ایک نیوز اینکر اپنے کسی ناظر کی
لائیوکال لیتے ہوئے بار بار اس کی تصحیح فرما رہا تھا، بھلا کس بات پر…؟
لفظ ’’مسلمان‘‘ کے استعمال پر…! کالر کسی تکلیف دہصورتحال پر کڑھتے ہوئے
کہہ رہا تھا ’معلوم ہوتا ہے ہم تو مسلمان بھی نہیں ہیں‘، اینکر نے
’’تصحیح‘‘ کی: ’ہم تو انسان نہیں ہیں‘۔ کالر نے وہی بات دہرائی، اینکر نے
پھر اس کی ’’تصحیح‘‘ کا فرض انجام دیا۔ کالر نے قدرے زور دے کر کہا’ہم تو
مسلمان بھی نہیں ہیں‘۔ اینکر نے اس سے زیادہ زور دے کر کہا: ’وہ بعد کی بات
ہے، ہم تو انسان نہیں ہیں‘۔
واقعتاً یہ ایک ’غیرمحسوس‘ سی بات ہے! اس کی تہہ میں ایک بڑی عالمی تحریک
کام نہ کررہی ہوتی تو ہم بھی آپ کی طرح یہ سوچتے کہ یہ کوئی ایسی ’نوٹ کرنے
والی‘ بات نہیں ہے۔ البتہ ہمارا یہ مضمون پڑھیں تو شاید آپ بھی ہماری طرح
کہیں کہ یہ بات نہ صرف ’نوٹ کرنے‘ بلکہ ’’چیخ پڑنے‘‘ کی ہے۔ ’’ہیومن ازم‘‘
کے نام سے چلنے والی یہ عالمی تحریک کیا ہے اور اس کی زد میں اِس وقت آپ کا
’’کیا کچھ‘‘ ہے، اس کےلیے ہمارا یہ مضمون ملاحظہ فرمائیے… اور ہوسکے تو
اپنے شہر کے اصحابِ علم ودانش سے بھی اِس موضوع کو توجہ لے کر دیجئے۔ مسئلہ
خاموش رہنے کا نہیں ہے۔
بھائی کب تک انسانوں کو ’’مومن‘‘ اور ’’کافر‘‘ کی نظر سے دیکھو گے۔ چھوڑ
بھی دو؛ اب تک ’وہیں‘ کھڑے ہو۔ آگے بڑھو۔ انسانوں کو پیار کی نظر سے دیکھنا
سیکھو، مشرک ہوں کافر ہوں ہندو ہوں سکھ ہوں انبیاء کو ماننے والوں ہوں
انبیاء کو جھٹلانے والے ہوں، اس سے بھلا کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ آخرت میں
دیکھی جانے والی چیزیں ہیں دنیا میں نہیں! دنیا کو پیسے، وسائل اور مواقع
کی نظر سے دیکھو۔ مخلوق کو بانٹنا ہی ہے تو ’ترقی یافتہ وغیر ترقی یافتہ‘
اور ’مہذب و غیر مہذب‘ میں بانٹو؛ کم از کم اچھے تو لگو گے، کیونکہ یہ مطلق
’انسانی‘ قدریں ہیں، اس میں کوئی انسان تم سے اختلاف نہ کرے گا اور جو
اختلاف کرے اس کو انکل سام خود دیکھ لے گا! ایسا کرتے ہوئے کوڑھ مغز تو
نہیں لگو گے! البتہ ’’دین‘‘ کی نظر سے دیکھنا؟… جس میں انسانی ذوق اور
رجحانات ہی متفق نہیں اور نہ کبھی متفق ہوپائیں گے لہٰذا یہ ’تفرقہ‘ کی
بنیاد کیسے بن سکتا ہے!؟
بھائی انسان کو انسان کے طور پر دیکھو اور صرف ’انسانی‘ قدروں کی میزان میں
تولو۔ ’مطلق انسانی قدریں‘ جو اِن حالیہ صدیوں میں ہم پر یکلخت کہیں سے
الہام ہوئی ہیں! ’فضیلت‘ اور ’بھلائی‘ کا مطلق آفاقی حوالہ کوئی ہوسکتا ہے
تو بس یہی: انسان اور انسان کی متفق علیہ قدریں اور بس۔ اسلام کا بھی کوئی
حوالہ دینا ہے تو وہ جو اِس ’آفاقی‘ چوکھٹے میں پورا آئے۔ یعنی اسلام کو
بھی اسی میں فٹ کرواؤ؛ اسلام کے اپنے مستقل بالذات حوالے آخر کس کام کے؟!
