قلبِ منو ّر کا طلبگار……فضیل
احمد عنبر ؔناصری
شعری مجموعے یا دینی و ادبی یا کسی بھی موضوع پر صاحبینِ کمال کی آن لائن
تصانیف، اِظہار خیال کے لیے جب بھی ہمیں موصول ہوتی ہیں تو، ان میں سے کوئی
تو شائع شدہ تصنیف ہوتی ہے، یا پریس کو جانے کو تیار کسی نئی کتاب کا کوئی
مسودہ ہوتا ہے۔ اول الذّکرپر اِظہارِ خیال، کتاب کے تعارف و نکاسی کی ضرورت
پوری کرتا ہے اور موخرالذکر کے لیے مضمون، کتاب کی زینت بن کر کتاب اورصاحبِ
کتاب کے وقار میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔
مولانا فضیل احمد عنبرؔ ناصری صاحب کا مجموعۂ کلام پریس جانے کو تیار ہے،
جسے ای میل کے ذریعہ ہم تک پہنچا یا گیاتھا،اِس حکم کے ساتھ کہ ہم بھی اِس
پر اِظہارِ خیال کی سعادت حاصل کریں۔ظاہر ہے اِس پر ہمارے جو بھی تاثرات
ہوں گے ، وہ کتاب کا حصہ بنادئے جائیں گے، اور اِس بات کا فیصلہ بھی کریں
گے کہ کتاب کی قدر و قیمت میں یہ کہاں تک اِضافے کا باعث بن پائے ہیں۔ سچی
بات تو یہ ہے کہ ’’قدر و قیمت میں اِضافے ‘‘ کے بجائے ہمیں یوں کہنا چا ہیے
: دراصل مولانائے محترم عنبر ؔصاحب کے لیے یہ کوئی قابلِ فخربات نہیں کہ
عزیز بلگامی نے’’ حدیث عنبر ‘‘پر مضمون لکھا، بلکہ سعادت کی بات تو یہ ہے
کہ مولانا فضیل احمد عنبرؔ ناصری صاحب نے عزیز بلگامی کو’’حدیثِ عنبر‘‘
پراِس مضمون کی تحریرکا شرف بخشا ہے۔جس پر ہم اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
دو وجوہات ایسی ہیں جن کی بنا پر ہمیں اپنے اِظہار ِ خیال کے دوران بہت
زیادہ چوکنا و محتاط رہنا پڑرہا ہے۔ ایک تو وجہ وہی ہے، جس کا ذکر ابھی ہم
نے کیا، یعنی یہ کہ ہمارا یہ مضمون زیر طبع کتا ب کا حصہ بننے جارہا
ہے،چنانچہ اِس کے ایک ایک لفظ کا انتخاب حد درجہ احتیاط کا متقاضی ہے،ورنہ
کسی بھی بے احتیاطی کے سبب خود اپنے ہی مضمون کے ذریعے ہماری اپنی مٹی پلید
ہو سکتی ہے ۔ دوسری اور نہایت اہم وجہ یہ ہے کہ جس کتاب پر ہم اپنے تاثرات
قلمبند کررہے ہیں ، وہ ایک ایسے قد آورشاعرو فنکار کا مجموعۂ کلام ہے، جو
اپنے علم و فضل کی بنا پر نہ صرف یہ کہ ایک بلند مقام پر فائز ہے، بلکہ جن
کی اُٹھان ہی شعری اور ادبی نقطۂ نگاہ سے ایک گنگناتے ماحول میں ہوئی ہے ،
جیسا کہ خود ذی مرتبت شاعر موصوف فرماتے ہیں:’’شعر گنگنانے کی عادت خاکسار
کو پانچ چھ کی سن سے ہی رہی ہے ، بلکہ کہہ لیجئے اور پہلے سے ، والدہ
مرحومہ ، والد محترم اور بڑے بھائی بہنوں کی گنگناہٹ نے اسے بھی اسی راہ پر
