تماشہ

ایک شخص اپنے ،معاشرے میں بہت پڑھا لکھا ۔تجربے کار ،ہنر مند۔محنتی ،سوشل کام کرنے والا،دولت مند ،تعلق والا ،صحت یاب ،خوبصورت ،سمجھدار یہاں تک کہ ہمدرد بھی تھا مگر اس کی اپنے حلقہ جاناں میں دو پیسے کی عزت نہیں تھی ،مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کی عزت نہ ہونے اور ہر شخص کی نظر میں نفرت ہونے کی وجہ کیا ہے جب اس کی کھوج لگائی تو پتہ چلا کہ اپنی نفرت کا بیج اس نے اپنے ہاتھوں سے بویا ہے،یہ اپنی بے عزتی کا خود ذمہ دار ہے۔اس کے پیچھے کوئی سازش نہیں کوئی سیاست نہیں بلکہ اس کی لمبی زبان ہے ۔اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ،مداریوں، اسٹیج ڈراموں،منڈی، بازاروں،میں استعمال ہونے والے ہوتے ہیں ، ہر ایک شخص کی عزت نفس ہوتی ہے جب کسی کی عزت کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو کسی کو کیا پڑی کہ وہ آپ کی کرے، انسان گوشست پوست،خون،کان ناک ، جسم کے ڈھانچے سے کبھی شائستہ،مہذب،باوقار،باکردار نہیں ہوتا بلکہ اسکی زبان الفاظ لہجہ ،گفتگو،اسے مقام دیتی ہے ۔ زبان کے بارے میں بڑے مشہور قسم کے اقوال زریں بھی ہیں،کہ زبان کا وزن سب سے کم ہوتا ہے مگر اس کو سنبھالنا کسی کسی کو آتا ہے،کہتے ہین جس نے زبان کر کنٹرول کیا اس نے سب سے مشکل کام کیا،سب سے میٹھی بھی زبان ہے اور سب سے کڑوی بھی زبان ہے۔ ورنہ انسان تو پوری دنیا میں سب ایک جیسے ہیں ،یہ بات آج مجھے اس وقت یاد آئی جب میں نے اپنا ٹی وی آن کیا ایک دو تین نیوز چینل تبدیل کئے سب پر ایک ہی طرح کی خبریں ،تبصرے تھے کہ اسمبلی میں دوران سیشن (ن) لیگ کے رہنما چوہدری نثار نے مہنگائی ،ڈرون حملوں اور الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف آواز اٹھانے والی جماعت تحریک انصاف کی کوشش کو تماشہ قرار دیا جس پر اپوزیشن جماعت نے اسمبلی کا بائی کاٹ کیا ، وہ واک اوٹ کر گئے اور مطالبہ کیا کہ جب تک چوہدری نثار اپنے الفاظ تماشہ جو انہوں نے تحریک انصاف کے لئے استعمال کئے واپس نہیں لیتا واک اوٹ جاری رہے گا ۔موصوف نے ایسا پہلی بار نہیں کیا بلکہ اس سے قبل بھی متعدد بار وہ ایسے الفاظ ،ایسی زبان ،ایسے بیانات دے چکے ہیں جن پر اپوزیشن نے با قائدہ احتجاج کیا ،اسمبلی کے اندر اور باہر دو دو سیشن لگتے رہے ۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اور اپنی ہڈ دھرمی پر قائم رہے یہ اسٹیج ڈراموں اور مداریوں کے الفاظ ملک کی قومی اسمبلی میں جو پورے ملک کی عوام کی نمائندگی کرتی ہے پہلی بار یا موجودہ حکومت میں ہی استعمال نہیں ہو رہے بلکہ ماضی ایسے بہت سے تماشوں سے بھر پڑا ہے ۔کہتے ہیں کہ چالیس سال کے بعد بھی انسان کے اندر شائستگی اور عاجزی نہ آئے تو سمجھ لو کہ وہ بڑا بد قسمت ،اور بے ایمان انسان ہے یہی بات یہاں پر بھی ہے کہ دوبار پہلے ادھوری حکومت کرنے والی سیاسی جماعت کو اب تیسری بار موقع ملا مگر اس نے ماضی سے کچھ نہ سیکھا وہی پرانی روش وہی پرانے ڈرامے وہی پرانی سیاست وہی لمبی زبانیں ۔اپنے ،مخالفین کے لئے ناشائستگی کی آخری حد تک جانے والے رویے۔ یہ عوام کے نام نہاد نمائندے جب اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں تو تہذیب،اخلاق ،انسانیت کیوں بھول جاتے ہیں ۔ ان کو ان کا ضمیر کچھ کہتا کیوں نہیں یہ اتنے کیسے بے حس ہو جاتے ہیں کہ ان کو حلق خدا کی آواز بھی سنائی نہ دے ۔ یہی چوہدری نثار اپنی ماضی کی وہ تقاریر پھر سے سنیں جو انہوں نے دھاندلی کر کے حکومت میں آنے سے پہلے کی تھیں تو یہ بھی وہی کچھ کرتے تھے جو آج دوسری جماعتیں کر رہی ہیں ۔آج جب یہ خود ماضی کے حکمرانوں کی طرح اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں عوام مہنگا ئی اور بے روزگاری کی دلدل میں پھنسی خود کشیاں کر رہی ہے اور کوئی ان کے حق میں آواز بلند کر رہا ہے تو یہ اسے کبھی تماشہ کبھی ڈرامہ کبھی بغاوت ،کبھی غداری قرار دیتے ہیں۔جناب موصوف تماشہ یہ نہیں ہوتا کہ کوئی حق اور سچ بات کرے تو اس سے دشمنی مول لو۔ ،ڈرامہ یہ نہیں ہوتا کہ کوئی اپنے ملک و قوم کو بچانے کی بات کرے ،کشکول توڑنے اور غلامی سے نجات کی بات کرے ۔بلکہ تماشہ مداری کا وہ کھیل ہوتا ہے جو تباتا کچھ ہے ،دیکھاتا کچھ ہے اور کہتا کچھ اور ہے ،ڈرامہ اسٹیج کا ہوتا ہے جس میں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ایک فنکار غیر اخلاقی اور غیر مہذب الفاظ بولتا ہے ،جناب ذرا غور کیجئے گا،ذرا سوچئے گا کہ ڈرامہ کو ن کر رہا ہے ،آج آپ کی حکومت جس راستے پر چل رہے ہیں اس سے تو عام آدمی کا جینا دور کی بات موت بھی مشکل ہے جناب اونچی آواز میں بولنے سے انگلی اٹھا کر حقائق چھپانے سے حالات اچھے نہیں ہوجاتے آ پ اگر آپ سچے ہیں تو پھر چیئر مین نادرا کو رات کے دو بجے گھر بھیجنے کی کیا ضرورت تھی ایسی کون سی اس نے غلطی کر لی تھی کہ آپ نے اسے نوٹس بھی نہیں دیا اور ایمرجنسی میں نکال دیا جس کا راگ آپ الاپ رہے ہیں اگر وہ سچ ہے تو پھر عدالت نے اس کو کیسے بحال کر دیا،ابھی اس دونمبری کے دھبے کا نشان ختم نہیں ہوا تھا کہ آپ نے چیئر مین پیمرا کو بھی بونگے الزام لگا کر انہیں اتوار کے روز نوکری سے نکال دیا،کیا یہ تماشہ نہیں کہ اپنی مرضی کا سب کچھ ہو جو آپ کے قصیدے نہ پڑھے اس کو اس ملک میں رہنے کا حق نہیں،ہاں یہ سب کھیل تماشے ماضی میں بھی ہوتے رہیں ہیں مگر ان میں اور آپ میں فرق ہے اور ہونا چاہیے۔باتیں تو ماضی کی حکومت بھی کرتی تھی سب اچھا ہے کا راگ تو سب ہی الاپتے تھے، آپ نے کیا نیا کیا، جناب یہ جو قرضہ اسکیم آپ نے نکالی اس کا پول بھی کھل جائے گا سب کو پتہ ہے کہ اس کے پیچھے کیا حقیقت ہے ۔وہ ضرورت مند،وہ بے روزگار،وہ اصلی مستحق جس کا نام لے کر آپ نے اس کا اجرا کیا ہے وہ ہمیشہ کی طرح محروم ہی رہے گا۔یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ کہانیاں سامنے آتی رہیں گی۔عوام نے آپ پر اس لئے عتماد نہیں کیا تھا کہ ان کا جینا محال ہو جائے بلکہ اس لئے کیا تھا کہ ملک کے ساتھ ساتھ عوام کی قسمت بھی سنور نے میں آپ اپنی دیانت داری سے کام کریں گے مگر افسوس کہ آپ نے خود تو کوئی سبق نہیں سیکھا عوام اور ملک کا بھی براحال کر دیا۔اگر آپ ملک و قوم کے لئے کچھ کر نہیں سکتے تو خدا کے لیے ان کو تو نہ روکیں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں ،جو عوام کو موت کے منہ سے نکال کر غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75045 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.