(خدا خدا کرکے اور اتنی صدیوں کی محنت سے کوئی ’آفاقی حوالہ‘ انسانوں کے
ہاتھ لگا ہے؛ اور اسکے دم سے انسان کے دیرینہ مسئلے سدھر جانے کا وقت آیا
ہے؛ اس پر ایسی ناشکری؟!) باقی سب مذہبی گروہ اسی میں فٹ ہورہے ہیں تو
اسلام کیوں نہیں؟! مسلمانوں کی یہی عادت تکلیف دیتی ہے، ’نئی تبدیلیوں‘ کا
ساتھ دینے میں بلاوجہ دیر کرنا؛ آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا! نری
ضد؟! اُدھر دیکھو اِس دینِ جدید میں عیسائیت والے کب کے اپنی عیسائیت کو فٹ
کرا چکےاور تب سے عیش کر رہے ہیں، کہو تو کوئی انکی طرف انگلی اٹھائے؛ کچھ
اُنہی سے سیکھ لو۔ یہودیت والے اپنی یہودیت کے لیے اِس دین اکبری میں بھاری
کوٹہ پا چکے؛ دیکھ لو کس آرام سے جی رہے ہیں۔ ہندو یہاں اپنی الاٹمنٹ
کروانے میں لگے ہیں۔ سِکھ ہیں تو انکے مزے ہیں۔ مجوسی، دہریے، ہم جنس پرست
سب اپنی اپنی ’ڈومین‘ لے چکے؛ اپنی اپنی دنیا میں مگن، دن دگنی رات چوگنی
ترقی… اور تم مسلمان، وہی ’’ایمان لانے‘‘ کی ضد! ’’کفر‘‘ چھوڑنے کی ہٹ!
’’انبیاء‘‘ کو منوانے اور انکا دامن تھامنے پر اصرار؛ جس کے بغیر نہ نیکی
تمہارے ہاں نیکی ہے، نہ کوئی خوبی تمہارے ہاں خوبی ہے۔ کسی کا جنت اور جہنم
پر ایمان نہیں تو بھی اس کی خیرات اور ’’چیریٹی‘‘ میں بھلا کیا نقص ہے جو
تم اسے ذرہ بھر وقعت دینے کےلیے تیار نہیں! کسی کا مرنے کے بعد دوبارہ جی
اٹھنے اور جوابدہی کیلئے خدا کے حضور پیش ہونے پر یقین نہیں تو اسکی
’’خدمتِ انسانیت‘‘ میں آخر کیا عیب ہے جو اسکے ان اعلیٰ کارناموں کو تم رتی
بھر وزن دینے پر آمادہ نہیں۔ کوئی اپنے بتوں کے نام پر چڑھاوا دے، خدا کے
ساتھ ٹھہرائے ہوئے اپنے کسی شریک کے نام پر ذبیحہ کرے، دیویوں کی رضاجوئی
میں ہسپتال کھولے، لنگر چلائے، انسانوں کو نفع پہنچائے تم اسکو بھی جہنم کی
وعیدیں سنانے سے نہیں ٹلتے۔ خدا کا خوف کرو۔ یہ تمہارا کیسا خدا ہے جو غریب
کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھ سکتا، نادار کے پیٹ میں کھانا پڑتا برداشت
نہیں کرسکتا محض اس لیے کہ وہ ذبیحہ یا چڑھاوا جو اس انسان کے پیٹ میں گیا
خاص اُس کے نام پر ہونے کی بجائے اس کے کسی ’شریک‘ کے نام پر کرڈالا گیا
تھا؟! رزق، وسائل اور انسانی جذبوں کی ایسی ناقدری؟! جو حکم مردار کا وہ
حکم تمہارے نزدیک اُس نفع بخش صحتمند ‘healthy’ رزق کا جو غیراللہ کے نام
کردیا گیا! حقظانِ صحت کے اصولوں کے تحت اس میں کوئی ایک بھی تو کمی آئی