ڈال دیا تھا……‘‘،ظاہر ہے ،گنگناتے وہی ہیں، جنہیں موزونیت کی شکل میں خدا
کی جانب سے ایک خاص عطا میسر آتی ہے، جس کا فیض، عام نہیں ہوتا۔اکثر اوزان
اور بحورکی پیچیدگیوں کے درمیان گھر کر، نومشق ، نوجوان شعراء اِس سلسلے
میں ہم سے استفسار کرتے رہے ہیں،کہ اوزان کا مسئلہ کیسے حل ہو؟ اِس کے جواب
میں ہم اِن سے صرف یہی کہتے رہے ہیں کہ،شاعری کے میدان میں کودنے سے پہلے
اِس بات کا جائزہ ضرور لیا کریں کہ کیا فی الواقع وہ اپنے اندر موزونیت کے
جراثیم فطری طور پر موجود پاتے بھی ہیں یا نہیں۔ اِس کا طریقہ ہم اُنہیں یہ
بتاتے رہے ہیں کہ شاعری کے نام پر جو کچھ بھی وہ لکھ رہے ہیں کیا وہ
گنگنائے جانے کے قابل ہے یا نہیں! اگر ایساوہ نہیں کر پا ر ہے ہیں تو شاعری
کی زحمت نہ اُٹھائیں اورخود اپنے آپ پر احسان فرمائیں اورقلم و قرطاس سے
وابستہ رہنے کا اِتنا ہی شوق ہے تو نثر نگاری کی طرف توجہ دیں۔
یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا، ورنہ ہم یہ عرض کر رہے تھے کہ جب اِس باکمال
شاعر کی تصنیف پرہم کچھ لکھنے بیٹھے تو مذکورہ دووجوہ کے سبب،لکھنے سے پہلے
ہی جیسے کچھ لمحات کے لیے ہم ٹھٹک سے گیے تھے، یہ سوچ کر کہ کیا ہم جیسے
ہیچمدان بھی،اب اِس قابل ہو گیے ہیں کہ مولانا عنبرناصری صاحب جیسے فن
کاروں پر اپنے تاثرات پیش کرنے کی جسارت کر نے لگ جائیں گے۔!! کیوں کہ شاعرِ
موصوف کی زیر نظر کتاب میں ’’پیش بندیاں‘‘ کے زیرعنوان اُن کا ایک ایسا
مضمون شامل ہے،جس میں اُن کی شخصیت اور اور اُن کے شعری پس منظر کے بارے
میں بڑی اہم معلومات سامنے آئی ہیں اور اِس مضمون نے ہمیں بے حد متاثر کیا،
اِس درجہ متاثر کہ اِس کے مطالعے میں ہم ایسے غرق ہوگیے کہ اِس حقیقت کو
تقریباً بھول ہی گیے کہ ہمیں ایک مجموعۂ کلام پر اپنے تاثرات تحریر کرنے کا
حکم دیا گیا ہے،اوریوں محسوس ہو رہا تھا جیسے مولانائے محترم جیسی محققانہ
بصیرت کی حامل شخصیت کی ایک نادِر تحقیقی و تاریخی نثرپر ہمیں مضمون قلم
بند کرنا ہے۔ تذبذب کے ایک عجیب دائرے میں ہم خود کو گھرامحسوس کر رہے تھے۔
کیوں نہیں،موصوف نے فصیح و بلیغ فقروں، متاثر کن جملوں کے ذریعہ ہم پر وہ
جادو کیا کہ جی چاہ رہا تھا کہ بس پڑھتے جائیں ، اور اِس مضمون کا اِختتام
کبھی نہ ہو۔ شاید یہ ہمارا لاشعور ہی تھا جو بار بار ہمیں یاد دلاتا رہتا
کہ، صاحبِ مجموعہ کی نثرنگاری پر نہیں اُن کے کلام پر اِظہارخیال کرنا ہے،
