ساری دنیا میں ہر سال کرسمس کا
دن منایا جاتا ہے یہ دن نہ صرف عیسائیوں کا تہوار ہے ۔ بلکہ دُنیا بھر کے
مسلمانوں کے لئے بھی خوشی اور مسرت کا موقع ہے کیونکہ مسلمان بھی المسیح
علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اس پُر مسرت موقع پر کرسمس ٹری بنائے جاتے
ہیں خوشی کے گیت گائے جاتے ہیں ہر جگہ دعائیہ سروسز اور خوبصورت تقریبات
منعقد کی جاتی ہیں۔ اور لوگ اپنے مسیحا کو خوب خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اس
سب کے باوجو د بالعموم طور پرمعاشرے اور انسان کی عملی زندگی میں اخلاقیات
کی جو تبدیلی حضرت عیسیٰ علیہ السلام لے کر آئے ۔آج پھر اس کی ضرورت محسوس
کی جارہی ہے ۔ کیونکہ معاشرے کی زبوں حالی کے جو حالات آپ کے زمانے میں تھے
آج بھی انسانیت کو انہی جیسے حالات سے واسطہ ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ
المسیح علیہ السلام کی آمد کی خوشی کے ساتھ ساتھ اُن کے دئیے ہو ئے پیغام
کو عملی طور پر اپنی زندگی میں لایا جائے۔
قبل از آمد المسیح علیہ السلام، کُرّہ ارض انسان کی خود غرضی کی بھینٹ چڑھا
ہوا تھا لوگ آپس میں دست و گریبان تھے جنگ و جدل ، ظلم و جور اور بد امنی
کا دور دورہ تھا ۔ انسان نے ہر طرف نفرت و حقارت کی اونچی اونچی فصیلیں
کھڑی کر رکھی تھیں احترام آدمیت دلوں سے مفقود ہو چکا تھا تہذیب و تمدن اور
شرم و حیا کی دھجیاں بکھیری جارہی تھیں معاشرے پر بے بسی اور مایوسی کے
آثار نمایاں تھے لوگ ظلمات کے بھنور میں پھنسے ہوئے جہالت کے بحر بے کراں
میں غوطے کھا رہے تھے ماحول بُرائی کی دھول سے آلودہ تھا جس کا تعفن ہر طرف
پھیلا ہوا محسوس ہوتا تھا گلستان انسانیت ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا
چنانچہ کرّہ ارض کے مکینوں کی اس حالت زار پر رحمت باری تعالیٰ جوش میں آئی
۔ اور اس کی قدرت سے اس عالم ناپید میں موجود گھٹن اور نااُمیدی کی فضا میں
ایک سلامتی اور یاس کا ستارہ نمودار ہوا۔جس کی تابانی سے مُردہ دلوں کو
روشنی اور زندگی حاصل ہوئی۔ مرجھائے ہوئے گلہائے چمن میں خوشبو اور تازگی
بکھر گئی ۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات بابرکات تھی جنھیں اللہ تعالیٰ
نے امن، محبت اور مسیحائی کا پرچم دے کر آسمان رحمت سے فرش زمین پر مبعوث
فرمایا۔ آپ نے مایوس اور دکھی انسانوں کے زخموں پر مرہم رکھا اور ہمیشہ کی
زندگی کا پیغام دیا۔ آغوش مریم اس آفتاب ہدایت کی کرنوں سے منور ہو گئی۔
جہان رنگ و بُو سے قتل و غارت گری اور ظلم و زیادتی کے بادل چھٹنے لگے ۔
خواب مریم شرمندہ تعبیر ہوکر سوئی ہوئی انسانیت کو بیدار کرنے لگا اور اس
پر اپنے علم و ہنر کی ضیاپاشیاں شروع کر دیں۔
آمد المسیح علیہ السلام سے آفاق خوشی اور مسرت کے نغمات سے گونج اُٹھے ۔
ابن مریم نے آسمانی پیغام کے ذریعہ دنیا کو محبت اور امن کے پھولوں اور
پھلوں سے سرسبز و شاداب کردیا۔ یُوں معاشرے میں پھیلے ہوئے خوف ، بدامنی
اور نفرت کے سائے ختم ہونے لگے۔ گلشن زیست میں ہرسُو رنگینیاں بکھر گئیں۔
آپ کا مقصد حیات محروم اور ٹھکرائے ہوئے انسانوں کو ان کا حقیقی مقام عطا
کرنا تھاانہیں اللہ تعالیٰ کے دین کی روشنی پہنچانی تھی۔ المسیح علیہ
السلام نے انسانیت کو جنگ سے نفرت اور امن سے محبت کا درس دیا۔ آپ نے انسان
کو مستقل کامیاب زندگی کے حصول کا راستہ بتایا جو تمام نعمتوں اور آسائشوں
سے مزّین ہو گی ۔آپ کی آمد سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو منزل کا نشان اور
مقصود زندگی حاصل ہوا۔
المسیح علیہ السلام نے دُنیا کو حق و صداقت کا پیغام دیا اُن کے دلوں میں
اُلفت ، محبت ، امن اور سچائی کے پھول کھلائے آپ کی قربانی اور زندگی کی
جدوجہد کی بدولت سارا گلستان عالم لذت و سرور سے سرشار ہوکر پیار و محبت کی
خوشبو سے مہکنے لگا۔ برگ و بار ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے۔ زمین کی
بے قراری کو قرار آنے لگا۔ بے سکونی امن و چین میں بدل گئی۔
آج پھر کُرّہ ارض کے مُکیں ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں سب کا چین و سکون
برباد کرنے میں مصروف ہیں خود غرضی ، حرص و ہوس اور توسیع پسندی کے عزائم
نے انسان کو بھیڑیا بنا دیا ہے جو ایک دوسرے کی گردنیں دبوچ رہے ہیں ایک
باپ کی اولاد پھر بربادی کی جانب بڑھ رہی ہے زمین پیار سے تشنہ لب ہے انسان
اپنے پیارے المسیح علیہ السلام کے درس کو بھول چکے ہیں آج امن کی پیاسی ارض
وطن پھر اپنے مسیحا کی منتظر ہے ۔ ابن مریمؑ آئے دکھی انسانوں کے مسیحا
لوگوں کے دلوں کو آپس میں جوڑنے والے ایک بار پھر آسمان دنیا پر طلوع ہو جا
اور اپنی اولاد ، اپنی اُمت کی جہالت اور نابینا پن کا نظارہ کر ان کو پھر
سے بینائی عطا کردے ان کو پھر سے دیدہ ور بنا دے۔ اللہ کرے انسانوں کو ایک
روشنی او ر رہنمائی کا ستارہ جلد میسّر ہو۔ آمین |