ہو! اس میں بھی تو انسانوں ہی کے ساتھ بھلائی کی گئی ہے۔ وہ بھی تو غریبوں،
یتیموں اور ناداروں کو کھلایا جانا تھا۔ ایسا نخرہ؟! نہ بھلائی تمہارے
نزدیک بھلائی۔ نہ اچھائی تمہارے نزدیک اچھائی۔ انسان کا سارا ٹیلنٹ رُل
جائے، احساسات خاک میں مل جائیں، سماجی میلانات مجروح ہوکر رہ جائیں، بس
تمہاری یہ ایک شرط پوری نہیں ہوئی کہ اس آدمی نے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ
کر تمہارے قرآن اور محمد (ﷺ) کا دم نہیں بھرا تو تم اس کا سب کچھ اکارت
ٹھہرا دیتے ہو۔ دو دل جڑیں تو تمہیں تکلیف ہونے لگتی ہے، تمہاری ’غیرت‘ جاگ
اٹھتی ہے اور تمہارا یہ ’’ادیان کا فرق‘‘ ایک مسلم لڑکی اور ہندو لڑکے کے
پیار میں آڑے آجاتا ہے؛ ذرا خود سوچو ’’پیار‘‘ ایسی آفاقی قدر، جس پہ دلوں
کو اختیار ہی نہیں ہے! اور جس کے ’تقدس‘ پر ہمارے ادب اور شاعری نے ڈیڑھ سو
سال تک تمہارے دماغ صاف کرنے کیلئے مغزماری کرلی، اسٹیج، فلم، ڈرامے اور
شوبز نے زور لگا لیا، تھیٹر روہانسا ہوگیا، ریڈیو نے گلا تھکا لیا، لچر
گانے بازگشت بن کر تمہارے پیچھے پھرتے رہے، ہمارا آرٹ، فیشن، میڈیا سب بھاڑ
جھونک بیٹھے اور تمہاری وہی ایک رَٹ:
لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ (الممتحنۃ: 10)
’’نہ یہ (مومن عورتیں) ان (مشرک مردوں) کیلئے حلال ہیں اور نہ وہ (مشرک
مرد) اِن (مومن عورتوں) کیلئے‘‘! ’’ملتوں کا فرق‘‘ کسی گہری خلیج کی طرح تم
نے اپنے اور دوسرے انسانوں کے مابین ڈال رکھا ہے؛ اندازہ تو کرو اِکیسویں
صدی میں بھی تم اِسی خلیج کو گہرا کرنے میں لگے ہو! ’’کفر و اسلام‘‘ نام کی
یہ فصیل تم اِس عہدِ گلوبل ازم میں اٹھانے کی سوچ رہے ہو؛ تمہاری یہ ہمت!
ایسی اونچی فصیلیں یہاں تم ہمارے اُس مطلوبہ جہان کے راستے میں کھڑی کرنے
لگے جس کے، ہمارے ’انسانیت‘ کے غم میں گھلنے والے میسونی Freemasonic
دماغوں نے، صدیوں خواب دیکھے تھے اور جس کے راستے کی ایک فصیل ’’خلافت‘‘ کو
ہم نے ہزار مشکل سے گرایا اور پھر اسکو گرانے کے بعد بھی سو سال تک اپنی
مطلوبہ تعمیرات کیلئے زمین ہموار کرتے رہے کہ تم ایک نئی فصیل کھڑی کر
لائے: ملتوں کا فرق! کافر سے براءت! شرک اور اہل شرک سے بیزاری! ’’مغضوب
علیہم‘‘ اور ’’ضالین‘‘ ایسی خوفناک اصطلاحیں جو ’پنجوقتہ نماز‘ سے ہی نکالی
جانے لگیں! اور اسکی ایسی ایسی تفسیریں((1)) جو سوائے کچھ سرپھروں اور شدت
پسندوں کے کسی کو ہضم ہونے کی نہیں اور جو اِس کرۂ ارض کو (’’ہمارے‘‘
مطلوبہ نقشے پر) کبھی امن کا گہوارہ بننے دینے والی نہیں!