لیکن ہم بضد تھے کہ اِس مضمون کے کیف سرور سے لطف اندوزہونے میں ہمارا
لاشعور بھی خلل انداز نہ ہونے پائے۔ یہیں سے اندازہ ہونے لگا کہ اِس قدر
خوبصورت نثر لکھنے والا، جس پر شاعری کا گمان ہو نے لگے، اپنی شاعری میں
بھی یقینا فکر و نظر کے خوشنما گل بوٹے ہی کھلائے ہوں گے۔کتاب میں بیشتر
اصحاب قلم نے معنی آفرینی سے مملو اُن کے اشعار کے خوب حوالے دیے ہیں۔ چاہے
تو ہم بھی اُن کے اشعار کے حوالے دے سکتے ہیں،لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اُن کے
لیے اپنی تہنیت کو ایک ندرت سے روشناس کریں یعنی کیوں نہ ہم پہلے اُن کے
کچھ خوبصورت فن پاروں کی ہی ایک بساط بچھادیں، تاکہ سخن شناسوں کو اندازہ
ہو جائے کہ وہ قرطاس و قلم کے ساتھ اِس وقت کس مقام پر متمکن ہیں ، اور ہم
جیسے چھوٹے لوگ کس طرح اِس موقع کوغنیمت جانتے ہوئے اپنے دامن کو اِس مضمون
کے ذریعہ حاصل ہونے والی سعادتوں سے بھر رہے ہیں:
ایک جگہ فرماتے ہیں:’’……دس بارہ دن قیام کے بعد پھر پاکستان گئے تو واپس نہ
لوٹے ، اس دوران ان سے ملاقات کے لئے خاکسار نے ہی پاکستان کا احرام باندھا
……‘‘۔ایک جگہ اور فرماتے ہیں:’’……کہا جاتا ہے کہ بہار جس طرح مردم خیز ہے
مردم خور بھی ہے ، پتہ نہیں یہ بات کس حد تک درست ہے مگر یہ درست ہے کہ
بہار کے اکثر علماء نے اپنے فضل و کمال کے باوجود محض حقیقی تواضع ، کسرِ
نفسی کی بنیاد پر زمانہ کو اپنی شناسائی سے محروم رکھا ……‘‘۔ یہ جملے
ملاحظہ ہوں:’’……یہاں بھی باضابطہ شاعر کا اگرچہ ایک گونہ فقدان ہی تھا لیکن
ادق اردو زبان یہاں بھی رائج تھی اور وہ بھی تب سے جب سے اردو آئی تھی ،
دادا مرحوم مولانا عبدالرشید ناصری گو رسمی عالم نہ تھے مگر بہترین خوش خط
ہونے کے ساتھ عمدہ ادیب بھی تھے ، اردو اتنا نستعلیق اور شستہ لکھتے کہ
پڑھتے اور دیکھتے ہی بنتی……‘‘۔اِن الفاظ کے تیور ملاحظہ ہوں: ’’…… حالاں کہ
رمضان کے مقدس ماہ میں اتنی فرصت کہاں کہ خامہ فرسائیوں کے لئے کوئی گنجائش
نکل سکے، لیکن دل کا درد رو کے نہ رک سکا اور الفاظ کا جامہ پہن کر ہی اس
نے راحت کی سانس لی……‘‘۔مدرسہ کے باورچی کا یہ تذکرہ تو پڑھنے سے تعلق
رکھتا ہے:’’……مدرسہ کا باورچی عجیب ہیئت کا تھا ، آواز زنانہ ، رفتار زنانہ
، انداز زنانہ ، غرض کہ مرد محض نام کو تھا ، ورنہ اس کی ہر ادا مستورات
والی تھی ، ہمیشہ دوپٹہ اوڑھے رہتا ، اپنے لئے مؤنث کے صیغے استعمال کرتا ،
کھانا خوش ذائقہ تو کیا بناتا، ایسا بھی نہ بناپاتا کہ طلبہ آسانی سے اتار
