چند دن آپ کے میزبان ہوتے ہیں اور پھر اگلے پانچ سال آپ نے
ان کی میزبانی کرنی ہوتی ہے آپ اگر انھیں پروٹوکول نہیں دیں گے یا ان کی
سیاسی مخالفت کریں گے تو یہ اتنے بد دل لوگ ہوتے ہیں کے آپ کی خوشی اور غمی
میں بھی شریک نہیں ہوتے لہذا اپنی ذمہ داری کو پہچانیے اور اپنے مستقبل کا
فیصلہ موقعہ اور محل کے مطابق درست کیجیئے اسی کا نام ذمہ داری ہے اسی میں
آپ کی اور آپ کے معاشرے کی ترقی مضمر ہے - |