جنوری 2013 میں ، میں نے ایک
طویل مضمون " کیا محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سیاست میں آنے کا
فیصلہ درست ہے؟" لکھاتھا۔ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب
جو محسن پاکستان کہلاتے ہیں سیاست میں آنے کے بعد تقسیم ہوجاینگے اور وہ
سیاست سے دور رہیں تو اچھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جو ایک نہایت ہی شریف اور معصوم
انسان ہیں اپنی شرافت اور معصومیت میں یہ دھوکہ کھاگئے کہ سیاست میں بھی
لوگ اُن کو وہی مقام دینگےجو ایک ایٹمی سائنسداں کے طور پر محسن پاکستان کے
خطاب کے ساتھ اُنکوملا ہے۔وہ بھٹو سے لیکرمشرف تک ہر حکومت کے قریب رہے ہیں
اسلیے سیاست کا نشہ وہ بھی کربیٹھے اور ایک سیاسی جماعت تحریکِ تحفظ
پاکستان کے نام سے بنائی ۔ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعداُنکو جو سیاسی
تجربہ ہوا اور انکی جماعت کا جو رزلٹ آیااُس نے آخرکار انکو مجبور کیا کہ
وہ سیاست سے دور ہوجایں۔عملی سیاست سے دور ہونے کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے
اپنے بیانات اور مضامین کے زریعے اپنے آپ کو سیاست سے دور نہیں کیا۔ ڈاکٹر
صاحب کافی عرصہ سے روزنامہ جنگ میں مضامین لکھ رہے ہیں، انکےمضامین کبھی
سماجی اور کبھی سیاسی ہوتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر گذشتہ 28 اکتوبر سے
ابتک ڈاکٹر صاحب اپنےپانچ مضامین میں پاکستان کے ایک کٹر مخالف مولانا
ابوکلام آزاد کے ہم خیال بنے ہوئے ہیں، ڈاکٹر صاحب بہت اچھی طرح جانتے ہیں
کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناع مولانا آزاد کو سخت ناپسند کرتے
تھے اور اُنکو کانگریس کا شوبوائے کہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے 28 اکتوبر
2013 کےمضمون "پاکستان کا مستقبل" میں لکھتے ہیں " ہمیں پاکستان حاصل کئے
66 سال ہوگئے۔ اس کے حاصل کرنے میں ہم نے بے حد قربانیاں دیں۔ علامہ اقبال
کی نصیحت و رہنمائی اور قائدِ اعظم اور ان کے ساتھیوں کی انتھک، مخلصانہ
اور بے لوث قیادت نے ہمیں پاکستان دلوادیا۔ اس میں ہندوستان کے مسلمانوں نے
جو قربانیاں دیں وہ دنیا کی کسی اور قوم نے اپنے ملک کو حاصل کرنے کے لئے
نہیں دیں"۔آگے چلکر اسی مضمون میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ " انگریزوں نے
ہندوستان میں اپنا ایک خاص غلام طبقہ پیدا کرلیا اور یہی طبقہ آج تک ہم پر
مسلط ہے۔ بہرحال ان کی تمام سازشوں اور تدبیروں کے باوجود ہندوستان اور
پاکستان کا قیام وجود میں آگیا۔ سر ونسٹن چرچل کی پیشگوئی جو انہوں نے
ہندوستان کو آزادی دینے کے خلاف کی تھی۔ ’’اقتدار بے ایمانوں، بدمعاشوں،
گھٹیا، غیرذمہ دار، قانون شکن لٹیروں کے ہاتھ میں چلا جائے گا، تمام
ہندوستانی لیڈر بدکردار اور بیکار و بے قیمت ہوں گے۔ ان کی زبان چرب و
میٹھی ہو گی مگر دل احمقانہ ہوں گے۔ وہ آپس میں اقتدار کی خاطر لڑتے جھگڑتے
رہیں گے اور ہندوستان سیاسی کشمکش کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ ایک ایسا وقت آئے
گا کہ جب ہوا اور پانی پر بھی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا‘‘۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے
ہیں کہ "چرچل ایک نہایت قوی ہیکل، دانشور اور اپنے وقت کا بہترین لیڈر تھا۔
وہ گاندھی کی عیاری و مکاری سے پوری طرح واقف تھا جبکہ بیچارے 40 کروڑ