سکیں ، تاہم یہ طباخ ادارہ کا جزو اہم تھا ، اس کے دور میں کتنے ہی طباخ
آئے اور چلے گئے ۔مگر یہ ٹکا ہوا تھا ، مشق سخن شروع کی تو پہلا ہدف اسی کو
بنایا ، مدرسہ کے ترانہ کی زمین اور بحرپر تنقیدی اشعار لکھ دئیے گئے جو
اسے پڑھ پڑھ کر سنائے گئے ، ہم ذوق طلبہ تک جب یہ اشعار پہونچے تو انہوں نے
بھی وقت بے وقت پڑھنا شروع کردیا اور اس کے پاس جاجاکر۔ وہ بے چارہ کوفت ہو
کر بار بار دھمکیاں دیتا کہ ناظم صاحب کو کہہ دوں گی، مگر کون سنتا؟ساتھیوں
میں ناچاقی ہوتی تو ’’ہم خیال‘‘ طلبہ آتے اور مخالفانہ اشعار کی فرمائش
کرتے ، بندہ تک بندیاں کردیتا۔ خوب ہوا چلتی ، مصرعے دوہرائے جاتے ، اشعار
پڑھے جاتے، حالانکہ بلند پروازی، نازک خیالی، ژرف نگاہی اور بالِ عنقا
پکڑنے کے فن سے یکسر ناآشنا تھا……‘‘۔آج کل کے کمرشیل مشاعروں کے بارے میں
اِن کا یہ اِقتباس عبرت ناک منظر پیش کرتا ہے، تاہم اسلوب اور اِس کی ادبی
چاشنی تلخ حقیقت کو تک دل کش بنا دیتی ہے:’’…… اشعار سے اب لوگوں کو دل
چسپی کہاں ، مشاعرے ضرور منعقد ہوتے ہیں ، اشعار بھی پڑھے جاتے ہیں ، مگر
قدیم روایتوں کو جس طرح ان مشاعروں میں مسترد کردیا گیا ہے ، اس سے ہمت اور
ٹوٹ جاتی ، لوگ کہتے ہیں کہ مشاعروں سے ادب پھیلا ہے ، زبان مضبوط ہوئی ہے
، اس کا دائرہ اور وسیع ہوا ہے ،اس خیال میں دم تو ہے مگر یہ اس دور کی بات
ہے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے ، جہاں تک موجودہ مشاعروں کا حال ہے
تو واقعہ یہ ہے کہ مشاعرے گلیمرہی کی ایک نئی شکل بن چکے ہیں ، یہ اسی وقت
کامرانی کے زینے طے کرتے ہیں جب ان میں حسن کی جلوہ فرمائیاں بھی ہوں ،
گھنی زلفوں کا اظہار اور موٹے میک اپ بھی ہوں ، جسم کی نمائش بھی بے شرمی
کے ساتھ ہورہی ہو، پھر اشعار اتنے فحش کہ جوان اپنے شباب کی بربادی پر اتر
آئیں۔ گویا فلمی دنیا ہے جہاں اداکار کے ساتھ اداکارہ کاہونا بھی از حد
ضروری ہے اور وہ بھی ایسی اداکارہ جو جمال کے ساتھ شوخ ادائیں بھی رکھتی ہو
، مشاعروں میں ذوق ادب کی تعمیر عنقا ہوکر رہ گئی، شعرو سخن کے نام پر اب
جو محفلیں منعقد ہو رہی ہیں ان میں ’’تعمیر ادب‘‘ کم اور ’’تفریح نظر‘‘
زیادہ منظور ہوتی ہے ، احقر نے یہی کچھ دیکھ کر کہا تھا
ہماری بزم ادب میں شریک ہیں جتنے ٭ فقط جمال کے شیدا ہیں فکرو فن کے نہیں……‘‘
اِسے ملاحظہ کریں: ’’……دماغ اتنا چلتا کہ ہر دوسرے تیسرے دن ایک غزل تیار
ہوجاتی ، پھر تو عالم یہ ہوا کہ ضرورت مند ادھر کا رخ کرنے لگے ، کوئی سہرے
