تبصرہ وتعارفِ کتب
کتاب کا نام: بنیاد کا پتھر
تصنیف: مولانا عبدالقیوم حقانی
تاریخ طباعت: جمادی الثانی ١٤٣٣ھ بمطابق ٢٠١٢ئ
ضخامت: 272صفحات
قیمت: درج نہیں
ناشر: القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ خالق آباد نوشہرہ کے ۔پی۔ کے
بنیاد کا پتھر اپنے موضوع پرایک اچھوتی اورالبیلی کتاب ہے۔کتاب کو ناول
کہنے کی قطعا گنجائش نہیں مگر لطف و سرور افسانے سے کم بھی نہیں۔کتاب اول
تا آخر دیکھی، اسلامی ادب میں ایسی مثالیں خال خال ملتی ہیں۔اصاغر و گمنام
کارکنوں، مخلص احباب ورفقا ء اور جانثاران رفقاء زندگی پر لکھنا کمیاب ضرور
ہے مگر یہ روایت بالکل ناپید نہیں۔اس کتاب کا اصل موضوع دینی اداروں، سماجی
و سیاسی تحریکات میں جو لوگ مرکزی کردار ادادکرتے ہیں مگر ظاہراً و باہراً
ان کا علم خواص کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا ہے۔ آج کے جدید میڈیائی دور میں
تو ہر چیز فورا ً منظر عام پر آجاتی ہے مگر سچ یہ ہے کہ آج بھی کسی ادارے
کی تعمیر و ترقی اور انتظام و انصرام، کسی سیاسی پارٹی کی تنظیم و ترتیب
اور کسی انقلابی کارواں کے نظم و ضبط میںبنیادی طور پر بہت ہی قلیل لوگ
خدمات انجام دیتے ہیں۔ان اقل لوگوں کی حددرجہ محنت،کام سے شغف،خلوص و للہیت
اور بے انتہا ذہانت ان اداروں کو بام عروج تک پہنچانے کاسبب بنتی ہے۔یہ بھی
ایک اٹل حقیقت ہے کہ ایسے ادارے، تنظیمیں، پارٹیاں کامیابی وکامرانی کے بعد
ایسے جواہرپاروں اور مخلص وگمنام کارکنوں کو تکمیلِ مقصد کے بعد خاموشی سے
راستے سے ہٹا دیتی ہیں۔یعنی قائد یہاں بھی ا ندھے ہوتے ہیں۔کسی معمولی
کمزوری ، ہلکی سی لغزش،کسی چمچے کی غلط رپورٹ سے ان کی تمام محنت اور خلوص
پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔مشاہدہ بتاتا ہے کہ بعض دفعہ تو ایسے ایسے'' عظیم
''لوگوں کو قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے اور باقاعدہ تشہیر کی جاتی ہے کہ انسان
کانپ جاتا ہے۔ اس رویے سے بہر حال گریز کیا جانا چاہیے۔ اس کتاب کامرکزی
محرک بھی ایسے ہی چند مخلص کارکن بنے ہیںج کی شبانہ روز محنت سے ادارہ ترقی
وتعمیر کے منازل طے کرتا گیا ہے۔مولانا عبدالقیوم حقانی داد اور مبارک باد
کے مستحق ہیں کہ انہوں نے انہوں نے ان مخلصان کی خدمات کو اچھے وقتوںمیں
فراموش کرنے کے بجائے پوری کتاب لکھ کر ان کی محبت و خلوص کو ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے اَمر کردیا ہے۔ورنہ ہمارے ہاں مجموعی طور پر ایسے جفاکشوں اور
اداروں کی تعمیر وترقی، تزئین و ارائش، انتظام و انصرام اور نظم و ضبط میں
''بنیادکا پتھر'' بننے والوں کا انجام کافی حدتک ناخوشگوار ہوتا ہے۔ مغربی
دنیا کی ترقی کا راز یہی ہے کہ وہ اپنے جفاکش اور قوم و ملت اور اداروں کے
