فرض کریں کہ چار مسلح ڈاکو ایک
گھر میں داخل ہوتے ہیں، اہلِ خانہ کو یرغمال بناتے ہیں اور پھر اسلحے کے
زور پر ان کا تمام روپیہ پیسہ، زیور اور گھر کی قیمتی اشیا لوٹ کر فرار ہو
جاتے ہیں اور گھر والوں کو تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ اگر ان ڈاکوؤں کی
قسمت خراب ہو اور وہ پکڑے جائیں اور پھر عدالت میں ان پر یہ جرم ثابت بھی
ہو جائے تو انہیں زیادہ سے زیادہ دس سال اور اگر ان کا وکیل قابل ہو تو تین
سال قید بامشقت ہوگی۔
اب فرض کریں کہ آپ اپنی نئی نویلی گاڑی اپنے فلیٹ کے باہر کھڑی کرتے ہیں،
رات کے پچھلے پہر آپ کا ایک رذیل قسم کا ہمسایہ جس سے آپ کی حال ہی میں
جھڑپ ہوچکی ہے، لوہے کے ڈنڈے برسا کر آپ کی پندرہ لاکھ کی گاڑی کو چند
منٹوں میں چکنا چُور کردیتا ہے تو یقین کیجئے تمام پاپڑ بیلنے کے بعد بھی
آپ اسے دو سال سے زیادہ کی سزا نہیں دلواسکیں گے۔
اسی طرح بالفرض اگر میں کسی شریف آدمی کو اس نیت کے ساتھ اغوا کروں کہ مجھے
اس کا قتل کرنا ہے اور پولیس کے ہتھے چڑھ جاؤں اور پولیس نہایت چابک دستی
کے ساتھ میرا چالان عدالت میں پیش کرے تو بھی مجھے دفعہ 364 کے تحت زیادہ
سے زیادہ دس سال کی سزا ہوگی۔
اسی طرح سرکاری عمارت سے بلا اجازت قومی پرچم اتارنے کی سزا تین سال سے
زیادہ نہیں ہے، ملاوٹ شدہ غذا، مشروب اور ادویات بیچنے کی سزا صرف چھ ماہ
اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ ہے، فحش گانا گانے کی سزا تین ماہ ہے۔ غلامی،
یعنی لوگوں کی خرید و فروخت اور انہیں پیسے کے عوض ایک ملک سے دوسرے ملک
بطور غلام بھیجنے کی سزا سات سال سے زیادہ نہیں ہے، جبری مشقت کی سزا پانچ
سال سے زیادہ نہیں اور اگر کوئی شخص اس نیت کے ساتھ اسلحہ اکٹھا کرتا ہے کہ
وہ پاکستان کے خلاف جنگ کرے گا تو یقین کیجئے کہ اس کی سزا بھی تعذیرات
پاکستان کی دفعہ 122 کے تحت دس سال سے زیادہ نہیں۔
ان تمام سزاؤں کو یہاں بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بظاہر سنگین
نظر آنے والے جرائم کی سزائیں اتنی سخت نہیں ہیں، جتنا عام طور پر خیال کیا
جاتا ہے، تاہم ایک جرم ایسا ”سنگین“ ہے کہ اس کی سزا اوپر بیان کیے گئے
تمام جرائم سے زیادہ سخت ہے اور وہ جرم ہے ناشائستہ ایس۔ایم۔ایس یا ای۔ میل
بھیجنا! وزارت داخلہ کی ایک پریس ریلیز کے مطابق غیرمہذب ایس۔ایم۔ایس اور
ای۔میلز پھیلانے والوں کے خلاف آپریشن کا آغاز وزیر داخلہ رحمان ملک کی
ہدایت پر کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس جرم کی سزا چودہ سال ہے اور اس میں
ملوث شخص کی جائداد بھی ضبط کی جاسکتی ہے۔ رحمان ملک صاحب نے فرمایا ہے کہ
عوامی لیڈر شپ کے خلاف بے ہودہ ایس۔ایم۔ایس اور ای۔ میلز بھیجنے والوں کو
پکڑنے کے لیے ایک سینٹر قائم کردیا گیا ہے جہاں شکایت درج کروانے کے محض
اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر ”مجرم“ کو پکڑ لیا جائے گا۔