یہ ہے نیا مذہب جس کا نام ہے ’’انسانیت‘‘ یا ’’انسان پرستی‘‘۔ ’’ہیومن
ازم‘‘۔
انکا کہنا ہے یہ ہیومن ازم ہر مذہب والوں کا ’’مذہب‘‘ ہوسکتا ہے، بلکہ یہ
تمام مذاہب کی اچھائیوں کا نکالا ہوا سَت ہے اور انسانیت کے جملہ امراض
کیلئے اکسیر۔ ہر مذہب کی اچھی چیز اس میں آپ سے آپ آگئی ہے۔ آپ عمل اس پر
کریں، پیراڈائم اِسکا قبول کریں، البتہ نیت چاہے جس بھی مذہب کی کریں۔
اچھائی کا آفاقی تصور یہاں سے لیں۔ بلکہ اچھائی ہے ہی آفاقی جو کسی
’اختلافی حوالے‘ کی پابند نہیں اور کسی نزاعی حوالے کی متحمل نہیں۔ لہٰذا
اچھائی وہ جو ’یونیورسل‘ ہو، یہ کرلیں تو آپ دینِ ’ہیومن ازم‘ پر ہوئے۔
اضافی طور پر آپ کچھ اور ہوں، اس سے فرق نہیں پڑتا؛ مسلمان، ہندو، عیسائی،
دہریہ، سب غیرمتعلقہ ہے؛ دیکھنا یہ ہے کہ آپ میں ’اچھائی‘ کتنی ہے۔ یہ
’اچھائی‘ ہیومن ازم کی چیز ہے، باقی مسئلے مذاہب کے اپنے اپنے ہیں۔ مذاہب
کو اگر یہ دعویٰ ہے کہ وہ دنیا میں ’اچھائی‘ کو فروغ دیتے ہیں، اور ظاہر ہے
کس مذہب کو یہ دعویٰ نہیں، تو وہ اپنے آپ کو ’ہیومن ازم‘ کی عدالت میں پیش
کریں؛ کیونکہ ’اچھائی‘ کا سارا ٹھیکہ اِسکے پاس ہے۔ آج ہر مذہب ’ہیومن ازم‘
کی عدالت میں ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ ہر مذہب اپنی اُن باتوں کو زیادہ سے
زیادہ پس منظر میں لےجاتے ہوئے جو اِس عدالت میں رد ہوسکتی ہیں، اور ان پر
مسلسل پردہ ڈالتے ہوئے، یا ہیومن ازم کے پیراڈائم کے ساتھ انکی زیادہ سے
زیادہ مطابقت کروانے کی خاطر انکو ’تاویل‘ کے دُوررَس عمل سے گزارتے ہوئے
(جوکہ یہاں پر سب سے زیادہ ’قدر‘ پانے اور سب سے بڑھ کر ’دستگیری‘ کے لائق
مانی جانے والی چیز ہے!)… آج یہاں اعلیٰ سے اعلیٰ نمبر لینے کی کوشش میں
ہے؛ اور اپنی کارکردگی روزبروز ’بہتر‘ کرنے لگا ہے۔ ہر ہر مذہب کے حاصل
کردہ نتائج پر آپ اگر ایک نظر ہی دوڑا لیں اور چند عشرے پیشتر کی صورتحال
کے ساتھ اس کا سرسری موازنہ ہی کرلیں، تو آپ دنگ رہ جاتے ہیں… خدایا! یہ تو
مذاہب کی ’اصلاح‘ بھی ہے!