کی فرمائش کرتا ، کوئی ترانہ کی درخواست ، وقت کا ناقدرا تو تھا ہی، اس کا
خون بہاکر درخواست کرنے والوں کو خوش کرتا رہا ……‘‘۔’’ضرورت مند ادھر کا رخ
کرنے لگے‘‘ …… کا تو جواب نہیں۔
میں جانتا ہوں محترم عنبر صاحب یقینابرا مان جائیں گے اگر میں اُن کی شاعری
پر اِظہار خیال سے پہلو تہی کروں۔لیکن یہ حقیقت وجہ اطمینان ہے کہ شاعر
موصوف،’’عصر حاضر کے میر تقی میر جناب ’’ڈاکٹر کلیم عاجز‘‘صاحب کے شاگردوں
میں سے ہیں۔ میں صرف اِتنا چاہوں گا کہ موصوف کے کلام سے میرے اپنے پسندیدہ
شعر بلا تبصرہ قارئین کی نذر کردوں، کیوں کہ مضمون کا دامن ہمیشہ تنگ ہی
ہوتا ہے :
ہیں امیر ہی کو جینے کے حقوقِ عام حاصل
یہاں مفلسوں کا کوئی بھی گزر بسر نہیں ہے
……
تقدیر کا کاتب مرا ہمراز لگے ہے
تا’’عرشِ بریں‘‘ اب مری پرواز لگے ہے
……
دنیا کی کسی شے پہ بھروسہ نہیں کرتے
ہم وہ ہیں جو ایمان کا سودا نہیں کرتے
……
خدا کی جستجو باقی نہیں ہے
دلِ اﷲ ہوٗ باقی نہیں ہے
پڑھا کرتا ہوں روز وشب نمازیں
مگر میرا وضو باقی نہیں ہے
……
میری ہستی سے تجھے اتنی عداوت کیوں ہے
مردِمسلم ہوں؛ کوئی ’’بندہ الحاد‘‘ نہیں
……
گلشن گلشن آگ کا منظر
دریا دریا خوں کا سمندر
قریہ قریہ بم کے دھماکے
کوچہ کوچہ برسے پتھر
کشتیٔ ملت ڈوب رہی ہے
اونگھ رہا ہے مردِ قلندر
کوئی نہیں مفلس کا یہاں پر
بیٹھ کے بِلکے، روئے عنبرؔ
……
ایسے نہ ٹل سکیں گی ابد تک تباہیاں
ہاتھوں میں کوئی عدل کا پیمانہ چاہیے
ہرگز سکوت سارے مرض کی دوا نہیں
کچھ کے لئے تو جرأت رندانہ چاہیے
……
گر تجھ میں ہو نہ موج سے لڑنے کا حوصلہ
اے بے ضمیر جا کے کناروں سے پیار کر
میرا جگر نہیں کہ جھکا دوں جبیں تمام
محبوب ایک اور ہزاروں سے پیار کر؟
……
اٹھ کہ اب ہنگامۂ محشر بپا ہونے کو ہے
تیرا یہ آرام دہ، یہ نرم بستر کب تلک
ڈوبتا انسان لمحے بھر کو ابھرا بھی تو کیا
یہ جہانِ نور، یہ ’’خورشیدِ خاور‘‘ کب تلک
……
’’بادۂ تہذیب حاضر‘‘ مست رکھتا ہے تجھے
گرچہ رہرو کے لئے؛ ’’بانگ درا‘‘ رہتا ہے تو
اٹھ! کہ ’’چشمِ دہر‘‘ کو ہے؛ صرف تیرا انتظار
برق کر خود کو؛ کہ ’’پابندِ حنا‘‘ رہتا ہے تو
اپنی فطرت کو ’’فسونِ مہر‘‘ سے بے گانہ رکھ
کارواں کی گرد کی صورت؛ فنا رہتا ہے تو
……
لہو دے دیں گے، لیکن ہم ہیں وہ خود دار دیوانے
ترے دربار سے اک چیز بھی ہمدم نہیں لیں گے
جلاتی جائے بجلی ہم نہ چھوڑیں گے مشن اپنا
نشیمن جب تلک قائم نہ ہوگا؛ دم نہیں لیں گے
……
ہمیں کے خون جگر سے اسے حیات ملی