لیے قربانی دینے والوں کی کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ان کوفکر
معاش سے تاحیات آزاد رکھاجاتا ہے۔مشرقی دنیا میں یہ عنقاء ہے اور اس کا
نتیجہ بھیانک ہے۔مغربی دنیامیں ایسے جاندار کانامے انجام دینے والوں کو
مختلف''خطابات'' یا ''نوبل انعام'' کی شکل میں ایک بھاری معاوضہ دیا جاتا
ہے تاکہ مزید کارنامے وجود میں آسکیں۔ہم مغرب کی نقالی غلط چیزوں میں تو
سرعت کے ساتھ کرتے ہیںمگرایسی اچھی باتوں کی تقلید سے کنی کتراتے ہیں۔
صاحب کتاب مولانا عبدالقیوم حقانی کا ''رفیق سفر'' جگہ جگہ ان کے ساتھ نظر
آتا ہے۔کبھی جامعہ ابوھریرہ اور کبھی ٹرسٹ کا حساب و کتاب کرتا نظرآتا ہے
تو کبھی رفیق عزیز اور ان کے والدین جامعہ کے مختلف شعبوںکی''چوکیداری''
کرتے نظر آتے ہیں۔مولانا کا'' رفیق عزیز''ہمہ وقت خدمت میں مصروف ہوتے ہیں۔
''رفیق عزیز'' روز عید بھی خوشی خوشی تصنیف و تالیف اور کمپوزنگ کا کام
کرتا نظرآتا ہے، اس سے نہ ان کے چہرے پر بل آتے ہیں نہ ان کا چہرہ شکن آلود
ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کام کا بہانہ بنا کر، نہ کسی عزیز کی ملاقات کا چکمہ
دے کرکام سے جی چراتے ہیں۔''رفیق عزیز'' ان خدمات کی عوض کوئی بڑی خواہشات
بھی نہیں پالتا ہے۔بس اتنی سی خواہش ہوتی ہے کہ ''علوم دینیہ کے مطالعہ کا
موقع،ادارے کی ہمہ وقت خدمت،ایک چھوٹا سا ملکیتی بیتِ عنکبوت،قرب اساتذہ
اور رضائے رحمن''بس یہی تو حاصل زندگی یعنی دارین میں کامیابی۔ہاں ''رفیق
عزیز'' کو ان کی خدمات کا صلہ بھی ملتا ہے اور ایسا صلہ جو ان کی وہم و
گمان میں بھی نہ ہوگا۔حالانکہ اسلامی نقظہ نظر سے دنیا میں نیک کاموں کا
صلہ ملنا ضروری نہیںمگر آج کاجدید دور متقاضی ہے کہ صلہ ملنا چاہیے، کیونکہ
احسان کا بدلہ احسان ہی سے اتاراجاتا ہے۔روزجزا تو رب رحمن از خود صلہ دیں
گے۔جب انہیں تمام سہولیات مہیا کی جاتیں ہیں تو''رفیق عزیز''کام ،کام اور
کام کی پالیسی اپنا لیتے ہیں۔ان کی انہی خدمات کے صلے میں''رفیق عزیز''اپنی
مخلصی، جفاکشی کی وجہ سے ایک فکرانگیز،سبق آموز اورعلمی وادبی اچھوتی کتاب
کا سبب تصنیف و تدوین کا سبب بنے ہیں۔اورجب تک ادبی دنیا میں یہ کتاب پڑھی
جائے گی''رفیق عزیز'' کو لوگ پہچانتے رہیں گے۔پیش لفظ مولانا طاہر محمود
اطہر، مقدمہ مولانا عبدالمعبود اور حرف مزین کے عنوان سے وقیع تحریرات بھی
شامل کتاب ہیں۔کتاب سولہ ابواب پرمشتمل ہے۔دینی و عصری اداروں،سیاسی
پارٹیوں اور تحریکی و تنظیمی کام کرنے والے لیڈروں اور کارکنوں کو ایک دفعہ
اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔تاکہ انہیں معلوم ہو کہ کون کہاںاپنا
کردارادا کررہا۔ ہے اور کون صرف نام و نمود کی حدتک ٹامک ٹوئیاں مار رہا
ہے۔ |