ہندوستانی اُس کے جال میں اندھے تھے۔ اس کی پیشگوئی100 فیصد صحیح ثابت ہوئی
اور موجودہ حالات اس کا کھلا آئینہ ہے"۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے اسی مضمون میں گاندھی اور نہرو کے بہت قریبی ساتھی
مولانا ابوکلام آزادکے ایک انٹرویو جو شورش کاشمیری کو اُن کے میگزین چٹان
کو اپریل 1946 میں دیا تھا، اُس میں سے مولانا آزاد نے پاکستان کے بارے میں
جوپیشگویاں کی تھیں اسکے چند اقتباسات لکھے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ
ہندوستان کے وزیرتعلیم، اعلیٰ دینی عالم اور آزادی ہند کے ممتاز لیڈر
مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا ’’ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ نفرت و حقارت
پاکستان و ہندوستان کے تعلقات پر غلبہ پالیں گے۔ تقسیم ہند خود ایک بڑی
رکاوٹ ہو گی نفرت تعلقات پر غلبہ پا لے گی اور دونوں ممالک کبھی ایک دوسرے
کے دوست نہیں بن سکیں گے اور آپس میں مسلسل لڑتے رہیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ
مشرقی پاکستان زیادہ عرصہ تک مغربی پاکستان کا حصہ نہ رہ سکے گا کیونکہ
بنگالی مسلمانوں نے کبھی کسی غیروں کی چوہدراہٹ قبول نہیں کی‘‘۔ اس کے
علاوہ ڈاکٹر صاحب نے مولانہ آزاد کے انٹرویو سے دس عدد پیشگوئیاں بھی لکھی
ہیں جو سب کی سب پاکستان کے خلاف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے اگلے تین کالم میں جو
دو، نو اور سولہ دسمبر 2013 کوروزنامہ جنگ میں شایع ہوئے اس میں مولانہ
آزاد کا انٹرویو تھا۔ اگر آپ اس پورئے انٹرویو کو پڑھینگے تو یہ آپکو ایک
ایسے سیاستدان کا انٹرویو لگے گا جو پاکستان اور قائداعظم کا بدترین مخالف
تھا، مثال کے طور پر جب اُن سے کہا گیا کہ " بعض علماء بھی تو قائداعظم کے
ساتھ ہیں‘‘۔ تو مولانا آزاد کا جواب تھا " علماء اکبر اعظم کے ساتھ بھی تھے،
اُس کی خاطر انہوں نے ’’دین اکبری‘‘ ایجاد کیا تھا، اس شخصی بحث کو چھوڑو،
اسلام کی پوری تاریخ ان علماء سے بھری پڑی ہے جن کی بدولت اسلام ہر دور میں
سسکیاں لیتا رہا۔ راست باز زبانیں چند ہی ہوتی ہیں"۔ ڈاکٹر صاحب نے اس
انٹرویو کے بعد 23 دسمبر2013 کو ایک اور مضمون "16 دسمبر 1971ء" کے عنوان
سے لکھا جس میں وہ لکھتے ہیں "پاکستان ٹوٹنے کی پیشگوئی مولانا ابوالکلام
آزاد نے 1946ء میں جناب شورش کاشمیری کو دیئے گئے انٹرویو میں کردی تھی اور
یہ کہہ دیا تھا کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد یہ واقعہ
یقینی ہے"۔اسی مضمون میں آگے چلکر ڈاکٹر صاحب نےایک پیراگراف ایسا لکھا جس
میں انکی پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ ناراضگی کا بھرپور اظہار ہے اور شاید
28 اکتوبر سے 23 دسمبر تک اُنکے لکھے ہوئے کا حاصل بھی ہے، وہ لکھتے ہیں
"16 دسمبر1971ء کے دردناک اور شرمناک واقعات دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو
رو رہا تھااور جب 18 دسمبر 1974ء کو ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو مجھے
پاکستان کا مستقبل نہایت تاریک نظر آیااور میں نے بھٹو صاحب کو اپنی خدمات
پیش کردیں۔ اپنے نہایت روشن مستقبل کو، آرام دہ اور باعزت زندگی کو خیرباد
کہا، اس ملک کو دو ارب ڈالر کی دنیا کی مشکل ترین اور اہم ترین ٹیکنالوجی
مفت دے دی اور اپنے محب وطن و مخلص ساتھیوں کی مدد سے اپنا خون پسینہ ایک