’مذاہب‘ جو کبھی ’’انسان‘‘ کی اصلاح کرنے بیٹھے تھے اور ہزارہا سال تک
اِسکو جہنم، تباہی، عذابِ الٰہی، ’دیوتاؤں‘ کی پکڑ، ’دیویوں‘ کے روٹھ جانے،
پریوں کے بگڑ جانے، ارواح کے انتقام، اور نجانے کیسی کیسی بھیانک اشیاء سے
ڈراتے اور مرعوب کرتے رہے تھے، یہاں تک کہ بےچارے کا ڈر ڈر کر برا حال
ہوگیا تھا… حضرتِ ’’انسان‘‘ جاگے، اور اپنے ’اختیارات‘ اور اپنی ’حیثیت‘ و
’صلاحیت‘ معلوم کی، تو الٹا اِن مذاہب کی اصلاح کر ڈالی اور ان کو ایسا
سیدھا کیا کہ اب ایک ایک مذہب ’بندہ‘ بن کر حضرت کی درگاہ سے دوا لینے اور
باقاعدگی کے ساتھ اپنا ’علاج‘ کرانے جاتا ہے، اور جوکہ بڑی کامیابی کے ساتھ
جاری ہے اور آئے روز اپنے ناقابل یقین نتائج سے سبھی کو حیران کرتا ہے!
یہاں سے مذاہب کی تاریخ میں باقاعدہ ایک تحریک سامنے آئی جوکہ اب دنیا کا
ایک مقبول ترین فیشن بھی ہے، تحریک بھی، اور ایجنڈا بھی: reformation of
faiths یعنی مذاہب کی اصلاح۔ یہ کوئی ہمارا دیا ہوا لفظ نہیں، اور نہ یہ
کوئی فقرہ چست کرنے والی بات ہے۔ یہ ایک باقاعدہ اصطلاح ہے جو اِس تاریخی
عمل کو خود اہل مغرب کی طرف سے دی گئی: ’’ادیان کی ری فارمیشن‘‘، اور جوکہ
’’ہیومن ازم‘‘ کے ضمنی نتائج میں شمار ہونے والی ایک بہت بڑی عالمی حقیقت
ہے۔ سب باخبر لوگوں کا ماننا ہے کہ ’’ہیومن ازم‘‘اِس لحاظ سے لادین فلسفوں
ہی نہیں دینی مذاہب کی تاریخ کا بھی ایک نہایت عظیم قابل ذکر واقعہ ہے۔ ایک
ایسا واقعہ جس نے ادیان ایسی ’خودسر‘ اور ’عقل‘ سے بالاتر ’مافوق الفطرت‘
چیز کا رخ موڑ دیا۔ اسکے پر کُتر ڈالے۔ ایک نری ’غیر روحانی‘ چیز جس نے
’روحانیت‘ کا دھارا بدل دیا۔ بلکہ ادیان کی ہیئت ہی تبدیل کر ڈالی۔ یہاں تک
کہ سب مافوق الفطری مذاہب ’انسان‘ کا کلمہ پڑھنے لگے! اپنی اِس کامیابی پر
خود ’ہیومن اسٹ‘ شاید حیران ہوں؛ شروع میں یہ بات اُنکے اپنے وہم و گمان
میں نہ ہو گی کہ سب ’خدارسیدہ‘ مذاہب اِس رندِ سیاہ کار کی دست بوسی کو کسی
دن یوں حاضر ہوں گے!