ہمیں سے لوگ کہے ہیں کہ اس چمن کے نہیں
ہماری بزم ادب میں شریک ہیں جتنے
وہ شاعرات کے شیدا ہیں فکر و فن کے نہیں
……
رسول اﷲ کے سانچے میں سو فیصد جو ڈھلتے ہیں
وہی ’’اصحابؓ ‘‘ کہلاتے ہیں ’’جنت‘‘ میں ٹہلتے ہیں
وہی اصحاب جو ’’دین ہدیٰ‘‘ کے واسطے ہر دم
کبھی کانٹوں پہ چلتے ہیں کبھی گرمی سے جلتے ہیں
……
دنیا ہے نام؛ دجل وسراب وخیال کا بھولے سے نام مت لے یہاں اس وبال کا
اس ’’زلف مشکبو‘‘ پہ نہ اترائیں اس قدر
ایسا نہ ہو کہ یہ کوئی گیسو ہو ’’زال‘‘ کا
……
صورت میں ولی اور طبیعت میں ہیں ’’انگریز‘‘
اس دور کے ’’ملا‘‘ نہیں چنگیز ہیں چنگیز
اب تیری نواؤں میں نہیں ’’جوہرِ تاثیر‘‘
سونے دے زمانے کو؛ چپ اے ’’مرغِ سحر خیز‘‘
حق بات بتانے میں نہیں مجھ کو کوئی عار
جتنے بھی ہیں ’’شیخان حرم‘‘ سب ہیں ’’شر انگیز‘‘
……
کھو دیا ہے جس کو تو نے اب اسے مڑ کر نہ دیکھ
حرفِ باطل کو ’’کتاب زیست‘‘ میں شامل نہ کر
کون ہے جس نے چکھی ہو ’’لذت آبِ حیات‘‘
عارضی ’’نقش منور‘‘ پر نچھاور ’’دل‘‘ نہ کر
……
یہ شعر وہ ہیں، جنہیں فکر آخرت کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ہمارے معاشرے میں
آج غم و اندوہ ، مصائب و آلام ، بے چینی و اضطراب کی جو ہوائیں چل رہی ہیں،
اِلٰہی پیغام کے حوالے سے اِن کا رُخ موڑنا ایک ایسی ضرورت ہے ، جس کا
ذریعہ اگر چہ کہ صرف اور صرف شاعری نہیں بن سکتی، لیکن بہت بڑا رول ضرور
ادا کر سکتی ہے ۔ کیوں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مادّیت زدگی کے مارے
انسانوں کا سہارا ہر زمانے میں وہ لطیف جذبات وا حساسات ہی رہے ہیں جو
شاعری کے ذریعے اُبھر کر سامنے آئے ہیں یا لائے گیے ہیں۔ہمیں اسرائیلیات
میں ایک اقتباس ملتا ہے، جو اگرچہ کہ حسب معمول تحریف کے نقوش بھی اپنے
اندر رکھتا ہے، تاہم اِس میں ایک نادر تاریخی حقیقت تحریف کے پردوں سے بھی
ہمیں خوب جگمگاتی دکھائی دیتی ہے، جو حضرت داؤد علیہ السلام اور آسمانی
کتاب زبور سے متعلق ہے۔ہم یہ اصل اقتباس اور اس کا ترجمہ پیش کررہے ہیں:
"Spiritual and Religious turbulence were most likely the first medium in
history for the writing of poetry. Possibly the first book of poems, and
definitely the most widely read throughout history, is the Book of
Psalms, written in part by King David. The Book of Psalms is filled with
poetry in which David expresses his love, faith, sorrow and doubts to
