اسلام نے زبان کے استعمال کے سلسلے میں ہمیں تشنہ
قانون نہیں رکھا ہے
زبان عجائبات صفات الٰہی سے ہے۔اگرچہ وہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے لیکن حقیقت
میں جو کچھ موجود ہے وہ سب کچھ اس کے تصرف میں ہے۔کیوں کہ زبان موجود
ومعدوم دونوں کو بیان کرتی ہے۔ہر عضو کی حکومت وجود کے کسی ایک خطے میں
ہوتی ہے مگر زبان کی حکومت ساری مملکت وجود پرجاری و ساری ہے۔انسان جب نیند
سے بیدار ہوتا ہے تو تمام اعضاء انسانی زبان سے مؤدبانہ عرض کرتے ہیں’’تیری
سلامتی میں ہماری سلامتی ہے اور تیرے شر سے ہماری خیر نہیں۔‘‘زبان سے جب
بری بات نکلتی ہے تو دل تاریک وسیاہ ہوتا ہے جب کہ زبان سے حق کے صدور پردل
روشن وتابندہ ہوجاتا ہے۔مذہب اسلام نے زبان کے استعمال کے سلسلے میں ہمیں
تشنۂ قانون نہیں رکھا ہے۔بلکہ قرآن واحادیث شریفہ میں زبان کے استعمال
واحتیاط پر مکمل قانون موجود ہے۔مگر افسوس اسے دین سے دوری کہہ لیجئے یا کم
علمی سے تعبیر کر لیجئے،قصداً یا سہواًغفلت کا شکار ہوکر ہم زبان کے
استعمال میں غیر محتاط نظر آتے ہیں۔اور جھوٹ، غیبت،سفلہ پن،فحش گوئی،دشنام
طرازی،زبان درازی،مسخرہ پن،یاوہ گوئی اور دروغ گوئی کے مرتکب بنتے ہیں۔ذیل
میں مختصراًزبان کی آفتوں کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ زبان کے صحیح ودرست
استعمال کی طرف توجہ مبذول ہو اور زبان کی آفتوں سے بچنے کا حتی الامکان
جذبہ بھی پیدا ہو۔
ایسی بات نہ کہو جس کے کہنے کی ضرورت نہ ہوا ور اس کے کہنے سے کسی قسم کا
نقصان یا مضرتِ دینی یا دنیوی نہ ہو۔اگر فضول اور بے ضرورت بات کہی تو حسن
اسلام سے نکل جانے کاخدشہ ہے کیوں کہ پیغمبر اسلام مصطفی کریم ﷺ نے
فرمایا:آدمی کے اسلام کی خوبی اس میں ہے کہ لا یعنی بات ترک کر دے۔لایعنی
کلام کی مثال یہ ہے کہ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کراپنے سفر کے احوال،باغ،بوستاں
کی کیفیت اور جو کچھ رودادہو اس کو بے کم وکاست بیان کرنا،یہ سب یاوہ گوئی
اور زیادہ گوئی ہے۔اس کی چنداں حاجت نہیں اور نہ کہنے سے ضرر کا کچھ اندیشہ
بھی نہیں۔مگر آج بالخصوص دوستوں کے ساتھ ایسی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں۔جس
میں رودادِسفر اور احوالِ شب وروز لطف اندوزی کے لیے بیان کئے جاتے ہیں۔فلم
بینی کے بعد فلم کی مکمل اسٹوری یارانِ مجلس میں قہقہوں کے ساتھ تفریح طبع
اور مزہ کے لیے بیان کرکے دوہرے گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں۔اس لئے کہ گناہ
کا اظہار بھی گناہ ہے۔اسی لیے اگر کسی سے ملاقات ہو اوراس سے ایسی بات
پوچھو جس کی حاجت نہیں مثلاً:کسی سے پوچھنا کے تم نے روزہ رکھا ہے،اب اگر
وہ جواب میں سچ کہتا ہے تو اس نے عبادت کا اظہار کیااور جھوٹ کہتا ہے
توگناہگار ہوگا،اس کے جھوٹ بولنے کے مؤجب ہم ہونگے کیوں کہ اس نے ہمارے بے
جا سوال پر جھوٹ کہا ہے۔اسی طرح کسی شخص سے پوچھا جائے کہاں سے آرہے ہویا
کیا کررہے ہوتو ممکن ہے کہ وہ اس بات کو چھپانا چاہتا ہو اور وہ جھوٹ کہہ
دے۔یہ سب کلام بے جا اور یاوہ گوئی ہے۔معقول بات وہ ہے جس میں باطل کا دخل
نہ ہو۔
منقول ہے کہ ایک دن حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص اہل بہشت سے یہاں آئے
گا۔پس حضرت عبداﷲ ابن سلام رضی اﷲ عنہ دروازے سے داخل ہوئے۔لوگوں نے انھیں
اس عظیم خوش خبری سے باخبر کیا اور دریافت کیا کہ کس عمل کے باعث اس بشارت
عظمیٰ سے سرفراز کیے گئے۔فرمایا کہ میراعمل تو بہت تھوڑا ہے لیکن میں نے
کبھی بھی اس کے بارے میں لوگوں سے دریافت نہیں کیا جس کام سے میرا کوئی
تعلق نہیں اور نہ میں نے لوگوں کی بد خواہی کی۔جو بات ایک لفظ میں ادا
ہوسکتی ہو اگر اس کو دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو یہ دوسرا لفظ فضول
ہے۔شاہکارِ دست قدرت مصطفی جان رحمت ﷺ نے فرمایا کہ نیک بخت وہ شخص ہے جس
نے یاوہ گوئی سے خود کو روکا اور (راہِ خدا) میں زیادہ مال صرف کیا۔لیکن
لوگ اس کے برعکس کرتے ہیں کہ مال کو فضول اور بے کار دباکر رکھتے ہیں اور
کلام ٖفضول صرف کرتے ہیں۔مزید فرمایا:آدمی کو زبان درازی سے بدتر کوئی چیز
نہیں دی گئی۔ذہن نشین رہے کہ ہمارا ہر جملہ حساب میں لکھا جائے گا۔جیسا کہ
ارشاد باری تعالی ہے۔ترجمہ:’’کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس
ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔‘‘(سورہ ق،آیت۱۸،پارہ۲۶،کنزالایمان) |