زیادہ لوگ تو ’ہیومن ازم‘ کو ایک ایسے فلسفے کے طور پر ہی لیتے رہے تھے جو
خدا (یا ’خداؤں‘!) کی بجائے انسان کی مرکزیت پر اعتقاد رکھتا ہے، جس کی
بنیاد پر انسان نے اپنے معاملاتِ زندگی اب خود اپنے ہاتھ میں لےلیے ہیں اور
ان کو خدا (یا ’خداؤں‘!) کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیا ہے جس کےلیے اسے یہاں
کے پنڈتوں، گیانیوں، احبار، رہبان اور مشائخ کے پاس جانا ہوتا اور ان کے
نخرے اٹھانے پڑتے۔ انسان نے فیصلہ کیا کہ کوئی بیرونی قوت اپنے اِن ’مخصوص
نمائندوں‘ کے ذریعے اس کو اپنے قیود اور ضوابط کا پابند نہ کرے؛ بلکہ کوئی
قیود اور ضابطے اگر اس کی ضرورت ہیں تو یہ بات وہ خود اپنی سوچ سے طے کرے،
کیونکہ اپنے برے بھلے کی تمییز یہ انسان خود کرسکتا ہے، خیروشر کا شعور اِس
کو بدرجہ اتم حاصل ہے، اچھائی اور بھلائی خود اِس کے پاس بہت ہے اور بھلائی
کی آفاقی قدریں خود اِس کو بہت سمجھ آتی ہیں، اس کیلئے خدا اور آخرت کو بیچ
میں لانے کی ضرورت نہیں، اور اگر کسی کی ضرورت ہیں تو وہ لائے مگر اسکو
اپنے تک رکھے اور اسکو کوئی ایسا ’مطلق حوالہ‘ بنانے کی کوشش نہ کرے جس پر
انسان کا خوب یا بد ہونا ’موقوف‘ ہی ہو کر رہ جائے۔ خیر اسکے بغیر بھی پائی
جاسکتی ہے۔ اور شر سے اسکے بغیر بھی اجتناب ہوسکتا ہے۔ بلکہ ’’ہو رہا‘‘
ہے!!! لہٰذا کوئی ایسے آسمانی حوالے جو کسی شخص کے اپنے دل کو تسکین دیتے
ہیں وہ سب پر ٹھونسنے کی کوشش نہ کرے۔ وہ ایک ’اضافہ‘ ہوتو ہو ’’اصل‘‘ نہیں
ہے۔ ’’حوالہ‘‘ وہ نہیں ہو سکتا۔ ’’سند‘‘ ہم اُسکو نہیں کہیں گے۔ ایسی اشیاء
’موضوعی‘ ‘subjective’ ہی ہوسکتی ہیں یعنی جس کے من کو بھائیں وہ انہیں
اختیار کرے؛ مگر سب کو انکا پابند نہ کرے۔ ’’خیر‘‘ ایک مطلق و مستقل حوالے
کے طور پر البتہ وہ ہے جو انسان کو سمجھ آئے۔ اور ’’شر‘‘ بھی وہ ہے جو
انسان کو سمجھ آئے۔ اور جب خیر اور شر کی تعریف ہی یہ ہے (خود ہمارے مذہبی
جدت پسندوں کے بقول: معروف اور منکر کی حقیقت ’ازروئے اسلام‘ بھی یہی ہے!)
تو خیر اور شر کے حوالے ’آفاقی‘ ‘universal’ ہی رہیں گے، یعنی جن میں
انسانوں کے مابین نزاع نہ ہو اور نہ کسی ایسے نزاع یا جھگڑے کی اِس جہان
میں اجازت ہونی چاہئے۔ بہت ہولیا، انسان خدا (یا ’خداؤں‘!) کے نام پر بہت
لڑ لیا؛ ایسے جھگڑے خرد کی اِس دنیا میں اب مزید برداشت نہیں کیے جائیں گے۔
اب یہ تو کوئی جاکر خدا (یا ’خداؤں‘!) کو سمجھاتا کہ اِس ڈھیر ساری عقل کے
مالک انسان کی دنیا میں خدا (یا ’خداؤں‘!) کو اگر ایک آفاقی حوالہ
universal reference بننا تھا تو اُس ( یا ’اُن‘!) کو یہاں اتنے متضاد و
مختلف الخیال مذاہب کے ذریعے انسانوں سے رابطہ نہیں کرنا چاہئے تھا! یہ تو
اپنا اعتبار credibility خود کھو دینے والی بات ہوئی! کون اِن کے اختلافات
