ابن مریم

سال ۲۰۱۳ کا اختتام اور سال نو کی آمد، وطن عزیز کی زندگی کا ایک اور سال گزرا ،اور حالات پہلے سے بھی بدتر ہر سال ہی ایک نئی امید لیکر آتا ہے اور گزر جاتا ہے لیکن قوم کا مقدر ہے کہ بدلنے کا نام ہی نہیں لیتا نجانے یہ کیسا امتحان ہے کس جرم کی سزا ہے کہ ختم ہونے کو نہیں، غربت کی لکیر پیٹتا ایک بے ہنگم اور بے قاعدہ ہجوم جو باقاعدہ قوم ہونے کا دعویدار بھی ہے عمل سے خالی اور لائحہ عمل سے نابلد سیاسی اشرافیہ جو اپنے ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے عاری ہے گزشتہ پینسٹھ سالوں میں دونوں نے ہی اپنے حصے کا کام درست انداز میں نہیں کیا جسکا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اس تیزی سے رو بہ زوال ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ عمومأ تو یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی قوم اپنی آزادی کے بعد فورأ ترقی کی راہ پکڑتی ہے اور اپنے مقصد کی حصول کے لئے منزلوں پر منزلیں مارتی چلی جاتی ہے تعلیم کا شعبہ ہو یا صنعت کا پہیہ، قانون کی پاسداری ہو یا عوام کی خدمت نو آزاد قوموں کی ترقی کی رفتار اور مزاج دیدنی ہوتا ہے لیکن ہماری تو گنگا ہی شاید الٹی بہتی ہے کہ ماتھے پر علم کا جھومر سجانے کی بجائے گلے میں جہالت کا طوق ڈالے، وقار اور کردار کی خلعت فاخرہ کی بجا ئے لاقانونیت کا لبادہ اوڑھے، محنت اور ایمانداری کو اپنا وطیرہ بنانے کی بجائے ہوس کی عینک لگائے، اپنا پیٹ کاٹ کر ملک کی خدمت کی بجائے ملک کاٹ کر اپنا پیٹ بھرتے، ملکی اثاثوں کودوگناکرنے کی بجائے اپنے اثاثوں میں اضافہ کرتے، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہوئے، سر پر دستار کی بجائے کشکول اٹھائے اور ہاتھوں کوعوام کی خدمت کا عادی بنانے کی بجائے کرپشن اور لوٹ مار میں ماہر کرتے ہوئے ترقی کے راستے پر چلنے کی بجائے زوال کی طرف دوڑلگا رہے ہیں حالت یہ ہے کہ ہر آنے والا دن ’’نوید سحر‘‘ کی بجائے ’’شام غریباں‘‘ کا پیام لاتا ہے ہر صبح ہماری قوم کے آنگن میں بے بسی کا پرسہ دینے اترتی ہے ہر روز یہاں لاچارگی کا نوحہ سنتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اس ملک کا اس قوم کا حال بدل جائے بد حالی جو کئی عشروں سے محو رقص ہے اسکا تماشہ تھم جائے اور ان کے مقدر میں بھی ترقی کی کوئی تحریر لکھ دی جائے لیکن ابھی تک تو ساری دعائیں بے اثر ہوئی ہیں جنہوں نے قوم کو بھائی چارے کا سبق دینا ہے ان کی زبانیں آگ اگل رہی ہیں جن کی ذمہ تعمیر ہے وہ تخریب پر کمر بستہ ہیں، جنہیں رہبر سمجھیں وہ رہزن نکلتے ہیں، جو بانٹنے پر مامورہیں وہ چھین لینے پر بضد ہیں جن کا کام روشنی دینا ہے وہ اندھیرے تقسیم کر کررہے ہیں مسائل ہیں کہ آکٹوپس کی طرح پورے معاشرے کو اپنی جکڑ میں لے چکے ہیں اور ان کا حل ہے کہ دور دور تک نظر نہیں آتاآج ہمارے معاشرے کا پورا وجود مختلف قسم کے مہلک روحانی اور جسمانی عوارض کا شکار ہے اگر ٹھنڈے دل ودماغ سے جائزہ لیں اور سب سے بہتر ، ذہین اور فطین قوم ہونے کی خود فریبی کو طاق میں سجا کر سوچیں تو پتہ چلے گا کہ ہم اصل میں ہیں کیا اور کہاں کھڑے ہیں اور دنیا ہمیں کس نظر سے دیکھتی ہے۔ بحیثیت قوم ہم بہت سی بیماریوں کا شکار ہو کر اپنے لاغر پن کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں ایک طرف کرپشن اقربا پروری ،لوٹ مار اور ہوس کا بخار ہے جو اترنے کا نام ہی نہیں لیتا اور اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کا ’’کوڑھ‘‘ ہے جس نے پورے جسم پر پھیل کر اس کے حسن کو گہنادیا ہے اور اس کوڑھ کی وجہ سے آج یہ حالت ہو گئی ہے کہ ہم اپنا ہی گوشت کاٹ کاٹ کر پھینک رہے ہیں اور اپنے ہی جسم کو کاٹنے کے بعد سکون محسوس کرتے ہیں ، ایک طرف بے روزگاری کا سرطان ہے جو رفتہ رفتہ معاشرے کی رگوں میں اتر رہا ہے اور ہر آنے والا دن اس بیماری کی شدت میں اضافہ ہی کرتا ہے اور یہ دیمک کی طرح اندر ہی اندر معاشرتی وجود کو کھوکھلا کرتا جا رہا ہے اور رہا اس کا موثر علاج تو ’’گویا سراب ہو جیسے‘‘۔مذہبی منافرت، نسل پرستی ، صوبائی تعصب اور لسانیت کا ’’کالا موتیہ‘‘ ہے جس کے زہر نے ہماری آنکھوں پر قبضہ کر لیا ہے اور ہم بینائی ہوتے ہوئے بھی بصارت سے محروم ہیں اور اس اندھے پن میں ہماری لاٹھیاں ہمارے اپنے ہی لوگوں کے سر وں پر برس رہی ہیں یہ بصیرت کی کمی ہی تو ہے کہ ہم صرف وہ سنتے ہیں جو سننا چاہتے ہیں ہماری نظر میں وہی سچ ہے جس کو ہمارا دل مانتا ہے وہی دیکھتے ہیں جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں جو نہیں دیکھنا چاہتے اسے اپنے مفاد کے پاؤں تلے کچلنے میں عار بھی نہیں(چاہے وہ کوئٹہ ، کراچی میں مارا جائے یا راولپنڈی، پشاور میں اس میں نہ مذہب کی تخصیص ہے نہ عقائد کا تعلق) اور جو کچلا جائے اس کی چیخ وپکار ہماری سماعتوں سے نہیں ٹکراتی اور نہ اس ظلم کا شکار ہونے والے کے حق میں ہمارے حلق سے آواز نکلتی ہے کہ ایک دوسرے سے نفرت نے ہماری بینائی ہی نہیں قوت سماعت اور گویائی بھی چھین لی ہے ۔ اس پر مستزاد توانائی کا بحران ہے کہ جس کی کمی نے جسم سے جان نکال دی ہے اس بحرانی کیفیت کی وجہ سے معیشت ہے کہ سنبھل نہیں رہی لاء اینڈ آرڈر کی بدترین صورتحال نے پوری معیشت کو ’’پولیوزدہ ‘‘ کر کے اپاہج بنا دیا ہے کہ کسی کو سہارا دینا تو درکنار اب یہ اپنے پاؤں پر ہی کھڑے ہونے کے قابل نہیں ۔

ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ اگر کوئی انسان ان بیماریوں کا شکار ہو جائے اس کا جسم کوڑھ کا شکار، بخار میں مبتلا، سرطان سے متاثر اور اپاہج ہو جائے تو پھر اسکی عزت غیرت حمیت سب کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے اور وہ اس لاغرپن اور مجبوری میں دوسروں کا دست نگر بن کر ہی زندہ رہتا ہے بھیک اور مخیر حضرات کی پھینکی ہوئی امداد ہی اس کا مقدر ہوتی ہے وہ رحم طلب نظروں سے ہر آدمی کی طرف نظر اٹھاتا اور اپنے ہاتھ جوڑتا ہے تا کہ اپنی بے بسی کا کچھ بدل پا کر اپنے جسم وروح کا رشتہ جوڑے رکھے، آج من حیث القوم ہمارے یہی حالات ہو چکے ہیں اور جب کسی قوم کے یہ حالات ہوں کہ وہ دہشت گردی کے کوڑھ کا شکاراور معاشی طور پر اپاہج ہو تو ایسی صورت میں غیرت اور حمیت کی امید اور دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کا خیال دیوانے کا خواب نہیں تو اور کیا ہے، ایسی قوم کے مقدر میں بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ مخیر ممالک کی طرف امداد کے لئے ہاتھ بڑھائے۔ ایسے معاشرے کے ہاتھ جو اپنے وقار کا پرچم بلند کرنے کے لئے ہوتے ہیں وہ کشکول تھامے کبھی ’’ایڈ‘‘ کبھی ’’ ایڈ نہیں ٹریڈ‘‘ کی پرسوز آواز میں پکارتے ہیں کہ شاید کچھ مل جائے کہ جس سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہ سکے۔

جب حالات یہ ہو جائیں تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ اب اس امتحان کو ختم کردے اس قوم میں کسی ’’مسیحا‘‘ کا نزول فرما کوئی ایسا رہبر عطا کر دے جو ملک و قوم کو ذلت کی گہرائیوں سے نکال کر بام عروج تک لے جائے جو محض اپنے ووٹ بینک کے لئے عوامی امنگوں کا ترجمان نہ بنے بلکہ عوام کو امنگیں دے ، جو ہجوم غفیر کو اکٹھاکرکے سیاسی تماشہ لگانے کی بجائے اس ہجوم کو قوم بنا سکے اور اسے دنیا میں جینے کا ڈھنگ سکھائے اسکو آزادی کے مفہوم سے آگاہ کرے،اس کی عزت نفس کو بحال کرے ۔ کوئی ایسا ’’ ابن مریم‘‘ عطا کر دے جو اپنے دست شفقت سے اس مرد بیمار کا علاج کرے اور دہشت گردی کے ’’کوڑھ ‘‘ سے نجات دلائے، جو اس جسم پر ہاتھ رکھے اور مذہبی منافرت ، نسل پرستی ، لسانیت اور صوبائی تعصب کے اندھے پن کا علاج کرے اور اس کے شکار نابیناؤں کو بصارت عطا کرے، جو اپنی مسیحائی کی کرامت سے بے روزگاری کے ’’سرطان‘‘ سے نجات دلائے اور اپاہج اور لولی لنگڑی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے اس مردے میں جان ڈال دے۔ خدائے بزرگ و برتر ہر چند سال بعد کسی نہ کسی گروہ کو یہ کام کرنے کی دعوت دیتا ہے ، ہر حکمران کو قدرت موقع دیتی ہے کہ وہ اپنے عوام کے لئے مسیحا بنیں اور ان کے دکھوں اور پریشانیوں کا مداوا کریں لیکن افسوس کہ ازلی نااھلی ، ذاتی مفاد اور سوچ کے فقدان کے باعث آج تک کوئی حکمران مسیحا کا کردار ادا نہیں کر سکا، آج یہ موقع میاں نواز شریف کے پاس ہے قدرت نے اقتداراور اختیار بخش کر ان کو یہ دعوت دی ہے کہ اپنے ملک و قوم کی مسیحائی کریں اب آنے والے سالوں میں دیکھئے کہ میاں صاحب اس موقع سے خود فائدہ ’’اٹھاتے‘‘ ہیں یا عوام کو فائدہ ’’پہنچاتے‘‘ ہیں۔ اب یہ میاں صاحب پر منحصر ہے کہ وہ اس قوم کے لئے ’’ابن مریم‘‘ بن کر ابھرتے ہیں یا صرف ’’ابو مریم‘ ‘ کی سیاسی مدت پوری کرتے ہیںْ ْ
Rashid Mehmood
About the Author: Rashid Mehmood Read More Articles by Rashid Mehmood: 20 Articles with 29172 views I am a qualified CPA and professional Financial and Audit Manager with over 12 years of experience in a variety of industries in key roles at national.. View More