جب سے میں اور میر ے دوست مسعود تنہا نے رحمان ملک صاحب کی یہ ”تڑیاں“ سنی
ہیں، اس کی جان پر بن آئی ہے، کیوں کہ اس کا سارا وقت ”سائبر کرائم“ میں
گزرتا ہے۔ یعنی اسے جب بھی کہیں سے کوئی ایسا لطیفہ یا پیغام بذریعہ
ایس۔ایم۔ایس موصول ہوتا ہے، تو وہ اسے فوراً اپنے موبائل فون کی ایڈریس بُک
میں شامل تمام لوگوں کو بھیج دیتا ہے۔ یوں تو اس بے چارے کی کوئی جائیداد
نہیں، جسے ضبط کیا جاسکے، البتہ اسے یہ دھڑکا ضرور لگ گیا ہے کہ کسی دن
ایف۔آئی۔اے والے اسے پکڑ کر چودہ سال کے لیے اندر نہ کردیں۔ جب اس نے اپنے
اس خوف کا اظہار مجھ سے کیا تو میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ ”جس دن ہمارے
قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے چوکس ہوگئے کہ اڑتالیس گھنٹے کے اندر اس
شخص کو پکڑلیں جس نے بے ہودہ ایس۔ایم۔ایس کی ہو، تو وہ دن عید سے کم نہیں
ہوگا، کیوں کہ اس دن کے بعد اس ملک میں خودکش دھماکے، خوں ریز ڈکیتیاں،
کروڑوں روپے کے وائٹ کالر کرائم سب ختم ہو جائیں گے۔ لہٰذا ان تمام باتوں
کے عوض تمہیں تو کیا، اگر مجھے بھی جیل جانا پڑے تو پروا نہیں!“
میری اس مدلّل گفتگو کے باوجود مسعود تنہا مطمئین نہیں ہوا، کیوں کہ اس کا
کہنا یہ تھا کہ اس ملک میں کار چلاتے ہوئے موبائل فون سننے پر تو چالان
ہوسکتا ہے، لیکن آئین توڑنے پر، سینکڑوں بچیوں کو مسجد میں فاسفورس بم سے
جلانے پر، چیف جسٹس کو ہٹا کر قید کرنے پر، وزیراعظم کو ملک بدر کرنے پر
اور بلوچ لیڈر کو ہلاک کرنے والے کو ایک ہزار روپیہ جرمانہ بھی نہیں کیا
جاسکتا، اس لیے وہ اس خوش فہمی میں نہیں رہے گا۔ مسعود تنہا کو نہ جانے
کیوں یہ وہم ہو گیا ہے کہ ہو نہ ہو حکومت نے یہ سارا ڈراما اسے پکڑنے کے
لیے رچایا ہے۔
قطع نظر اس بحث سے کہ حکومت سائبر کرائم میں ملوث کسی شخص کو پکڑ سکتی ہے
یا نہیں، (بے شمار باتوں میں سے) ایک بات ضرور وضاحت طلب ہے کہ اگر کوئی
شخص صدر یا گورنر کو باقاعدہ مار پیٹ کر یا زدوکوب کر کے کوئی کام کرنے پر
مجبور کرے یا انہیں ان کے قانونی فرائض بہ زور طاقت ادا کرنے سے روکنے کی
کوشش کرے تو اس کی زیادہ سے زیادہ سزا تعذیرات پاکستا ن کی دفعہ 124 کے تحت
سات سال ہے۔ لیکن اگر کوئی”شریف“آدمی ان شخصیات کے خلاف محض کوئی لطیفہ یا
پیغام ایس۔ایم۔ایس کے ذریعے پھیلائے گا تو اسے چودہ سال کی”رحمانی سزا“ دی
جائے گی۔
ویسے ذاتی طور پر مجھے Prevention of
Electronic Crimes Ordinance, 2009 کی دفعہ 14(2)بہت پسند آئی ہے،
کیوں کہ اس کے تحت اگر کوئی شخص کسی کو ”ان چاہے برقی خطوط“ (Spam
Emails کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے) بھیجتا ہے تو اسے پچاس
ہزار روپے جرمانہ ہوسکتا ہے۔ میری ہٹ لسٹ پر چوں کہ ایسے بے شمار لوگ ہیں
اس لیے آج کے بعد اگر مجھے کوئی ”ان چاہا برقی خط“ موصول ہوا تو میں اسے
وزارت داخلہ کو بھیج دوں گا تاکہ وہ ملزم کو اڑتالیس گھنٹوں کے اندر پکڑیں
اور ثواب دارین حاصل کریں۔ |