بنگلہ دیش ہائی کورٹ نے جماعت
اسلامی بنگلہ دیش کی رجسٹریشن کینسل کر تے ہوئے اس پر انتخابات میں حصہ
لینے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ انتقامی سیاست کا نیا باب ہے جو بنگلہ
دیش حکمران پارٹی عوامی لیگ کی سرپرستی میں قائم ہونے والے انٹرنیشنل کرائم
ٹریبونل ICTنے اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص جماعت اسلامی کے خلاف 1971میں
علیحدگی پسند تحریک کی مخالفت کر نے پر کھولا ہے۔ جماعت کے اسسٹنٹ سیکرٹری
جنرل مولانا عبدالقادر مولاکی پھانسی ایک الم ناک واقعہ ہے جماعت کے امیر
پروفیسر غلام اعظم کو 90سال کی سزا سنائی گئی اس وقت بنگلہ دیش پریس رپورٹس
کے مطابق 1200سے زائد جماعت کے لیڈرز پابند سلاسل ہیں اور ہزاروں کارکنان
جیلوں میں بندہیں اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے ہونے والے مظاہروں میں پولیس
کے ساتھ جھڑپوں میں دو سو سے زائد افراد کی ہلاکت رپورٹ کی گئی ہے یہ اس
انتقامی اور جنونی سیاست کا آغاز ہے جو انڈین نواز عوامی لیگ نے فروری
2010سے ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند پارٹی جماعت اسلامی کے خلاف شروع کی ہے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش پر جو الزامات عائد کئے جاتے کہ 1971ءمیں علیحدگی
پسند تحریک کا ساتھ نہ دیتے ہوئے متحدہ پاکستان کاز کی حمایت کی اور
پاکستان آرمی کے ساتھ مل کر جنگی جرائم میں ملوث ہوئے جن میں لوگوں پر تشدد
،خواتین سے زیادتی اور آزادی کے لئے لڑنے والوں کی ہلاکت جیسے سنگین
الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
حقائق کیا ہیں واقعات اور شہادتیں کس چیز کی گواہی دیتی ہیں اس پر ایک
تجزیاتی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
عوامی لیگ کے 1973ءکے دور حکومت میں جنگی جرائم کے حوالے سے جن ہزاروں
لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر پاکستانی آرمی کا ساتھ دینے کا الزام
عائد کیا گیا اس وقت صرف 195فوجیوں پر باقاعدہ فرد جرم عائد کی گئی اور یہ
تاریخی حقیقت ہے کہ اس وقت جماعت کے کسی فرد یا رہنما پر اس طرح کا کوئی
فرد جرم عائد نہیں کیا گیا اور وہ 195فوجی جنہیں شناخت کیا گیا انہیں
Tripartite Agreementجو بنگلہ دیش پاکستان اور انڈیا کے درمیان طے پایا اور
اس ایگریمنٹ 19اپریل 1974میںنئی دہلی بھارت میں دستخط ہوئے ان سب کو واپس
وطن بھجوا دیا گیا۔
اس تناظر میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیاسی بیک گراو ¿نڈ کو اگر سامنے
رکھا جائے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عوامی لیگ کے دونوں پچھلے دور اقتدار
1972-1975اور 1996-2001ان دونوں ادوارمیں جماعت اسلامی کے خلاف کوئی موومنٹ
نظر نہیں آتی 1980میں جمہوریت بحالی تحریک کے حوالے سے دونوں سیاسی جماعتوں
نے مل کر کام کیا متعدد بار دونوں جماعتوں کے رہنماو ¿ں کی جوائنٹ میٹنگز
ہوئیں اور 1980اور اس بعد بھی جماعت اسلامی نے عوامی لیگ کے ساتھ مل کر سات
سال ملٹری گورنمنٹ کے خلاف جمہوریت کو بچانے کے عمل میں کام کیا۔
1991میں عوامی لیگ نے جماعت کو Coalition Governmentبنانے کی باضابطہ دعوت
دی ”ڈیلی سنگرام“جو بنگلہ دیش کا سب سے زیادہ اشاعتی اخبارہے اس میں اس وقت
دونوں جماعتوں کے رہنماو ¿ں کی مشترکہ کانفرنسز اور میٹنگز کی تفاصیل موجود
ہیں اب موجودہ صورتحال پر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت متعدد بار اپنی
وضاحتی بیانات اور پالیسیز میں یہ واضح کیا ہے کہ 1971میں علیحدگی کی تحریک
میں پانچ ایسی سیاسی پارٹیاں بھی تھیں جنہوں نے کھل کر متحدہ پاکستان کی
حمایت اور علیحدگی کی مخالفت کی اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں سکالرز،
یونیورسٹی پروفیسرز ،علمی و فکر شخصیات ایسی تھیں جنہوں نے اپنی تحریر و
تقریر میں علیحدگی کی واضح مخالفت کی اور یہ سب چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں۔
جماعتی اسلامی کا واضح موقف یہ رہا ہے کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ ایک طویل
جدوجہد کے بعد قیام عمل میں آیا اور اس کے لئے مسلمانوں نے لاکھوں قربانیاں
دیں اور یہ کہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والی اس مملکت کو دو لخت نہیں
ہونا چاہیے اس لئے بنگلہ دیش کا قیام جوکہ انڈیا کی دخل اندازی کے باعث