his creator. Man, from the earliest times has always searched for a
deeper meaning to life and has used poetry to express these feelings." ©
(ترجمہ:بہت ممکن ہے ،روحانی اور مذہبی اتھل پتھل ہی شایدتاریخ میں شاعری کی
تخلیق کا پہلا ذریعہ ثابت ہوئی ہو۔ممکن ہے پوری تاریخ میں منظومات کی بڑے
پیمانے پر پڑھی جانے والی پہلی کتاب،ضرور با الضرورـ’’زبورـ‘‘ ہوگی(جسے
مضامیر داؤد بھی کہا جاتا ہے)اور جسے داؤد علیہ السلام نے تحریر کیا
تھا(اصل میں یہ آسمانی کتا ب تھی اور بنی اِسرائیل میں اِسے داؤد علیہ سلام
کی تصنیف کے طور پر مشہو ر کیا گیا: عزیز بلگامی)۔ یہ کتاب مناجات پر مشتمل
تھی اور شاعری سے بھر پور تھی، جس کے ذریعہ داؤد علیہ سلام اپنے رب سے اپنی
محبت کا اِظہار فرمایا کرتے تھے، اپنے جذبۂ عبودیت، غم اور اپنے اشکالات
لحنِ داؤدی میں پیش فرماتے رہتے تھے۔ ابتدائے آفرنیش سے ہی، اِنسان، بذریعہ
شاعری اپنی زندگی کے گہرے معانی کی جستجو میں رہا ہے……)۔ (حوالہ: پوئیٹری
امیریکا ڈاٹ کام)۔
افسوس کا مقام ہے کہ اِس موثر ذریعہ کو اِنسانی فلاح کے لیے اِستعمال کیے
جانے کا عمل یکلخت رک سا گیا ہے۔ ایسے میں مولانا عنبرؔ ناصری صاحب اور اِن
کی شاعری اُسی داؤدی مشن کی تکمیل کا مظہرنظر آتی ہے جس کا ذکر مذکورہ بالا
انگریزی اقتباس میں کیا گیا ہے، خصوصا ً اُن کی موضوعاتی نظمیں شاہ کار ہیں
اور جن کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ تاہم جہاں تک اُن کی غزلوں کا
سوال ہے،ہمارا احساس ہے کہ ابھی اِن کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت باقی رہ
گئی ہے، اور اُن کی شاعری کے مجموعی مزاج سے ہمیں قوی اُمید ہے کہ اُن کی
یہ غزلیں بھی بہت جلد زُلف و رُخسار کے تذکرے سے آزاد ہو کر بارگاہِ خدا
وندی میں سجدہ ریز ہو جائیں گی۔
مجموعی طور پرفکرِ دینی پرمبنی کلام پر مشتمل اُن کی اِس بیش بہا تخلیق
’’حدیثِ عنبر‘‘کے لیے اُن کی خدمت میں اپنی دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے دست
بہ دُعا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ملت کے اِس وفا شعار شاعر کے علم و فضل کو اِتنی
بلندی عطا فرمائے کہ وہ روشنی کا ایک مینارہ بن جائے اور اپنے اِنسانیت
نواز پیغام کی کرنیں اپنی شاعری کے حوالے سے سارے عالم میں پھیلائے ، تاکہ
گم کردہ راہ تاریکی پسند اِنسانیت ایک بار پھر اپنے معبود کو پہچان لے اور
اپنے مقصدِ حیات سے واقف ہو جائے۔ آمین |