کر کے سات سال میں ایک ایٹمی قوّت بنادیا اور پھر چند سال بعد اس کو ایک
میزائل قوّت بنا کر ہمارے دشمن کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا دیا لیکن
ہمارے حکمرانوں نے اپنی اسلامی تاریخی روایات (یعنی احسان فراموشی، نمک
حرامی، ناشکری، حسد، بغض) پر عمل کرکے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا وہ ان
حکمرانوں اور اس ملک کی تاریخ پر ہمیشہ ایک سیاہ داغ رہے گا اور یہ سلسلہ
آج بھی جاری ہے"۔
محترم ڈاکٹر صاحب! ہم پاکستانی جو اسوقت بٹی ہوئی قوم ہیں، ہم جولسانی ،
مذہبی، علاقائی تعصب کا بھرپور شاہکار ہیں مگر اس کے باوجود ہم آپ کے حوالے
سے اس بات پر متفق ہیں کہ آپ محسن پاکستان ہیں۔ ہم آپ کو اسلامی دنیا کے
پہلے ایٹم بم کے خالق اور ہیرو کے طور پر جانتے ہیں- ہمیں یہ بتانے کی بھی
ضرورت نہیں کہ ہمارے دل میں آپ کا کیا مقام ہے۔ آپکے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی
ہیں یقینا وہ نہیں ہونی چاہیئے تھی۔لیکن آپ کی 28 اکتوبر سے 23 دسمبر2013تک
کی تحریروں کو پڑھکر افسوس ہوا ہے، آپ نے خود بھی تسلیم کیا ہے کہ"میرے چند
ہم وطن ’’دانشوروں‘‘ کو میرا مولانا ابوالکلام آزاد کا جناب شورش کاشمیری
کو دیئے گئے انٹرویو کو عوام کی خدمت میں پیش کرنا بہت ناگوار گزرا ہے"۔
جبکہ آپکی اپنی تحریروں میں بھی تضاد ہے، ایک طرف آپ لکھتے ہیں "علامہ
اقبال کی نصیحت و رہنمائی اور قائدِ اعظم اور ان کے ساتھیوں کی انتھک،
مخلصانہ اور بے لوث قیادت نے ہمیں پاکستان دلوادیا۔ اس میں ہندوستان کے
مسلمانوں نے جو قربانیاں دیں وہ دنیا کی کسی اور قوم نے اپنے ملک کو حاصل
کرنے کے لئے نہیں دیں"۔ لیکن دوسری طرف آپ مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک
سیاسی انٹرویو کو بنیاد بناکر علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کی رہنمائی کی
نفی کررہے ہیں۔ چرچل نے جو بھی کچھ کہا تھا وہ نہرو اور گاندھی کو سامنے
رکھ کر کہا تھا، یہ بات تو مولانا آزاد نے بھی کہی تھی کہ ہندوستان کی
تقسیم کا ذمیدار نہرو ہے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں یقینا ہماری
غلطیاں ہیں لیکن کیا پاکستان نہ بنتا تو اب جو 50 کڑوڑ سے زیادہ مسلمان ہیں
،کیا ہندوں اُن 16کڑوڑمسلمانوں کو جو ہندوستان میں ہیں اُنکے حقوق دے رہے
ہیں، ہر گز نہیں ، بہت کم تعداد میں جو مسلمان اعلیٰ پوزیشنوں پر نظر آئیں
گے ان کی اکثریت ہندو کلچر میں رچی بسی ہے اور یہی ان کی ترقی کا راز ہے،
جس کی ایک مثال موجودہ ہندوستانی وزیرخارجہ سلمان خورشید ہیں ۔ اسلام آباد
کے ایک ہوٹل میں سرکاری تقریب میں کسی نے اُن سے پوچھا کہ وہ مسلمان ہونے
کے باوجود بھارت کے اس کلیدی عہدے پر کیسے پہنچ گئے، انھوں نے مسکراتے ہوئے
بتایا کہ ان کی بیگم ہندو ہیں۔ بقول ڈاکٹر صفدر محمود صاحب "جن حضرات کو یہ
حسن ظن ہے کہ پاکستان نہ بننے کی صورت میں مسلمان ہندوستان میں چالیس پچاس
کروڑ ہوتے اور ہندوستان کی کل آبادی کا تہائی حصہ ہوتے جو تقسیم ہند کے وقت
تھے وہ یقین رکھیں کہ پچاس کروڑ مسلمانوں کا بھی وہی حشر ہونا تھا جو آج
ہندوستان میں پندرہ سولہ کروڑ مسلمانوں کا ہو رہا ہے"۔محترم ڈاکٹر
عبدالقدیر خان صاحب اگر آپکو وقت ملے تو سیچررپورٹ کا مطالعہ ضرورکیجئے جو
ہندوں کی مسلمانوں سے دشمنی کی ہوشربا داستان ہے۔ آپسے گذارش ہے کہ "محسن
پاکستان، پاکستان پر رحم کریں" اور متنازہ تحریریں نہ لکھیں۔ |