کا فیصلہ کرتا پھرےکہ اِن میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون؛ اِس جھوٹ سچ کے
فیصلے نے ہی تو خدا (یا ’خداؤں‘!) کے نام پر یہ اتنی ساری لڑائی کروائی ہے؛
جو اِس جھگڑے کا ’فیصلہ‘ کرنے چلے کیا وہ خود بھی اِس کا فریق نہ بن جائے
گا؟! اور ویسے اس کے بغیر ہمارا کونسا کام رُکا ہے جو سب کچھ چھوڑ کر یہ
فیصلہ کرنے چلیں کہ خدا کے نام پر بولنے والوں میں یہاں کون سچا ہے اور کون
جھوٹا؛ لہٰذا ہم تو بلا تمییز اِن سب سے کہیں گے کہ مہربانی فرما کر آپ
ہمیں یہ کارِجہان نبیڑنے دیں اور اپنے یہ جھگڑے اٹھا کر باہر تشریف
لےجائیں، اُدھر یہ شوق پورا کریں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا؛ ہماری تو یہ
ضرورت نہیں ہے! پس خدا کے نام پر سچ بولنے والے بھی دنیا میں اگر کوئی ہیں
(اور جن کو زمین کے تین جڑے ہوئے براعظموں کے وسط میں بسنے والی ڈیڑھ ارب
کی ایک امت کے یہاں ’’خدا کے فرستادہ انبیاء‘‘ کہا جاتا ہےاور جن کی ایک
ایک بات کو ان کے ہاں پوری سند کے ساتھ تلاش کیا جاتا ہے) تو ہماری بلا سے،
وہ اتنے ہی غیرمتعلقہ ہیں((2)) جتنے وہ لوگ جو آپ کے خیال میں خدا پر جھوٹ
باندھ رہے ہیں۔ لہٰذا ’آسمانی قوتیں‘ اگر کہیں ہیں بھی تو انسانوں کے ساتھ
’کومیونی کیشن‘ کے معاملہ میں پہلے قدم پر وہ ایسی فاش غلطی کر بیٹھی ہیں
کہ اس سے سارا مسئلہ الجھ کر رہ گیا ہے (اور جس کی بنیاد پر ہم نے تو اپنی
طرف سے ان کو ’فیل‘ کردیا ہے) اور جس سے لازم آچکا ہے کہ خدا کے نام پر
جھگڑنے والے اِن سبھی طبقوں کو بلاامتیاز ہم اپنی دنیا سے باہر کردیں۔
(هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ)((3)) سچے اور جھوٹے، سب
باہر جا کر جھگڑیں؛ ہمارے پاس نہیں! اور باہر بھی ہم ان کو ایک حد تک ہی
جھگڑنے دیں گے؛ اِس دنیا کا امن و امان اب ہماری ذمہ داری ہے؛ ’خدا‘ کے
ہاتھ میں یہ دنیا دے کر ہم نے بہت دیکھ لیا، اب ’خدا‘ والوں کے ہاتھ میں یہ
دنیا نہیں رہی ہے تو خود دیکھ لو پچھلی دو صدی سے دنیا کیسا امن و سکون کا
گہوارہ ہے!((4))۔
چنانچہ زیادہ لوگوں نے تو ’’ہیومن ازم‘‘ کو ایک ایسے فلسفے کے طور پر ہی
لیا تھا جو خدا (یا ’خداؤں‘!) کو ہٹا کر زمین کے سب معاملے ’’انسان‘‘ کو
سونپتا ہے۔ اس میں انسان آپ ہی اپنا مقصود ہے؛ کوئی اور ہستی ایسی شان نہیں
رکھتی کہ یہ اُس کےلیے پیدا ہوا ہو اور وہ اِس کی مقصود اور معبود ہو، اور
یہ اُس کی رضاجوئی کےلیے پریشان ہوتا پھرے۔ اس میں انسان کی اُن ’طبعی‘
خوبیوں کو بنیاد بنایا گیا ہے جو خیر اور شر کی تمییز کرنے میں ایک مستقل
بالذات حوالہ ٹھہرتی ہیں اور ’اس کے علاوہ کسی حوالے‘ کی محتاجی ختم
کروادیتی ہیں۔ جس کا آپ سے آپ نتیجہ ہوگا کہ یہ ’اچھائی‘ اور ’برائی‘ کا