وجود میں آیا بذات خود مملکت کے وجود کے لئے خطرہ باعث ہوگا اور یہ حالات و
واقعات نے بعد میں یہ ثابت کیا کہ انڈیا نے بنگلہ دیش کے وسائل کو جس بے
دردی سے لوٹا اور جس طرح سے سرحدی تنازات کھڑے کےے انہوں نے ہمارے بد ترین
خدشات کی تائید کی۔
بنگلہ دیشی گورنمنٹ کے سابقہ سپیکر جمیرالدین سار کرنے روزنامہ سنگرام کو
28مارچ 2010میں جنگی جرائم کے حوالے سے اپنے انٹرویو میں کہا کہ یہ غیر
منطقی ہے کہ 93000پاکستانی فوجیوں کو ٹرائل کے بغیر رہا کرنے بعد یہ کوئی
تک نہیں بنتی کہ اسطرح کے کیسز کو ری اوپن کیا جائے اور 39سال کے بعد
نامکمل شواہد اور ثبوتوں کی عدم موجودگی میں اسطرح کا انتقامی رویہ ناقابل
جہنم ہے۔
امریکہ میں آل مسلم پارٹی الائنس نے ہیلری کلنٹن سیکرٹری آف سٹیٹ کو 23مارچ
2010میں ایک میمورنڈم پیش کیا تھا کہ عوامی لیگ حکومتی اقتدار سے ناجائز
فائدہ اٹھاتے ہوئے مخالف سیاسی پارٹیوں پر ظلم و جور کا بازار گرم کر رہی
ہے 2009میں بھی حکومتی ایماءپر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 190سے زائد
افراد کو ناجائز حراست میں لیکر ہلاک کر دیا تھا اور انکا ٹرائل بھی نہیں
کیا گیا (روزنامہ نایہ ڈنگتہ)
انگلینڈ کی انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن نے جنگی جرائم کے حوالے سے اپنی
قانونی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا بنگلہ دیش میں انٹرنیشنل ٹریبونل کورٹ کی
قانون سازی انٹرنیشنل معیار پر پورا نہیں اترتی۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اور منظم مذہبی سیاسی پارٹی ہے جس نے
1986کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی10نشستیں حاصل کی اسی طرح 1991میں
18نشستیں اور 2001میں17نشستیں حاصل کی۔
جماعت اسلامی زیادہ تر انتخابات میں خالدہ ضیاءکی بنگلہ دیش نیشنل
پارٹی(BNP)کے اتحادی رہے اور حکومت سازی میں اہم رول ادا کیا۔
جماعت اسلامی ملک بھر کے سب سے بڑے فلاحی اور سماجی ادارے الحرا سماج کلیان
فاو ¿نڈیشن جسکے 30سے زائد ذیلی ادارے ہیں چلا رہی ہے۔
روزمانہ ”نایہ ڈنگتہ “جس کا 2005میں اجراءہوا جسکی موجودہ اثاثہ جات ایک
ارب ٹکہ مالیت سے تجاوز کر گئے ہیں جماعت ملکیتی اخبار ہے جسکی 12500روزانہ
کی اشاعت ہے۔
ایجوکیشن سیکٹر میں جماعت کی خدمات مسلم میں دارلسلام کوچنگ سینٹرنے 64سے
زائد اضلاع میں اپنی برانچز قائم کی ہوئے ہیں جو کہ زیادہ تر غریب اور
نادارطلباءکو تعلیمی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔
اسلامی بنک آف بنگلہ دیش ملک کا تیسرا بڑا بنک ہے جسکی14سے زائد برانچز ہیں
اور بنگلہ دیش کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کر رہا ہے جماعت کا
ایک قیمتی اثاثہ ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ حسینہ واجد بنگلہ دیش کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانا
چاہتی ہے اور اس حوالے سے انکی جماعت کی پالیسی سٹیٹمنٹ بھی متعدد بار
ریکارڈ پر آچکی ہے اور جنہیں انڈیا کے ساتھ گہرے روابط کی بناءپر دوسری
اندرا گاندھی بھی کہا جاتا ہے وہ مذہب کو State Religionکے طور پر لینے کے
لئے ہرگز تیار نہیں انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ 148.6ملین آبادی کے ملک
میں جہاں90.4 فیصد مسلمان رہتے ہیں 2003کے ایک انٹر نیشنل سروے کے مطابق
مذہب بنگلہ دیشی عوام کی پہلی چوائس ہے اپنی شناخت کے طور پر جسے عوامی لیگ
طاقت اور ظالمانہ ہتھکنڈوں سے سیکولر سٹیٹ بنانے کی مزموم کوششوں میں مصروف
عمل ہیں۔
اس سارے منظر نامے میں پاکستانی گورنمنٹ ، میڈیا اور عوام کے لئے بہت سے
سوالات اپنا جواب تلاش کرتے نظر آتے ہیں عہد وفا استوار رکھنے کے جرم متحدہ
پاکستان کے عظیم مجاہد مولانا عبدالقادر ملا جنہیں پھانسی کی سزا دی گئی
اور وہ ہزاروں جماعتی کارکنان جو اس وقت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر
رہے ہیں یہ سب پاکستان کی سا لمیت اور بقا کی جنگ لڑے آج اپنے ہی ملک میں
اجنبی ٹھہرے۔
حقیقت یہ ہے کہ صرف جماعت اسلامی کا معاملہ نہیں یہ دو قوموں کو یکجا کرنے
کی جہد مسلسل تھی لیکن ہمارا میڈیا اور اس وطن عزیز کی خالق ہونے کی
دعویدار مسلم لیگ اور اسکے لیڈرز کیوں مجرمانہ غفلت اختیار کیے ہوئے ہیں
مسلم امہ کیوں چپ ہے OICکہاں کھڑی ہے ہیومن رائٹس کے دعویدار کہاں گم ہیں؟؟
ادھر تقاضے ہیں مصلحت کے
ادھر تقاضائے دردِ دل ہےزباں سنبھالیں کہ دل سنبھالیں
اسیر ذکر وطن سے پہلے |