صرف ایک ایسا تصور قبول کرے جو انسانوں کے مابین نزاعی نہ ہو۔((5)) یوں
انسان کو اُن سب اختلافی حوالوں سے بےنیاز کردینے کے بعد (ان ’اختلافی
حوالوں میں ظاہر ہے سرفہرست ’مذاہب‘ آتے ہیں)، کہ جب اس کے پاس صرف وہ
قدریں بچتی ہیں جن پر ’آفاقی‘ (universal) اور ’غیرنزاعی‘
(non-controversial) ہونے کا ٹھپہ ہو (یہ ٹھپہ جہاں بنتا اور ’اپ گریڈ‘
ہوتا ہے اس کا اوپر کچھ ذکر ہوچکا)… انسان کو اپنی ’انسانیت‘ نکھارنے،
’بھلائی‘ اور ’خدمتِ خلق‘ کرنے اور ’برائی‘ اور ’زیادتی‘ سے اجتناب کرنے کے
اعلیٰ ترین اسباق دیے جاتے ہیں۔ تو پھر اب خوب، بد، درست، غلط،
جائز،ناجائز، واجب، مباح، رشتوں ناطوں کی نوعیت اور رہن سہن کے جملہ امور
یہ ’’انسان‘‘ (اپنے کچھ ’’مخصوص‘‘ دماغوں کے ذریعے) ’’خود‘‘ طے کرسکتا ہے؛
انبیاء کو اِس معاملہ میں زحمت کرنے کی ضرورت نہیں…! اس لحاظ سے ’’ہیومن
ازم‘‘ وہ اصل زہرناک شجر ہے جس پر ابھی تک ’ڈیموکریسی‘، ’کیپٹل ازم‘،
’سیکولرزم‘، ’نیشنلزم‘، ’لبرلزم‘، ’کمیونزم‘ ایسی خوفناک ڈالیاں نمودار
ہوئیں اور اسی طرح کی اور بےشمار ڈالیاں ابھی مزید پھوٹ سکتی ہیں۔ یا یوں
کہئے اِن سبھی کا الٰہ ایک ہے (’انسان دیوتا‘) اور دین بھی ایک ہے (’انسان
دیوتا کی خوشنودی‘)، پھر بھی اِن کے مذاہب یا تو متنوع ہیں یا متضاد۔(مثال
کے طور پر اس دین کا ایک ہی اصول ’’انسان کی آزادی‘‘ کی تفسیر کیپٹل ازم کے
ہاں جو ہوتی ہے کمیونزم کے ہاں اس کے بالکل الٹ ہوتی ہے؛ جبکہ اصول دونوں
کا ایک ہے: ’انسانی آزادی‘)۔ پس اصل دین ان سب لوگوں کا ایک ہے: ہیومن ازم،
باقی اس کی شاخیں ہیں۔
’’ہیومن ازم‘‘ کو اِس پہلو سے تو سبھی جانتے ہیں۔ اور اس حوالے سے یہ ایک
باقاعدہ دین ہے ان سب روایتی مذاہب کے مقابلے پر جو انسان کو ایک مستقل
بالذات ہستی کے طور پر لینے کی بجائے اسے ایک مافوق الفطری طاقت ( یا
’طاقتوں‘) کا پرستار بناتے ہیں۔ ’’ہیومن ازم‘‘ کا ایک الگ تھلگ دین ہونا
بھی کوئی باعث تعجب بات نہیں۔ روایتی مذاہب کے مقابلے پر ایک نیا دین، اس
میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ ادیا ن ایک دوسرے کے حریف ہوں‘ یہ بھی کوئی نئی
بات نہیں۔ انسانوں کا ایک دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں چلے جانا بھی کوئی
انہونی خبر نہیں۔ ہر دین کا اپنا ایک ڈسکورس ہے جو چاہے اسے قبول کرے اور
جو چاہے اس کو مسترد کرےاور کسی دوسرے دین کے ڈسکورس میں اپنی تسلی ڈھونڈے۔
کہیں تسلی نہیں ہوتی؛ خود کوئی دین گھڑ لے۔ ’’ہیومن ازم‘‘ بھی ان ادیان میں
سے ایک دین ہوا؛ کسی کی تسلی ہیومن ازم میں ہوتی ہے تو وہ سو بار اسے قبول
کرے۔ہمارے اور اس کے فیصلے کےلیے قیامت کا ایک دن طے ہے؛ اور موت تک اس کی
مہار ڈھیلی ہے۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟ |